اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْۘ-اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ۠(۲۰)

ترجمۂ کنزالایمان:جن کو ہم نے کتاب دی اس نبی کو پہچانتے ہیں جیسا اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں جنہوں نے اپنی جان نقصان میں ڈالی وہ ایمان نہیں لاتے۔

ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب عطا فرمائی وہ اس نبی کوایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں (لیکن ) جو اپنی جانوں کو نقصان میں ڈالنے والے ہیں تو وہ ایمان نہیں لاتے۔
{ اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ:جنہیں ہم نے کتاب عطا فرمائی۔} یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کے علماء جنہوں نے توریت و انجیل پائی وہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے حلیہ مبارک اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے نعت و صفت سے جوان کتابوں میں مذکور ہے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں یعنی جیسے اولاد کے اولاد ہونے میں شبہ نہیں اسی طرح حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے میں انہیں شبہ نہیں۔ چنانچہ اس کا ثبوت اس روایت سے بھی ملتا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہی آیت حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سامنے پڑھ کرحضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو پہچاننے کی صورت پوچھی تو انہوں نے فرمایا: میں نے جیسے ہی رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا دیدار کیا تو انہیں پہچان گیا بلکہ اپنے بیٹے کے مقابلے میں انہیں زیادہ جلدی پہچان گیا، میں اس بات کی گواہی تو دے سکتا ہوں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سچے رسول ہیں لیکن عورتوں نے کیا کیا وہ میں نہیں جانتایعنی ہو سکتا ہے کہ انہوں نے میرے پیچھے کوئی خیانت کر لی ہو اور یہ بیٹا میرا نہ ہولیکن رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے سچے رسول ہونے میں مجھے کسی قسم کا شبہ نہیں ہوسکتا۔
تفسیر بغوی میں پہچاننے کی یہ صورت لکھی ہے ’’جیسے اپنے بیٹے کو دیگر بچوں کے درمیان پہچان لیتے ہیں کہ آدمی ہزاروں میں اپنے بیٹے کو بلا تَرَدُّد پہچان لیتا ہے ایسے ہی یہ لوگ سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو پہچانتے ہیں لیکن ان میں جو اپنی جانوں کو خسارے میں ڈالنے والے ہیں تو وہ ایمان نہیں لاتے۔ یہودیوں کا ایمان نہ لانا حسد کی وجہ سے تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حسد کے ہوتے ہوئے کسی کی خوبی تسلیم کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔اس آیت سے یہ اہم مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو جاننا پہچاننا ایمان نہیں بلکہ انہیں ماننا ایمان ہے۔