الفصل الثالث

تیسری فصل

حدیث نمبر 733

روایت ہے حضرت عائشہ سے فرماتی ہیں کہ لوگوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش رک جانے کی شکایت کی ۱؎ تو منبر کا حکم دیا جوعیدگاہ میں بچھادیا گیا اور لوگوں سے ایک دن کا وعدہ کیا جب لوگ نکلیں۲؎ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج کا کنارہ چمکا تو تشریف لے گئے منبر پر بیٹھے اﷲ کی تکبیر و حمد کی پھر فرمایا کہ تم لوگوں نے اپنے شہر کے قحط کی بارش کے وقت سے ہٹ جانے کی شکایت کی اﷲ نے تمہیں دعا مانگنے کا حکم دیا اور تم سے دعا کی قبولیت کا وعدہ کیا۳؎ یعنی فرمایا تمام تعریفیں اﷲ رب العلمین کی ہیں جو مہربان رحم والا ہے قیامت کے دن کا مالک ہے اﷲ کے سواءکوئی معبودنہیں تو بے پروا ہے ہم فقیر ہیں ہم پر بارش برسا اور جو تو اتارے اسے ہمارےلیئے قوۃ اور مطلوب تک پہنچنےکا ذریعہ بنا۴؎ پھر اپنے ہاتھ اٹھائے تو اٹھاتے رہے حتی کہ آپ کے بغلوں کی سفیدی ظاہرہوگئی پھرلوگوں کی طرف اپنی پشت کی اور اپنی چادرپلٹی حالانکہ ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے پھرلوگوں پرمتوجہ ہوئے منبرسے اترے دو رکعتیں پڑھیں۵؎ اﷲ نے ایک بادل پیدا کیا جو اﷲ کے حکم سےگرجاچمکا پھر برسا آپ مسجد تک نہ آنے پائے تھے کہ سیلاب بہہ گئے جب حضور نے لوگوں کو پناہ کی طرف دوڑتے دیکھا تو ہنسے حتی کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے۶؎ پھر فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ ہر چیز پرقادر ہے اور میں اﷲ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ۷؎(ابوداؤد)

شرح

۱؎ یعنی بارش کا زمانہ ہے اورنہیں آتی۔اس سے دو مسئلےمعلوم ہوئے:ایک یہ کہ قحط کی شکایت حضورصلی اللہ علیہ وسلم سےکرسکتے ہیں تاکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم سفارش کریں اور ہماری بگڑی بن جائے،رب تعالٰی خودحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے بندوں کی شکایت کرتا ہے،فرماتا ہے:”اُنۡظُرْکَیۡفَ ضَرَبُوۡا لَکَ الۡاَمْثَالَ”۔دوسرے یہ کہ صحابہ کبارحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو بارگاہِ الٰہی میں اپنا بڑا وسیلہ جانتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ ہمارے اعمال کی مقبولیت یقینی نہیں حضورصلی اللہ علیہ وسلم یقینًا مقبول ہیں،اسی لیے وہ ایسےموقعوں پرخود نمازیں اور دعائیں ادا نہ کرلیتے تھے بلکہ دوڑے ہوئے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں آتے تھے،حالانکہ انہوں نے قرآن میں یہ آیت پڑھی تھی”ادْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ”۔اس سے وہ لوگ عبرت پکڑیں جوکہتے ہیں کہ انبیاءواولیاء کے وسیلہ کی کوئی ضرورت نہیں اپنے اعمال کا وسیلہ پکڑو گویا ان کےنزدیک ان کے اعمال حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مقبول ہیں۔

۲؎ کہ فلاں دن تم سب وہاں جمع ہوکر جاؤ ہم بھی پہنچ جائیں گے،شاید قبولیت کی گھڑی اسی دن میں ہوگی جیسے کہ یعقوب علیہ السلام نے اپنے لڑکوں سے فرمایا تھا”سَاَسْتَغْفِرُلَکُمْ”یعنی تمہارےلیئے دعائے مغفرت ابھی نہیں پھر کروں گا۔

۳؎ لہذا تم میرے وسیلہ سے دعا کررہے ہو میں تمہارےلیئے دعا اور شفاعت کرتا ہوں اسی لیے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن یوں نہیں فرمادیا کہ جاؤ خود دعائیں مانگ لومیرے پاس کیوں آئے۔

۴؎ اس سےمعلوم ہوا کہ دعا سے پہلے اﷲ کی حمد اپنی فقیری اورنیازمندی کا اظہارسنت ہے۔خیال رہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم بارگاہ الٰہی میں اپنےلیئے جوکلمے چاہیں استعمال کریں لیکن اگرکوئی اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو فقیر کہے تو کافر ہوگا۔(عالمگیری)حضورصلی اللہ علیہ وسلم تو وہ غنی داتا ہیں جن کی گلیوں میں تاجدار بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔شعر

اس گلی کاگدا ہوں میں جس میں مانگتے تاجدار پھرتے ہیں

وہ تو باذن اﷲ غنی ہیں،غنی گر ہیں۔رب تعالٰی فرماتا ہے:”اَغْنٰہُمُ اللہُ وَرَسُوۡلُہٗ مِنۡ فَضْلِہٖ”۔رب سے مانگنا بندے کی شان ہے،اس کے سب فقیر ہیں۔

۵؎ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے آج خطبہ اور دعا پہلے پڑھی اورنماز بعدمیں۔غالبًا اس لیے کہ جب آپ جنگل پہنچتے ہیں تو سورج نکل رہا تھا وقت مکروہ تھا ورنہ خطبۂ استسقاء اور دعا نماز کے بعد ہوتی ہے جیساکہ گزشتہ روایات سےمعلوم ہوا۔

۶؎ ہنسنے سے مراد تبسم اورمسکرانا ہے نہ ٹھٹھا مارنا اور قہقہ کیونکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم قہقہہ مارکرکبھی نہ ہنسے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تبسم خوشی اورتعجب کا تھاکہ ابھی تو یہ لوگ بارش مانگ رہے تھے جب آئی تو بھاگ رہے ہیں۔نواجذ جمع نواجذہ کی ہے۔ناجذہ دانتوں کی کیلوں کوبھی کہتے ہیں اور آخری داڑھ کوبھی یعنی عقل داڑھ۔

۷؎ معلوم ہوا کہ بارش حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھی اور آپ کی نبوت کی دلیل،یعنی آج حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت صحابہ کو آنکھوں سے دکھادی اس کی عینی گواہی دی اور دلوائی۔