أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لَقَدۡ كُنۡتَ فِىۡ غَفۡلَةٍ مِّنۡ هٰذَا فَكَشَفۡنَا عَنۡكَ غِطَآءَكَ فَبَصَرُكَ الۡيَوۡمَ حَدِيۡدٌ ۞

ترجمہ:

بیشک تو اس دن سے غفلت میں تھا تو ہم نے تیری آنکھوں سے پردہ ہٹا دیا تو آج تیری نگاہ بہت تیز ہے

انسان کی دنیا میں غفلت اور آخرت میں اس کی نگاہ کا تیز ہونا

قٓ:22 میں فرمایا : بیشک تو اس دن سے غفلت میں تھا، سو ہم نے تیری آنکھوں سے پردہ ہٹا دیا تو آج تیری نگاہ بہت تیز ہے۔

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اس آیت میں کافر سے خطاب ہے کیونکہ وہ کفر کے نتائج سے غفلت میں تھا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں مطلقاً انسان سے خطاب ہو کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کے علاوہ ہر انسان کسی نہ کسی وقت اپنے اعمال کے نتائج سے غافل ہوتا ہے۔

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : جب انسان قبر سے نکلے گا تو اس کی نگاہ بہت تیز ہوگی۔ مجاہد نے کہا : میدانِ محشر میں اس کی نگاہ بہت تیز ہوگی اور اس آیت میں ” بصر “ کا لفظ ہے، ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد بصیرت ہے کیونکہ وہ اپنی بصیرت سے اپنے افکار کے شواہد اور اپنے اعتبار کے نتائج کو دیکھے گا اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد سر کی آنکھ ہے۔ قتادہ نے کہا : وہ اس آنکھ سے آخرت کے احوال کا معائنہ کرے گا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : وہ اپنی آنکھ سے جنت یا دوزخ کو دیکھے گا۔ ابن زید نے کہا : وہ اپنی نیکیوں اور گناہوں کو دیکھے گا۔ حسن بصری نے کہا : وہ اپنے دنیا میں کیے ہوئے کاموں کو دیکھے گا۔ (النکت والعیون ج 5 ص 349-350، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

القرآن – سورۃ نمبر 50 ق آیت نمبر 22