آؤ کہ اجرِ کارِ رسالت ادا کریں ؟؟!!!

تحریر : نثار مصباحی

 

فیس بک پر اپنے ایک کرم فرما کی ٹائم لائن پر اہلِ بیتِ اطہار کی شان میں ایک منقبت دیکھی. منقبت -ما شاء اللہ- اچھی تھی مگر اس کا ایک مصرع تھا:

“آؤ کہ اجرِ کارِ رسالت ادا کریں.”

شاعر کا مدعا یہ ہے کہ محبتِ اہلِ بیتِ اَطہار دراصل رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے کارِ رسالت کا “اجر” ہے. اور ان کی امت کو یہ اجر ادا کرنا چاہیے.

شاعر نے یہ مفہوم آیتِ مودّت سے نکالا ہے, مگر افسوس کہ انھوں نے آیت کی درست سمجھ نہ ہونے کی وجہ سے اس مفہوم کے استخراج میں لغزش کھائی ہے.

آیتِ کریمہ یہ ہے :

“قل لا أسئلكم عليه أجرا إلا المودة في القربىٰ”

آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے محبوب !

آپ فرما دیجیے کہ تبلیغِ رسالت پر مَیں تم سے کچھ اجر نہیں طلب کرتا,

ہاں, قرابت کی محبت تم سے طلب کرتا ہوں.

یعنی یہاں دو الگ الگ باتیں ہیں:

1- پہلی چیز تبلیغِ رسالت پر “اجر” ہے. تبلیغِ رسالت پر تم سے کسی اجر اور بدلے کا مطالبہ نہیں.

2- دوسری چیز ہے “قُربیٰ کی محبت”. تم سے اِسی قُربیٰ کی محبت کا مطالبہ ہے.

دوسری بات پہلی بات میں شامل نہیں ہے.

اسی بات کو اہل علم کی زبان میں سمجھا جائے تو “إلا المودة في القربى” میں لفظِ “الّا” سے “مودتِ قربی” کا جو استثنا کیا گیا ہے وہ استثناے منقطع ہے. (تفسیر الجلالین) یعنی ما سبق میں “لا أسئلكم علیہ اجرا” کے “اجر” میں یہ شامل ہی نہیں ہے. بلکہ یہ ایک الگ شی ہے جس کا مطالبہ یہاں مخاطَب بندوں سے کیا گیا ہے.

اور جب یہ “اجر” میں شامل ہی نہیں ہے تو یہاں اجرِ کارِ رسالت کے طور پر اس کا مطالبہ بھی نہیں ہو سکتا ہے.

امام فخر الدین رازی تفسیرِ کبیر میں لکھتے ہیں :

“المودة في القربى ليست أجرا”

یعنی قربیٰ کی محبت “اجر” نہیں ہے.

نیز امام رازی استثناے منقطع والی بات پر لکھتے ہیں :

هذا استثناء منقطع، و تم الكلام عند قوله قل لا أسئلكم عليه أجرا.

ثم قال إلا المودة في القربى أي لكن أذكركم قرابتي منكم، و كأنه في اللفظ أجر و ليس بأجر.

یعنی

یہ استثناے منقطع ہے اور “قل لا أسئلكم علیہ اجرا” پر کلام مکمل ہو گیا ہے.

پھر اس کے بعد “الا المودۃ فی القربیٰ” کہا ہے یعنی (کسی بھی اجر کا تم سے مطالبہ نہیں کرتا) البتہ مَیں تمھیں اپنی قرابت یاد دلاتا ہوں. گویا یہ (قرابت کی محبت) لفظ کے اعتبار سے “اجر” لگ رہی ہے جب کہ یہ اجر نہیں ہے.”

(تفسیرِ کبیر, سورۃ الشوری, آیت 23)

 

امام رازی نے اسی مقام پر قرآنی آیات کی روشنی میں اسے کئی طریقے سے ثابت کیا ہے کہ سرکار صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی تبلیغ اور کارِ رسالت کے اجر کا کسی مخلوق سے مطالبہ نہیں ہے. اور نہ ہی ہو سکتا ہے. یہ تو بس اللہ عزوجل کے ذمۂ کرم پر ہے.

 

حق یہ ہے کہ اپنے محبوب صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو کارِ رسالت کا اجر صرف اللہ رب العلمین دے گا. کسی مخلوق سے نہ ہی اس کا مطالبہ ہے اور نہ ہی کسی فردِ بشر کی استطاعت میں یہ ہے کہ وہ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے کارِ رسالت کا کچھ اجر ادا کر سکے.

لہذا شاعر کا “مودَّتِ قربیٰ” (اہل قرابت کی محبت) کو “کارِ رسالت کا اجر” قرار دینا درست نہیں.

 

#نثارمصباحی

6 محرم 1440ھ