أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لَـقَدۡ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوۡلَهُ الرُّءۡيَا بِالۡحَـقِّ‌ ۚ لَـتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَـرَامَ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ اٰمِنِيۡنَۙ مُحَلِّقِيۡنَ رُءُوۡسَكُمۡ وَمُقَصِّرِيۡنَۙ لَا تَخَافُوۡنَ‌ؕ فَعَلِمَ مَا لَمۡ تَعۡلَمُوۡا فَجَعَلَ مِنۡ دُوۡنِ ذٰلِكَ فَتۡحًا قَرِيۡبًا ۞

ترجمہ:

بیشک اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا، تم انشاء اللہ ضرور مسجدِ حرام میں امن اور عافیت کے ساتھ داخل ہوگئے، اپنے سروں کو منڈاتے ہوئے اور بال کترواتے ہوئے، تمہیں کسی کا خوف نہیں ہوگا، اللہ ان چیزوں کو جانتا ہے جن کو تم نہیں جانتے، سو اس نے اس سے پہلے ایک اور فتح مقدر کردی

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا، تم انشاء اللہ ضرور مسجدِ حرام میں امن اور عافیت کے ساتھ داخل ہوگئے، اپنے سروں کو منڈاتے ہوئے اور بال کترواتے ہوئے، تمہیں کسی کا خوف نہیں ہوگا، اللہ ان چیزوں کو جانتا ہے جن کو تم نہیں جانتے، سو اس نے اس سے پہلے ایک اور فتح مقدر کردی۔ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کردے اور اللہ (اپنے رسول پر) کافی گواہ ہے۔ (الفتح : ٢٨۔ ٢٧ )

اللہ تعالیٰ کے ” ان شاء اللہ “ فرمانے کی توجیہات

قتادہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب میں دیکھا کہ آپ امن اور عافیت کے ساتھ مکہ میں داخل ہوگئے ہیں، پھر جب آپ نے حدیبیہ میں قریش سے صلح کری تو منافقین شک میں پڑگئے کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم عمرہ کرنے جا رہے ہیں اور یہ عمرہ کیے بغیر قریش سے صلح کرکے واپس آگئے، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سب لوگوں کو یہ بتادیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب اس سال کے بعد اگلے سال مسجد حرام میں امن اور عافیت کے ساتھ داخل ہوں گے اور یہ سال اگلے سال امن اور عافیت کے ساتھ عمرہ کرنے کا مقدمہ اور پیش خیمہ تھا اور آپ نے جو خواب دیکھا تھا وہ سچا تھا اور اس سال آپ کا عمرہ کے لئے سفر کرنا بھی برحق تھا۔

اس آیت میں جو ” ان شاء اللہ “ فرمایا ہے وہ تعلیم اور تادیب کے لئے ہیں اور آپ کی امت کو یہ بتانے کے لئے ہے کہ تم نے مستقبل میں جو کام کرنا ہو اس کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کی طرف مفوض کردیا کرو، جیسا کہ درج ذیل آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ارشاد فرمایا ہے :

………(الکہف : ٢٤۔ ٢٣ )

آپ کسی کام کے لئے یہ نہ کہیں کہ میں اس کو کل کرنے والا ہوں۔ ہاں ! اگر اللہ چاہے (یعنی اس کے ساتھ انشاء اللہ کہیں) ۔

ثعلب نے کہا : اللہ تعالیٰ نے ” ان شاء اللہ “ اس لئے فرمایا کہ مخلوق کو ان چیزوں کا علم نہیں تھا جن کا اللہ تعالیٰ کو علم تھا۔

الحسین بن الفضل نے کہا : اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ جو اصحاب حدیبیہ میں آپ کے ساتھ تھے ان میں سے بعض اگلے سال سے پہلے فوت ہوجائیں گے اور اس آیت کے تمام مخاطبین مسجد حرام میں نہیں جاسکیں گے یعنی ان چودہ سو اصحاب میں سے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ وہ اگلے سال عمرہ کرنے کے لئے مسجد حرام میں داخل ہوں گے۔

اور ایک قول یہ ہے کہ ” ان شاء اللہ “ کا معنی ہے : اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں مسجد حرام میں داخل ہونے کا حکم دیا یا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اس کو آسان کردیا تو تم ضرور مسجد حرام میں داخل ہوگے۔

یہ دخول مستقبل میں ہونا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان سے مسجد حرام میں داخل ہونے کا وعدہ کیا اور اس کو اپنی مشیت پر موقوف کردیا اور یہ حدیبیہ کا سال تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب کو اس خواب کی خبر دی کہ انشاء اللہ وغیرہ کریں گے، وہ خوش ہوگئے اور حدیبیہ کے سفر پر روانہ ہوگئے، بعد میں معلوم ہوا کہ اس سے مراد اگلے سال عمرہ کرنا تھا اس سے ان کو بہت رنج ہوا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش سے صلح کی اور واپس آگئے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو اگلے سال عمرہ کرنے کی اجازت دی۔ اور یہ آیت نازل فرمائی کہ تم مسجد حرام میں انشاء اللہ ضرور داخل ہوگے اور جس طرح آپ سے خواب میں فرمایا تھا اسی طرح یہ آیت نازل فرما دی۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر منڈانے اور بال کتروانے کے محمل

اس آیت میں سر منڈانے اور بال کتروانے دونوں کا ذکر ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرہ کے موقع پر بال کتروائے تھے، حدیث میں ہے :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بال قینچی سے کاٹے تھے۔

(صحیح البخاری رقم الھدیث : ١٧٣٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٢٤٦۔ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٨٠٢، سنن نسائی رقم الحدیث : ٢٧٣٧)

اور حج کے موقع پر بی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سر کے بال منڈائے تھے، حدیث میں ہے :

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے حج میں سر کے بال منڈوائے تھے۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٧٢٦، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٣٠٤، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٩٨٠)

سر کے بال کتروانے اور منڈوانے میں منڈوانا افضل ہے۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی : اے اللہ ! سر منڈوانے والوں پر رحم فرما، مسلمانوں نے کہا : یا رسول اللہ ! اور بال کتروانے والوں پر ؟ آپ نے دعا کی : اے اللہ ! سر منڈوانے والوں پر رحم فرما، مسلمانوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اور سر کے بال کتروانے والوں پر ؟ تو آپ نے فرمایا : اور سر کے بال کتروانے والو پر۔ نافع نے کہا : آپ نے چوتھی بار سر کے بال کتروانے والوں کے لئے رحم کی دعا کی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٧٢٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٣٠١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٠٤٤ )

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار سر کے بال منڈوانے والوں کے لئے رحم کی دعا کی اور ایک بار سر کے بال کتروانے والوں کے لئے دعا کی۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٧٤٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٣٠٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدی : ٣٠٤٣ )

حدیبیہ میں وہ کون سی باتیں تھیں جن کو مسلمانوں نہیں جانتے تھے ؟

نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :ـاللہ ان چیزوں کو جانتا ہے جن کو تم نہیں جانتے۔

یعنی اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ایک سال کی تاخیر سے عمرہ کرنے میں مسلمانوں کے لئے خیر اور اصلاح ہے اور تم اس چیز کو نہیں جانتے تھے۔ کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیبیہ سے واپس آنے کے بعد خیبر کی طرف گئے اور اس کو فتح کرلیا اور خیبر سے مسلمان بہت زیادہ اموال ِ غنیمت لے کر آئے اور حدیبیہ کے بعد اگلے سال مسلمانوں کی تعداد اور ان کی قوت میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہوگیا۔ پھر جب مکہ فتح کرنے گئے تو آپ کے ساتھ ہزار مسلمان تھے اور قریش مکہ چند گھنٹوں کی لڑائی میں دس بارہ ہزار آدمی قتل کرا بیٹھے اور پھر انہوں نے اجتماعی طور پر شکست قبول کرلی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فاتحانہ شان سے مسجد حرام میں داخل ہوگئے اور مکہ میں نصب تمام بت توڑ ڈالے اور ” جاء الھق و زھق الباطل “ کا نعرہ بلند فرمایا اور حضرت بلال نے کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دی۔

ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ مسلمانوں نے کس سال عمرہ کے لئے مسجد حرام میں داخل ہونا ہے اور مسلمانوں کو یہ علم نہیں تھا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ اللہ کو علم تھا کہ مکہ میں مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ہیں اور حدیبیہ پر حملہ کی صورت میں وہ روندے جائیں گے اور مسلمانوں کو یہ علم نہیں تھا۔

حدیبیہ کے بعد کون سی فتح حاصل ہوئی ؟

نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا : سو اس نے اس سے پہلے ایک اور فتح مقدر کردی۔

ابن زید اور ضحاک نے کہا : اس کا معنی یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خواب کی تعبیر پوری ہونے سے پہلے فتح خیبر کو مقدر کردیا۔ بعض مفسرین نے کہا : اس فتح سے مراد فتح مکہ ہے۔ مجاہد نے کہا : اس سے مراد صلح حدیبیہ اور اکثر مفسرین کا یہی مختار ہے۔

زہری نے کہا : صلح حدیبیہ کے بعد اسلام میں بہت فتوحات ہوئیں، کیونکہ اس صلح کے بعد قریش کے ساتھ جنگ ختم ہوگئی، لوگ امن اور عافیت میں آگئے اور دین اسلام کے برحق ہونے اور شرک کے باطل ہونے کے متعلق گفتگو اور بحث شروع ہوگئی، پھر جو شخص بھی اسلام کے متعلق غور کرتا وہ اسلام میں داخل ہوجاتا اور اس کے بعد دو سالوں میں اس قدر لوگ اسلام میں داخل ہوئے کہ اس سے پہلے کبھی اتنے داخل نہ ہوئے تھے، چھ ہجری میں مسلمانوں کی تعداد چودہ سو تھی اور اس کے دو سال بعد فتح مکہ کے سال مسلمانوں کی تعداد دس ہزار تھی اور یہ مسلمانوں کی بہت بڑی فتح تھی۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 48 الفتح آیت نمبر 27