أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاذۡكُرۡ اَخَا عَادٍؕ اِذۡ اَنۡذَرَ قَوۡمَهٗ بِالۡاَحۡقَافِ وَقَدۡ خَلَتِ النُّذُرُ مِنۡۢ بَيۡنِ يَدَيۡهِ وَمِنۡ خَلۡفِهٖۤ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰهَ ؕ اِنِّىۡۤ اَخَافُ عَلَيۡكُمۡ عَذَابَ يَوۡمٍ عَظِيۡمٍ ۞

ترجمہ:

اور (اے رسول مکرم ! ) عاد کے ہم قبیلہ (ہود) کو یاد کیجئے، جب انہوں نے اپنی قوم کو احقاف (ریگستانی بستی) میں اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور ان سے پہلے بھی کئی ڈرانے والے پیغمبر گزر چکے تھے اور ان کے بعد آنے والے تھے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، بیشک مجھے تم پر بڑے دن کے عذاب کا خطرہ ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور (اے رسول مکرم ! ) عاد کے ہم قبیلہ (ہود) کو یاد کیجئے، جب انہوں نے اپنی قوم کو احقاف (ریگستانی بستی) میں اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور ان سے پہلے بھی کئی ڈرانے والے پیغمبر گزر چکے تھے اور ان کے بعد بھی آنے والے تھے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، بیشک مجھے تم پر بڑے دن کے عذاب کا خطرہ ہے انہوں نے کہا : کیا آپ اس لئے ہمارے پاس آئے ہیں کہ ہم کو ہمارے معبودوں سے برگشتہ کردیں، سو آپ وہ عذاب لے آئیں جس سے آپ ہم کو ڈرا رہے ہیں اگر آپ سچوں میں سے ہیں (الاحقاف : ٢٢۔ ٢١ )

کفار مکہ کو عبرت دلانے کے لئے حضرت ہد (علیہ السلام) کی قوم کا حال سنانا

اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر دلائل قائم فرمائے تھے اور اہل مکہ چونکہ دنیا کی رنگینیوں اور لذتوں میں کھوئے ہوئے تھے، اس لئے وہ ان دلائل میں غور و فکر کرنے سے اعراض کرتے تھے، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا : جس دن کفار کو دوزخ میں جھونک دیا جائے گا (تو ان سے کہا جائے گا کہ) تم اپنی لذیذ چیزیں دنیا کی زندگی میں لے چکے ہو اور ان سے فائدہ اٹھا چکے ہو، پس آج تم کو ذلت الا عذاب دیا جائے گا کیونکہ تم زمین میں ناحق تکبر کرتے تھے اور کیونکہ تم نافرمانی کرتے تھے (الاحقاف : ٢٠) اور اسی طرح قوم عاد بھی بہت مل دار اور قوت اور طاقت والی تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی نحوست کی وجہ سے ان پر عذاب نازل فرمایا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کا قصہ بیان فرمایا تاکہ اہل مکہ اس سے عبرت حاصل کریں اور دنیا کے مال و دولت اور دنیا کی طاقت پر غرور اور تکبر کرنا چھوڑ دیں اور رشد و ہدایت کو طلب کرنے کی طرف متوجہ ہوں۔

الاحقاف اور افک کا معنی

الاحقاف : ٢١ میں فرمایا ہے : آپ قوم عاد کے بھائی کو یاد کیجئے، اس سے مراد ہے : قوم عاد کے نسبی بھائی، اس سے دینی بھائی مراد نہیں ہے اور وہ حضرت ہود (علیہ السلام) ہیں، ان کا پورا نام ہے ہود بن عبد اللہ بن رباح بن الخلود بن عاد۔ اور قوم عاد، عاد بن عوض بن ارم بن سام بن نوح کی اولاد ہیں۔

پھر اس آیت میں فرمایا ہے : جب انہوں نے اپنی قوم کو احقاف میں اللہ کے عذاب سے ڈرایا۔

الاحقاف قوم عاد کی ریگستانی بستیوں کا نام ہے۔ الاحقاف، حقف کی جمع ہے، ریت کا بلند اور ٹیڑھا ٹیلہ جو بلندی میں پہاڑ کی مثل معلوم ہوتا ہو، یہ جگہ عمان اور عدن کے درمیان سمندر کا ساحل ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ یمن میں حضرموت کے پاس ایک وادی ہے۔

حضرت ھود (علیہ السلام) سے پہلے بھی کئی رسول گزر چکے تھے جنہوں نے یہ کہا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو او حضرت ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا : بیشک مجھے تم پر بڑے دن کے عذاب کا خطرہ ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 21