قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًاؕ-وَ اللّٰهُ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۷۶)

ترجمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ کیا اللہ کے سوا ایسے کو پوجتے ہو جو تمہارے نقصان کا مالک نہ نفع کا اور اللہ ہی سنتا جانتا ہے۔

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ، کیا تم اللہ کے سوا اس کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہارے نقصان کا مالک ہے اور نہ نفع کا اور اللہ ہی سننے والا،جاننے والا ہے۔

{قُلْ:تم فرماؤ۔} اس آیت میں شرک کو باطل کرنے کی ایک اور دلیل بیان کی گئی ہے ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مستحق عبادت وہی ہوسکتا ہے جو نفع نقصان وغیرہ ہر چیز پر ذاتی قدرت و اختیار رکھتا ہو اورجو ایسا نہ ہو وہ مستحق عبادت نہیں ہوسکتا اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نفع و ضَرَر کے بِالذّات مالک نہ تھے بلکہ اللہ تعالیٰ کے مالک کرنے سے مالک ہوئے تو اُن کی نسبت اُلُوہِیَّت کا اعتقاد باطل ہے۔(ابو سعود، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۷۶، ۲ / ۷۶)

اسی لئے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جہاں مردے زندہ کرنے، بیماروں کو شفایاب کرنے، اندھوں کو بینا کرنے اور کوڑھیوں کو تندرست کرنے کا تذکرہ فرمایا ہے وہاں ہر جگہ یہ فرمایا کہ میں یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اِذن یعنی اجازت سے کرتا ہوں۔