کبیر تابعین امام شعبی اور امام ابو بردہ کا حجاج بن یوسف پر لعنت کرنا

تحقیق :اسد الطحاوی

 

امام عبد الرزاق اپنی مصنف میں ایک روایت بیان کرتے ہیں :

 

عن الثوري، عن المجالد بن سعيد قال: رأيت عامرا الشعبي، وأبا بردة ” يتكلمان: والحجاج يخطب حين قال: «لعن الله الكذابين»، ولعن الله، فقلت: أتتكلمان والإمام يخطب؟ قالا: «إنا لم نؤمر أن ننصت لهذا»

 

امام عامر الشعبی اور امام ابو بردہ آپس میں بات کررہے ہوتے تھے اس وقت جب حجاج بن یوسف خطبہ دے رہا ہوتا تھا اور یہ کہہ رہے ہوتے تھے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹوں پر اور فلاں فلاں لوگوں پر لعنت کرے تو میں نے کہا کہ آپ خطبہ کے دوران کلام کررہے ہیں تو وہ بولے کہ ہیں اس آدمی کے لئے خاموش رہنے کا حکم نہیں دیا گیا۔

[مصنف عبدالرزاق 5432]

 

سند کے رجال کی تحقیق:

 

پہلے راوی: سفیان بن سعید الثوری

امام سفیان الثوری امیر المومنین فی حدیث ہیں اور انکا معنعنہ حدیث کی صیحت پر اثر انداز نہیں کیونکہ متفقہ علیہ طبقہ ثانیہ کے مدلس ہیں ۔

 

دوسرے راوی : مجالد بن سعید

 

جیسا کہ امام ذھبی میزان میں انکے بارے نقل کرتے ہیں:

 

مجالد بن سعيد [عو، م معا] الهمداني.

مشهور صاحب حديث على لين فيه.

روى عن قيس بن أبي حازم، والشعبي.

وعنه يحيى القطان، وأبو أسامة، وجماعة.

قال ابن معين وغيره: لا يحتج به.

وقال أحمد: يرفع كثيرا مما لا يرفعه الناس، ليس بشئ.

وقال النسائي: ليس بالقوى.

وذكر الاشج أنه شيعي.

وقال الدارقطني: ضعيف.

وقال البخاري: كان يحيى بن سعيد يضعفه، وكان ابن مهدي لا يروي عنه.

وقال الفلاس: سمعت يحيى بن سعيد يقول: لو شئت أن يجعلها لي مجالد كلها عن الشعبي، عن مسروق، عن عبد الله – فعل.

وقيل لخالد الطحان: دخلت الكوفة فلم لم تكتب عن مجالد؟ قال: لانه كان طويل اللحية.

قلت: من أنكر ماله: عن الشعبي، عن مسروق، عن عائشة – مرفوعا.

لو شئت لاجرى الله معي جبال الذهب والفضة

[میزان الاعتدال برقم : 7070]

 

اسکے مقابل محدثین کی توثیق بھی مروی ہے جو کہ درج ذیل ہے :

 

وقال: حدثنا سفيان عن مجالد بن سعيد، «وقد تكلم الناس فيه وبخاصة يحيى بن سعيد ، وهو ثقة»

امام سفیان فسوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے انکے بارے کلام کیا ہے خاص کر یحییٰ بن سعید نے لیکن یہ ثقہ ہے

[المعرفہ والتاریخ جلد ۳ ص ۱۰۰]

 

وأما مجالد والأجلح فقد تكلم الناس فيهما، ومجالد على حال أمثل من الأجلح.

اور امام سفیان الفسوی کہتے ہیں کہ مجالد کا حال الاجلح راوی سے بہتر ہے (نوٹ الاجلح ثقہ راوی ہے)

[المعرفہ والتاریخ جلد ۳ ص ۸۳]

 

وَرَأَيْتُ في كتاب عليٍّ: قَالَ يَحْيَى بن سعيد: أملى عليَّ جعفر بن مُحَمَّد الْحَدِيْث الطويل؛ يعني: حديث جابر في “الحج.

قلت ليَحْيَى: مُجَالِد بن سعيد وجعفر بن مُحَمَّد؟ قَالَ: مُجَالِد أحب إليَّ من جعفر.

سَمِعْتُ يَحْيَى بْن مَعِيْن يقول: مُجَالِد بْن سَعِيد ثقة.

وَسَمِعْتُه مرة أخرى يَقُولُ: مُجَالِد بْن سَعِيد ضَعِيْف واهي الْحَدِيْث.

 

مجھے امام یحییٰ بن معین نے کہا کہ جعفر بن محمد سے مجھے مجالد زیادہ محبوب ہے

اور ابن معین نے مجالد کو ثقہ قرار دیا ہے

 

اور پھر سنا کہ یہ ضعیف اور واھی الحدیث ہے

[تاریخ الکبیر امام خیثمہ برقم : 4065- 3214]

 

– مجَالد بن سعيد ثِقَة قَالَه يحيى

امام ابن شاھین کہتے ہیں ثقہ ہے اور یحییٰ بن معین نے یہی کہا ہے

[تاريخ أسماء الثقات برقم: 1435]

 

– مجالد بن سعيد: “كوفي”، جائز الحديث، حسن الحديث،

امام عجلی کہتے ہیں یہ جائز الحدیث اور حسن الحدیث ہے

[تاريخ الثقات برقم: 1537]

 

مجالد بن سعيد الهمداني الاخباري عن الشعبي وقيس بن أبي حازم وعنه ابنه إسماعيل وشعبة والقطان ضعفه بن معين وقال النسائي ليس بالقوي وقال مرة ثقة توفي 144 م

 

امام ذھبی الکاشف میں فرماتے ہیں :

کہ ان سے امام شعبہ نے روایت کیا ہے (وہ اپنے نزدیک فقط ثقہ سے بیان کرتے ہیں ) اور القطان نے انکی تضعیف کی ہے اور ابن معین نے بھی اور نسائی نے اسکو لیس بالقوی قرار دیا ہے (یعنی صدوق ) اور پھر آخر میں انکو ثقہ قرار دیا ہے

[الکاشف برقم : 5286-]

 

امام ابن معین سے انکے مقدم شاگرد الدوری سے جرح و تعدیل دونوں مروی ہے

 

جیسا کہ امام ابن ابی حاتم بیان کرتےہیں :

نا عبد الرحمن قال قرئ على العباس بن محمد الدوري عن يحيى بن معين انه قال: مجالد لا يحتج ك) بحديثه.

ابن ابی حاتم کہتے ہیں میں نے عباس الدوری ابن معین سے کتاب سے بیان کرتے ہیں کہ مجالد سے احتجاج نہیں کیا جائے گا حدیث میں

[الجرح والتعدیل برقم : 1653]

 

جبکہ اسکے بر عکس امام ابن معین کی کتاب جو کہ الدوری سے روایت ہے اس میں توثیق مروی ہے

 

– وسمعت يحيى يقول مجالد بن سعيد ثقة

[تاریخ ابن معین بروایت الدوری برقم: 1277 ]

 

اسی لیے امام ابن شاھین انکو مختلف فیہ رجال میں نقل کرتے ہوئے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 

وعن أحمد بن أبي خيثمة قال: سمعت يحيى بن معين مرة أخرى يقول: مجالد بن سعيد ثقة

قال أبو حفص: وهذا الخلاف في أمر مجالد، يوجب التوقف فيه، وهو إلى التعديل أقرب، لأن الذي ضعفه اختاره، والذي ذمه مدحه، لأن يحيى بن سعيد ضعفه في رفعه الحديث، ثم اختاره على حجاج وليث، ووثقه يحيى بن معين بعدما ضعفه والله أعلم

 

امام ابن شاھین فرماتے ہیں : کہ مجالد کے بارے اختلاف واقع ہوا ہے جسکی وجہ سے اس سے توقف کیا گیا ۔ جبکہ اسکی توثیق زیادہ راجح ہے بجائے اسکی تضعیف کے ۔ جیسا کہ اسکو ضعیف کہنے والے کے برعکس اسکی مدح بھی ہے ۔

جیسا کہ ابن معین نے انکی تضعیف کی ہے پھر انکی توثیق کی ہے اسکی تضعیف کرنے کے بعد اللہ بہتر جاننے والا ہے

[المختلف فيهم]

 

اسی طرح امام ذھبی کہتےہیں :

 

/ مجَالد بن سعيد الْهَمدَانِي مَشْهُور صَالح الحَدِيث قَالَ أَحْمد لَيْسَ بِشَيْء وَقَالَ ابْن معين لَا يحْتَج بِهِ وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيّ ضَعِيف

مجالد یہ مشہور ہے اور صالح الحدیث ہے احمد نے لیس بشئی قرار دیا اور ابن معین نے لا احتجاج بہ قرار دیا ہے اور دارقطنی سے تضعیف ہے

[5183 المغنی فی ضعفاء]

 

لیکن امام ذھبی و ابن حجر عسقلانی کی آخری کتب کا موقف دیکھا جائے تو اسکی توثیق کی طرف جاتے ہوئے اسکو حسن الحدیث و صدوق قرار دیا ہے

 

جیسا کہ امام ذھبی میزان الاعتدال میں اس پر لین کا اطلاق کیا ہے اور سیر اعلام میں بھی انہوں نے یہی کہا ہے

 

جیسا کہ وہ لکھتے ہیں :

 

وفي حديثه لين.

 

او ر لین کا اطلاق امام ذھبی صدوق درجے کے راوی پر کرتے ہیں

 

جیسا کہ سیر اعلام میں ایک جگہ ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :

 

هذا حديث حسن اللفظ، لولا لين في محمد بن كثير المصيصي لصحح.

کہ یہ حدیث حسن ہے ان الفاظ سے اگر محمد بن کسیر میں کمزوری (لین ) نہ ہوتی تو یہ صحیح کے درجہ کی ہوتی

(سیر اعلام النبلاء جلد ۷ ، ص۱۳۴)

 

اسی طرح ایک اور راوی کے بارے کہتےہیں

بهز بن حَكِيم بن مُعَاوِيَة الْقشيرِي صَدُوق فِيهِ لين وَحَدِيثه حسن

 

بھز بن حکیم یہ صدوق درجہ کا ہے اور اس میں کمزوری ہے اور اسکی حدیث حسن درجہ کی ہے

(المغنی فی ضعفاء برقم : 1007 )

 

معلوم ہوا امام ذھبی کے نزدیک لین راوی سے مروی حدیث حسن درجہ کی ہوتی ہے

 

اور امام ابن حجر عسقلانی بقیہ کتب میں مجالد کی تضعیف کی ہے

 

لیکن تقریب میں وہ انکے بارے لکھتے ہیں :

 

مجالد بضم أوله وتخفيف الجيم ابن سعيد ابن عمير الهمداني بسكون الميم أبو عمرو الكوفي ليس بالقوي وقد تغير في آخر عمره

 

مجالد بن سعید ھمدانی یہ لیس بالقوی ہے اورعمر کے بالکل آخری حصے میں تغیر آگیا تھا

[تقریب التہذیب برقم : 6478-]

 

لیس بالقوی اعلی ٰ درجہ کی توثیق کی نفی ہوتی ہے اس سے راوی کے صدوق ہونے کی نفی نہیں ہوتی ہے

 

جیسا کہ خود امام ابن حجر عسقلانی کا منہج دیکھا جائے تو وہ صدوق راوی پر لیس بالقوی کا اطلاق کرتے ہیں

 

جیسا کہ تقریب التہذیب میں ہی وہ ایک راوی کے بارے فرماتےہیں :

 

سليمان ابن عبيد الله الأنصاري أبو أيوب الرقي [الحطاب] صدوق ليس بالقوي

سلیمان بن عبید اللہ یہ صدوق (درجہ ) کا ہےاور قوی نہیں ہے

[تقریب التہذیب برقم : 2591]

 

مذکورہ تحقیق سے ثابت ہوا کہ مجالد حسن الحدیث اور صدوق درجہ کا راوی ہے

 

اسکے باوجود مجالد کو ایک استثناء بھی حاصل ہے کہ مجالد جب شعبی سے روایت کرتا ہے تو اسکی روایت ٹھیک ہوتی ہے

 

جیسا کہ امام ابن عدی الکامل میں اسکے متعلق اپنا فیصلہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

 

ومجالد لَهُ عن الشعبي عن جَابِر أحاديث صالحة وعن غير جَابِر من الصحابة أحاديث صالحة وجملة ما يرويه عن الشعبي وقد رواه عن غير الشعبي ولكن أكثر روايته عَنْهُ وَعَامَّةُ مَا يَرْوِيهِ غَيْرُ مَحْفُوظٍ.

 

مجالد کی مروایات شعبی سے جابر کے طریق سے جو احادیث ہیں وہ صالح ہیں اور جو (شعبی کے طریق سے ) جابر کے علاوہ دیگر صحابہ سے ہیں وہ بھی صالح ہیں ۔ جیسا کہ یہ شعبی سے کثرت سے روایت کرتے ہیں ۔ اور جب یہ بغیر شعبی کے (کسی اور سے ) ان سے روایت کیا گیا ہے وہ عام طور پر غیر محفوظ ہوتی ہیں

[الکامل ابن عدی جلد 8ص 169]

 

یہی وجہ ہے امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں مجالد کو ضعیف ماننے کے باوجود استثناء دیا ہے

 

جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:

 

قلت: رواه أبو داود وغيره باختصار. رواه البزار من طريق مجالد، عن الشعبي، عن جابر، وقد صححها ابن عدي.

 

میں کہتاہوں اسکو روایت کیا ہے ابو داود اور دوسروں نے اختصار سے اور روایت کیا ہے بزار میں مجالد کے طریق سے شعبی سے اور اسکی روایت کی تصحیح کی ہے ابن عدی نے

(کیونکہ انہوں نے استثناء قرار دیا ہے کہ مجالد کی شعبی سے جابر سے اور دیگر صحابہ سے روایات صالح ہوتی ہیں اور محفوظ ہوتی ہیں

[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد برقم : 10633]

 

اسی طرح ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں :

 

رواه أبو يعلى من رواية مجالد بن سعيد عن الشعبي، قال ابن عدي: هذه الطريق أحاديثها صالحة، وبقية رجاله رجال الصحيح، وقد ضعف مجالدا جماعة، والحديث عند أبي داود وابن ماجه دون ذكر

 

اسکو روایت کیا ہے ابو یعلی ٰ نے جسکا طریق مجالد کا شعبی سے ہے ابن عدی اس طریق کی کی احادیث کو صالح قرار دیتے ہیں اور اسکے باقی اسکے رجال صحیحین کے ہیں اور مجالد کو جماعت نے کمزور قرار دیا ہے ۔

[مجمع الزوائد برقم : 10787]

 

تحقیق دعاگو : اسد الطحاوی الحنفی