امام بخاری کی قوت حفظ ذکاوت و ذہانت اور وسعت علم

جعفر بن محمد القطان بیان کرتے ہیں کہ امام بخاری نے مجھے بتایا میں نے ایک ہزار سے زیادہ شیوخ سے احادیث لکھی ہیں اور ہر شیخ سے دس ہزار سے زیادہ احادیث لکھی ہیں اور میں ہر حدیث کی سند ذکر کرتا ہوں ۔

عبد الرحمان بن محمد بخاری بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام بخاری سے سنا کہ میں ایک ہزار مشائخ سے ملا جن میں اہل حجاز عراق، شام اور مصر کے مشائخ تھے میں ان سے بار بار ملا اور شام مصر اور الجزیرہ کے مشائخ سے دوبار ملا اور اہل بصرہ کے مشائخ سے چار بار ملا اور حجاز کے مشائخ سے چھ بار ملا اور میں شمارنہیں کرسکتا کہ میں خراسان کے محدثین کے ساتھ کتنی بار کوفہ اور بغداد گیا ان میں قابل ذکر مشائخ یہ ہیں: المکی بن ابراہیم یحی بن یحی ابن شقیق قتیبہ اور شہاب بن معمر اور شام کے مشائخ میں: الفريابی ابومسہر ايو الممغیرہ اور ابوالیمان میں ان میں سے جس سے بھی ملا ان میں سے کسی کا بھی اس میں اختلاف نہیں تھا کہ دین قول اور عمل ہے اور قرآن اللہ کا کلام ہے۔

محمد بن ابو حاتم الوراق بیان کرتے ہیں کہ میں نے حاشد بن اسماعیل اور دوسروں سے سنا ہے کہ امام بخاری ہمارے ساتھ بچپن میں مشائخ بصرہ کے پاس جاتے تھے اور وہ احادیث لکھتے نہیں تھے حتی کہ کافی دن گزر گئے ہم نے ان سے کہا: آپ ہمارے ساتھ جاتے ہیں اور لکھتے نہیں ہیں، پھر آپ کیا کریں گے؟ سولہ دن گزر جانے کے بعد امام بخاری نے کہا تم نے مجھ سے لکھنے کے متعلق بہت اصرار کیا ہے جاؤ تم اپنی لکھی ہوئی حدیثیں میرے پاس لاو پس ہم اپنی لکھی ہوئی حدیثیں ان کے پاس لائے امام بخاری نے اس سے پندرہ ہزار حدیثیں زیادہ زبانی بیان کر دیں اور کہا تم یہ سمجھتے تھے کہ میں فضول یہاں آتا ہوں اور اپناوقت ضائع کرتا ہوں پھر ہم نے جان لیا کہ امام بخاری پرکوئی مقدم نہیں ہوسکتا۔

يوسف بن مون المروزی بیان کرتے ہیں کہ میں جامع بصرہ میں تھا کہ میں نے ایک منادی کی آواز سنی:اے اہل علم بے شک امام محمد بن اسماعیل بخاری آچکے ہیں لوگ ان سے طلب حدیث کے لیے کھڑے ہو گئے میں بھی ان کے ساتھ تھا ہم نے ایک نوجوان شخص دیکھا جو ستون کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا جب وہ نماز سے فارغ ہو گئے تو سب نے اس شخص سے درخواست کی کہ وہ ان کے لیے مجلس املاء منعقد کریں انہوں نے ان کی درخواست منظور کر لی صبح کے قریب اتنے اور اتنے ہزار لوگ جمع ہو گئے اور امام بخاری احادیث لکھوانے کے لیے بیٹھ گئے انہوں نے کہا: اے اہل بصرہ میں نوجوان آدمی ہوں آپ لوگوں نے مجھ سے احادیث لکھوانے کا سوال کیا ہے اور عنقریب میں آپ لوگوں کو آپ کے شہر کے مشائخ کی احادیث لکھواوں گا۔

محمد بن ابی حاتم بیان کرتے ہیں کہ امام بخاری نے بتایا کہ میں نیشاپور کی جامع میں تھا تو عمرو بن زرارہ اور اسحاق بن راھویہ یعقوب بن عبد اللہ والی نیشاپور کے پاس گئے اور اس کو میرے آنے کی خبر دی اس نے ملاقات کے لیے آنے سے عذر پیش کیا اور کہا : جب ہمارے ہاں کوئی اجنبی مسافر آتا ہے تو ہم اس کو اس وقت تک جانے نہیں دیتے جب تک کہ اس کی شخصیت ہم پر واضح نہیں ہو جاتی، پھر ان میں سے کسی نے کہا: ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ نماز میں “جلسة(دوسجدوں کے درمیان بیٹھنا) اچھی طرح نہیں کہتے امام بخاری نے کہا: اگر میرے متعلق اس طرح کہا گیا ہے تو میں اس مجلس سے اس وقت تک نہیں انھوں گا جب تک کہ میں صرف تمیز کے متعلق دس ہزار احادیث نہ بیان کر دوں؟

محمد بن ابی حاتم بیان کرتے ہیں کہ امام بخاری نے مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ میں فریابی کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا میں نے ایک حدیث بیان کی : ہمیں سفیان نے حدیث بیان کی ازابی عروہ از ابی الخطاب از حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غسل واحد کے ساتھ تمام ازواج مطہرات کے پاس گئے۔

صحیح بخاری: ۲۶۸ صحیح مسلم:۳۰۹،سنن ابوداوو : ۲۱۸، سنن ترمذی:130 سنن نسائی : ۲۶۳، سنن ابن ماجہ 588، مسند احمد 11945 – ج 4 دارلفکر)

اس مجلس میں کوئی نہیں جان سکا کہ ابوعر وہ کون ہے اور نہ یہ جان سکا کہ ابو الخطاب کون ہے پھر میں نے بتایا کہ ابوعروہ معمر ہیں اور ابوالخطاب قتادہ ہیں۔

محمد بن ابی حاتم بیان کرتے ہیں کہ امام بخاری نے کہا کہ اسحاق بن ابراہیم سے کسی نے سوال کیا کہ ایک آدمی نے بھولے سے طلاق دے دی وہ کافی دیر تک غور وفکر کرتے رہے اور اس کا جواب نہ دے سکے پھر میں نے یہ حدیث سنائی : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: بے شک الله عزوجل نے میری امت سے اس سے درگزر کر لیا ہے کہ وہ اپنے دل میں کسی کام کا منصوبہ بنائے جب تک اس پر عمل نہ کرے یا کلام نہ کرے۔ (صحیح بخاری 5269 صحیح مسلم:۱۲۷، سنن ابو داود : 2209 سفت ترمذی 1186 سنن نسائی: 3431،سنن ابن ماجہ:۲۰۴۰ مسند احمد:۹۵۰۳- ج ۳ دارلفکر )

اور اس سے مراد یہ ہے کہ وہ دل میں کسی کام کا قصد کرے یا کلام کرے یا اس پر عمل کرے اور اس نے دل میں اس کو طلاق دینے کا قصد نہیں کیا پھر اسحاق نے میرے اس قول کے مطابق فتوی دیا۔

محمد بن حمیرہ یہ بیان کرتے ہیں کہ امام بخاری نے کہا: مجھے ایک لاکھ احادیث صحیحہ حفظ ہیں اور دو لاکھ احادیث غیر صحیحہ حفظ ہیں۔ (طبقات الشافعیہ ج۱ ص ۲۲۷)

محمد بن ابی حاتم الوراق بیان کرتے ہیں کہ امام محمد بن اسماعیل بخاری کہتے تھے کہ میں اس وقت تک حدیث لکھنے کے لیے نہیں بیٹھا جب تک کہ میں نے حدیث صحیح کو حدیث ضعیف سے متمیز نہیں کر لیا اور حتی کہ میں نے رے(طبران) کی عام کتب کونہیں پڑھ لیا اور حتی کہ میں پانچ مرتبہ بصرہ میں داخل ہوا اور مجھے وہاں سے جو بھی صحیح حدیث ملی اس کو میں نے لکھ لیا۔

علی بن حسین بن ہیکندی بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس محمد بن اسماعیل آئے تو کسی نے کہا کہ میں نے اسحاق بن راھویہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے، گویا میں اپنی کتاب میں ستر ہزار حدیثوں کو دیکھ رہا ہوں محمد بن اسماعیل نے کہا تم اس پر تعجب کررہے ہو حالانکہ اس زمانہ میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی کتاب میں دو لاکھ حدیثوں کو دیکھتے ہیں اور امام بخاری نے اس سے اپنی ذات کا ارادہ کیا تھا۔

(سیر اعلام النبلاء.ج10 ص- 285-290)