أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِذۡ جَعَلَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الۡحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الۡجَـاهِلِيَّةِ فَاَنۡزَلَ اللّٰهُ سَكِيۡنَـتَهٗ عَلٰى رَسُوۡلِهٖ وَعَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَاَلۡزَمَهُمۡ كَلِمَةَ التَّقۡوٰى وَ كَانُوۡۤا اَحَقَّ بِهَا وَاَهۡلَهَا‌ؕ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمًا ۞

ترجمہ:

جب کافروں نے اپنے دلوں میں تعصب کو جگہ دی جو جاہلانہ تعصب تھا تو اللہ نے اپنے رسول پر طمانیت نازل کی اور مؤمنین پر اور اللہ نے انہیں کلمہ تقویٰ پر مستحکم کردیا اور وہی اس کے زیادہ مستحق اور اہل تھے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے

حمیت اور حمیت جاہلانہ کا معنی

الفتح : ٢٦ میں فرمایا : جب کافروں نے اپنے دلوں میں تعصب کو جگہ دی جو جاہلانہ تعصب تھا تو اللہ نے اپنے رسول پر طمانیت نازل کی اور مؤمنین پر اور اللہ نے انہیں کلمہ تقویٰ پر مستحکم کردیا اور وہی اس کے زیادہ مستحق اور اہل تھے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔

جب کسی شخص کو کسی سے غیرت اور عار آئے تو اس کی حمیت کہتے ہیں۔ زہری نے کہا : ان کا تعصب یہ تھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا اقرار کرنے سے انہیں عار محسوس ہوتا تھا اور ”……“ سے ابتداء کرنے اور مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے دینا ان کو اکڑ فوں اور مکہ پر ان کی اجارہ داری کے خلاف تھا۔ ابن بحر نے کہا : ان کی حمیت، ان کا اپنے بتوں کے لئے تعصب تھا جن کی وہ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے اور صرف اللہ کی عبادت کرنے سے ان کی ناک نیچی ہوتی تھی اور ان کا جاہلانہ تعصب یہ تھا کہ وہ کہتے تھے کہ مسلمانوں نے ہمارے بیٹوں اور ہمارے بھائیوں کو قتل کردیا، پھر بھی ہم ان کو مکہ میں آنے دیں تو یہ ہماری غیرت کے خلاف ہے، حالانکہ حج اور عمرہ کے لئے آنے والوں کو روکا نہیں جاتا تھا اور ان مہینوں میں قبائلی لڑائیاں بھی موقوف کردی جاتی تھیں۔

” کلمۃ التقوی “ کے متعلق متعدد اقوال

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور اللہ نے انہیں (مسلمانوں کو) کلمہ تقویٰ پر مستحکم کردیا۔

حضرت ابی بن کعب نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ کلمہ تقویٰ سے مراد ” لا الہٰ الا اللہ “ پڑھنا اور حضرت علی حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس (رض) ، عمرو بن میمون، مجاہد، قتادہ، عکرمہ، ضحاک وغیر ہم سے بھی یہی مروی ہے۔

اور بعض نے کہا : اس سے مراد ” لا الہٰ الا محمد رسول اللہ “ ہے۔

اور حضرت علی اور حضرت ابن عمر سے بھی روایت ہے کہ اس سے مراد ” لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر “ ہے۔

اور عطاء بن ابی رباح اور مجاہس سے روایت ہے کہ اس سے مراد ”……“ ہے۔

اور زہری نے کہا : اس سے مراد ”……“ ہے، کیونکہ مشرکین نے اس کلمہ کو قبول نہیں کیا تھا، لہٰذا مؤمنین کو اس کلمہ کے ساتھ خاص کردیا گیا اور ” کلمۃ التقوی “ یعنی کلمہ اخلاص کے حق دار مسلمان ہی ہیں نہ کہ کفار، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے دین کے لئے اور اپنے نبی کی رفاقت کے لئے مختص فرمالیا۔

القرآن – سورۃ نمبر 48 الفتح آیت نمبر 26