مکررات

امام بخاری کی “صحیح ‘‘ میں اگرچہ بہ ظاہر صورة تکرار بہت زیادہ ہے لیکن معنوی لحاظ سے اس کو تکرار نہیں کہا جاسکتا جس کی متعدد وجوہ ہیں اس کی تحقیق کے وقت یہ امر پیش نظر رکھنا چاہیے کہ تکرار کا تعلق متن اور سند دونوں کے ساتھ ہے۔ متن کے لحاظ سے تو اس لیے تکرار نہیں ہے کہ امام بخاری جب ایک حدیث کو متعدد جگہ ذکر فرماتے ہیں تو اس سے ان کا مقصود متعدد مسائل کا استنباط ہوتا ہے وہ ایک حدیث کو ایک جگہ ایک عنوان کے تحت اور دوسری جگہ دوسرے عنوان کے تحت لاتے ہیں لہذا یہ لفظا تکرار ہے معنی تکرار نہیں ہے اور سند کے لحاظ سے اس لیے تکرار نہیں ہے کہ وہ بعض اوقات ایک حدیث کو دو مختلف صحابہ سے دو جگہ روایت کرتے ہیں اور کبھی دو جگہ دومختلف تابعیوں سے روایت کرتے ہیں کبھی تابعی کے دو شاگردوں سے روایت کبھی تبع تابعین نے دو شاگردوں سے روایت کرتے ہیں، کبھی امام بخاری اپنے دو استاذوں سے اور کبھی اپنے استاد کے دو استاذوں سے روایت کرتے ہیں اور ان مختلف طرق سے حدیث کی روایت سے امام بخاری کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ حدیث غرابت سے نکل جائے نیز ایک حدیث کو بیسا اوقات ایک راوی تمامہ ذکر کردیتا ہے اور دوسرا اختصار کرتا ہے اور بعض مرتبہ ایک معنی کو ایک راوی ایک لفظ سے تعبیر کرتا ہے اور دوسرا کسی اور لفظ سے اور بعض دفعہ ایک راوی کسی حدیث کو ارسال روایت کرتا ہے اور دوسرا اس کو اتصالا روایت کرتا ہے اور کبھی ایک راوی ایک حدیث کو مرفوعا روایت کرتا ہے اور دوسر اسی کو موقوفا بیان کرتا ہے اور کبھی ایک راوی کسی حدیث کو عنعنہ کے ساتھ روایت کرتا ہے اور دوسرا تصریح سماع کے ساتھ ایسی صورتوں میں امام بخاری توضیح مرام کی خاطر حدیث کو دونوں طریقوں سے روایت کردیتے ہیں پس ایک حدیث کو امام بخاری جب دو بار ذکر کرتے ہیں تو وہ متن یا سند سے متعلق اس نوع کے کسی نہ کسی مزید فائدہ پر مشتمل ہوتی ہے ۔نیز ایک حدیث جب متعدد اسناد سے مروی ہو تو وہ محدثین کے نزدیک ایک حدیث نہیں بلکہ متعدد احادیث شمار ہوتی ہیں ۔ اس لحاظ سے صحیح بخاری میں محض بہ ظاہر اور برائے نام تکرار رہ جاتا ہے۔