حدیث نمبر 734

روایت ہے حضرت انس سے کہ جب لوگ قحط میں مبتلا ہوتے تو حضرت عمر ابن خطاب جناب عباس ابن عبدالمطلب کے توسل سے دعائے بارش کرتے ۱؎ اور عرض کرتے الٰہی ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی کا وسیلہ پکڑتے تھے تو بارش بھیجتا تھا اور اب ہم تیرے نبی کے چچا کا وسیلہ پکڑتے ہیں۲؎ ہم پر بارش بھیج تو لوگ سیراب کیئے جاتے تھے۳؎(بخاری)

شرح

۱؎ تاکہ معلوم ہوکہ صرف نبی کا ہی وسیلہ نہیں ہوتا بلکہ ان کی امت کے اولیاء کا وسیلہ بھی ہوسکتا ہے،ان کی برکت سے رحمتیں آتی ہیں،حضرت عمر جناب عباس کا وسیلہ اس طرح لیتے کہ ان کے توسل سے بارگاہ الٰہی میں دعا کرتے جیساکہ آگے آرہا ہے اورحضرت عباس عرض کرتے کہ خدایا یہ لوگ تیرے محبوب کی نسبت کی وجہ سے میرا وسیلہ لے رہے ہیں،خدایا اس بڑھاپے میں مجھے رسواء شرمندہ نہ کر یہ کہتے ہی بارش آتی تھی۔(اشعۃ اللمعات)

۲؎ یعنی تیرے نبی کی ظاہری حیات میں ہم اس طرح ان کا وسیلہ لیتے تھے کہ ان سےبارش کی دعاکراتے تھے،ان کے ساتھ جاکرنماز استسقاء پڑھتے،ان کے چہرۂ انورکی طرف اشارہ کرکے کہتے تھے کہ مولیٰ اس نورانی چہرہ کی برکت سے بارش بھیج۔شعر

وَأبْيَضُ يُسْتسْقَى الغَمَامُ بِوَجْهِهٖ ثِمَالُ الْيَتَامٰى عِصْمَةٌ لِلْأرَامِلِ

اب ان کی ظاہری حیات شریف کی برکت سے یہ اشارہ والا،یہ نمازوں،ان کی دعاؤں والا وسیلہ ناممکن ہوگیا تو اب ان کے چچا کے وسیلہ سے بارش بھیج۔خیال رہے کہ حضرت عمر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کا وسیلہ لیا اس لیے عرض کیا کہ اپنے نبی کے چچا کے توسل سے دعا کرتے ہیں۔معلوم ہوا کہ جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت

ہوجائے اس کا وسیلہ درست ہے۔شعر

بزرگوں کی نسبت بڑی چیز ہے خدا کی یہ نعمت بڑی چیز ہے

۳؎ اس حدیث کی بنا پربعض بےعقل عالموں نے کہا ہے کہ زندہ بزرگوں کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے مُردوں کا ناجائز،دیکھو جناب عمر نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کا وسیلہ چھوڑ دیا مگر یہ غلط ہے چند وجہ سے:ایک یہ کہ اس حدیث میں چھوڑنے کا ایک لفظ بھی نہیں آتا یعنی حضرت فاروق نے یہ نہیں کہا کہ اب ہم نےحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ چھوڑ دیا۔دوسرے یہ کہ اگر حدیث کا یہ مطلب ہوتو یہ حدیث قرآنی آیات کے بھی خلاف ہوگی اور دوسری احادیث کے بھی،رب تعالٰی فرماتا ہے:”وَکَانَ اَبُوۡہُمَاصٰلِحًا”۔آٹھویں بزرگ دادا کی برکت سے ان پوتوں پر اﷲ کی یہ رحمت ہوئی کہ ان کی ٹوٹی دیوار بنانے کے واسطے دو نبی بھیجے گئے،حضرت موسیٰ و ہارون کے نعلین و عمامہ کے وسیلہ سے بنی اسرائیل جنگوں میں فتح پاگئے تھے،رب تعالٰی فرماتاہے کہ:”وَبَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوۡسٰی وَاٰلُ ہٰرُوۡنَ”۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے پہلے اہل کتاب آپ کے وسیلہ سےجنگوں میں فتح پاتے تھے،رب تعالٰی فرماتا ہے:”وَکَانُوۡا مِنۡ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا”۔اسی مشکوٰۃ “باب الکرامات” میں آئے گا کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور سے روضہ کی چھت ہٹوادی اور قبر انور کے وسیلہ سے دعائے بارش کی تو بارش آئی۔یہاں جناب عمر کے فرمانے کا منشا یہ ہے کہ وہ اشاروں والا اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز استسقاءپڑھنے والا وسیلہ جاتا رہا یا یہ بتاناچاہتے ہیں کہ مسلمانوں وسیلۂ اولیاءبھی درست ہے۔اس جگہ مرقات میں ہے کہ امیرمعاویہ قحط میں حضرت یزید ابن اسود کے وسیلہ سے بارش کی دعاکرتے تھے اور ان سے بھی کہتےتھے کہ وہ بھی ہاتھا اٹھائیں فورًا بارش آتی تھی۔