مسامحات بخاری

امام بخاری بھی اپنے تمام تر علمی اور فنی کمالات کے باوجود انسان اور بشر تھے اس لیے یہ صحیح بخاری کی تصنیف میں ان سے سہو نسیان اور تسامح کا واقع ہوجانا کوئی امر مستبعد نہیں ہے اس کے برخلاف بعض وہ حضرات جو صحیح بخاری کو حرف آخر قرار دیتے ہیں ان کی رائے ہے کہ بخاری میں مندرج ہر ہر حدیث صحیح ہے اور سند اور متن کے بیان میں ان سے کسی جگہ غلطی نہیں ہوئی ۔ ہماری رائے ان لوگوں سے بہرحال مختلف ہے۔ یہ صحیح ہے کہ صحیح بخاری میں دیگر تمام کتب حدیث کی بہ نسبت سب سے زیادہ صحیح احادیث ہیں لیکن یہ صحیح نہیں ہے کہ اس میں مندرج کوئی حدیث بھی ضعیف نہیں ہے۔

صحیح بخاری میں ایسے راویوں کی تعداد کافی زیادہ ہے جوجہمی، قدری رافضی یا مرجئہ عقائد کے حامل تھے اس کے ساتھ ساتھ اس میں ایسے راوی بھی ہیں جو منکر الحدیث واہی اور وہمی تھے چنانچہ ان تمام کی تفصیل حافظ ابن حجر عسقلانی نے ھدی الساری مقدمہ فتح الباری میں مہیا کی ہے لیکن ان کے مجروح اور مطعون راویوں کے بارے میں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ان راویوں پر جرح دوسرے لوگوں نے کی ہے امام بخاری کے نزدیک ان لوگوں پر جرح ثابت نہیں ہوسکی اس لیے انہوں نے ان کی احادیث کو اپنی صحیح میں وارد کیا ہے۔

یہ عزر اپنی جگہ صحیح ہے اگرچہ یہ لوگ دوسروں کے حق میں یہ جواب تسلیم نہیں کرتے لیکن اب اس بات کو کیا کیا جائے کہ امام بخاری نے جن راویوں پر خود دوسری کتابوں میں جرح کی ہے صحیح بخاری میں ان سے بھی روایات لے آئے ہیں۔ اس قسم کے متعدد شواہد موجود ہیں ہم ان میں سے آپ کے سامنے چند مثالیں پیش کرتے ہیں۔

” باب الاستنجاء بالماء“ کے تحت امام بخاری نے ایک روایت اس سند کے ساتھ ذکر کی ہے: حدثنا ابو الوليد هشام  بن عبد الملك قال حدثنا شعبة عن ابی معاذ و اسمه عطاء بن ابی میمونة قال سمعت انس بن مالك يقول كان النبی صلی الله عليه وسلم إذا خرج لحاجة الحدیث۔ (صحیح البخاری ج ا ص 27 طبع کراچی)

اس حدیث کی سند میں ایک راوی ہے عطا بن ابی میمونہ اس کے بارے میں امام بخاری فرماتے ہیں: عطا بن ابی ميمونة ابو معاذ مولی انس؛ وقال يزيد بن هارون مولی عمران بن حصین و كان يرى القدر ، یعنی یہ شخص عقائد قدریہ کا حامل تھا ۔ ( تاریخ کبیر ج 6 ص 255-256، دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۲۲ھ)

اسی طرح انہوں نے کتاب المغازی میں ایک حدیث ذکر کی ہے:”حدثنی عباس والوحيد قال حدثني عبد الواحد عن ایوب بن عائذ قال حدثنا قيس بن مسلم قال سمعت طارق بن شهاب يقول حدثنی ابو موسی الاشعری فال بعثني رسول الله صلی الله علیہ وسلم ۔الحدیث۔ (صحیح بخاری ج۲ ص633 ،طبع کراچی)

اس حدیث میں ایک راوی ہے ایوب بن عائد اس کو بھی امام بخاری نے کتاب الضعفاء ” میں درج کیا ہے اور فرماتے ہیں: ” ایوب بن عائذ الطائي كان يرى الأرجاء، يہ شخص مرجئہ عقائد کا حامل تھا۔ (کتاب الضعفاء الصغیر ص 271 تاریخ کبیر ج ا ص ۳۸۹)

حافظ ذہبی ایوب بن عائد کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:

وكان من المرجنة قال له البخاری و اورده في الضعفاء لارجائه و العجب من البخاری بغمزه وقد  احتج به. (میزان الاعتدال ج 1 ص 459)

امام بخاری نے ایوب بن عائذ کو مرجئہ قرار دے کر اس کا ضعفاء میں شمار کیا ہے اور حیرت ہے کہ اس کو ضعیف قرار دے کر پھر

اس سے استدلال کرتے ہیں ۔

اساعیل بن ابان کوفی ایک راوی ہے اس کے بارے میں امام بخاری فرماتے ہیں:

اسمعیل بن ابان عن هشام بن عروة متروك الحديث كنيته أبو اسحق کوفی.

اسماعیل بن ابان جو ہشام بن عروہ سے روایت کرتا ہے متروک الحدیث ہے اس کی کنیت ابو اسحاق کوفی ہے۔

(تاریخ کبیر ج ا ص 326، دارالکتب العلمیہ بیروت 1420ھ کتاب الضعفاء الصغیر ص 272)

اس متروک الحدیث راوی سے بھی امام بخاری نے اپنی صحیح میں احادیث روایت کی ہیں چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: “اسمعیل بن ابان الوراق الكوفي احد شيوخ البخاري ولم يكثر عنه اسماعیل بن ابان امام بخاری کے استاذ ہیں اور امام بخاری نے ان سے بہت زیادہ احادیث روایت نہیں کی ہیں ۔ (ھدی الساری ج 2 ص 151 طبع مصر)

ان کے علاوہ زبیر بن محمد التیمی، سعيد بن عروہ، عبد الله بن ابی لبيد، عبد الملک بن امین ،عبد الوارث بن سعيد ،عطا بن السائب بن یزید اور کھمس بن منہال ، یہ تمام ضعیف راوی ہیں اور کتاب الضعفاء” اور ” تاریخ کبیر میں امام بخاری نے ان کے ضعف کی تصریح کی ہے اس کے باوجود صحیح بخاری میں ان لوگوں کی روایات کو درج کیا ہے۔