أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّمَا الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَا لَعِبٌ وَّلَهۡوٌ‌ ؕ وَاِنۡ تُؤۡمِنُوۡا وَتَتَّقُوۡا يُؤۡتِكُمۡ اُجُوۡرَكُمۡ وَلَا يَسۡـئَــلۡكُمۡ اَمۡوَالَكُمۡ ۞

ترجمہ:

دنیا کی زندگی تو محض کھیل اور تماشا ہے اور اگر تم ایمان پر برقرار رہو اور متقی بن جائو تو وہ تمہارے اجر تمہیں عطا فرمائے گا اور تم سے تمہارے اموال طلب نہیں فرمائے گا

محمد : ٣٦ میں فرمایا : دنیا کی زندگی تو محض کھیل اور تمازا ہے، اور اگر تم ایمان پر برقرار رہو اور متقی بن جائو تو وہ تمہارے اجر تمہیں عطا فرمائے گا اور تم سے تمہارے اموال طلب نہیں فرمائے گا

جہاد میں مال خرچ کرنے کی فضیلت اور لہو و لعب کا فرق

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کی مزید ترغیب دی ہے کہ دنیا کا مال و متاع تمہیں جہاد کرنے سے کس طرح مانع ہوسکتا ہے، کیونکہ جہاد کرنے سے تمہارا مال خرچ نہیں ہوتا، کیونکہ زیادہ تر جہاد میں تم کو فتح حاصل ہوتی ہے اور تم کو مال غنیمت حاصل ہوتا ہے اور اگر مال خرچ بھی ہوجائے تو تمہارے نیک اعمال اور ان کا اجروثواب تو اللہ تعالیٰ کے پاس محفوظ ہیں، اس لئے اگر بالفرض جہاد کرنے سے تمہارا مال خرچ ہوجائے یا کم ہوجائے تو تم اس کی پروانہ کرو کیونکہ دنیا کا مال اور دنیا کی زندگی بہرحال لہو و لعب ہے۔

لہو اور لعب میں یہ فرق ہے کہ لہو و لعب اس کام کو کہتے ہیں جس سے نہ تمہیں اب کوئی فائدہ ہو نہ مستقبل میں کوئی فائدہ متوقع ہو، پھر اگر اس کام میں مشغول ہونے کی وجہ سے انسان کے دوسری ضروری کاموں میں یا اس کی عبادات میں غفلت اور حرج نہ ہو تو وہ لعب ہے اور اگر اس میں مشغول ہونے کی وجہ سے اس کے ضروری کام اور عبادات نہ ہوسکیں تو پھر وہ لہو ہے۔ اس وجہ سے آلات موسیقی کو ملاھی (لہو کے آلات) کہتے ہیں اور شطرنج اور کبوتر بازی کو لعب کہتے ہیں۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٦٢ )

نیز اس آیت میں فرمایا ہے : اللہ تم سے تمہارے اموال طلب نہیں فرمائے گا۔

اس آیت کی حسب ذیل تفسیریں کی گئی ہیں :

(١) جہاد کرنے کے لئے اس میں مال کو خرچ کرنا تو ضروری ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے جہاد میں مال کی معین مقدار کو فرض نہیں کیا، جیسے زکوٰۃ میں مال کی معین مقدار کو سال پورا ہونے کے بعد مالک نصاب پر فرض کیا ہے یا جیسے مالک نصاب پر عید الاضحی کے دن قربانی کرنے کو فرض کیا ہے یا جیسے صاحب نصاب پر صدقہ فطر کو فرض کیا کہ اگر کسی مسلمان نے ان مدات میں مال کی ایک معین مقدار کو خرچ نہیں کیا تو اس سے قیامت کے دن سوال ہوگا، البتہ انسان اپنی مرضی اور خوشی سے جہاد میں جس قدر مال خرچ کرے گا اس کو اجرو ثواب ملے گا۔

(٢) تمہارے ہاتھوں میں جو مال ہے وہ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے اور وہی اس مال کا مالک ہے، لیکن اس نے تمہیں اس مال کو اپنی ضروریات میں خرچ کرنے کی اجازت دی ہے، اس لئے جب وہ تم سے جہاد میں مال خرچ کرنے کے لئے کہے تو تم اس میں بخل نہ کرو۔

(٣) اللہ تعالیٰ تم سے تمہارے کل اموال کا سوال نہیں کر رہا، وہ تم سیمتہاری ضروریات میں صرف ہونے کے بعد تمہارے اموال کا بہت قلیل حصہ طلب کرتا ہے جیسے زکوٰۃ میں اڑھائی فی صد اور عشر میں بارانی زمین میں دس فی صد اور نہری پانی سے سیراب ہونے والی زمین میں پانچ فی صد اور جہاد میں تو معین بھی نہیں فرمایا جتنا تم اپنی خوشی سے خرچ کرسکتے ہو کرو۔

القرآن – سورۃ نمبر 47 محمد آیت نمبر 36