أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَفِىۡۤ اَنۡفُسِكُمۡ‌ؕ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور خود تمہارے نفسوں میں بھی (نشانیاں) ہیں تو کیا تم نہیں دیکھتے

انسان کے نفس میں اللہ تعالیٰ کی توحید کی نشانیاں

الذریت : ٢١ میں فرمایا : اور خود تمہارے نفسوں میں بھی (نشانیاں) ہیں تو کیا تم نہیں دیکھتے ؟۔

اس آیت کا معنی ہے : زمین میں اور خود تمہارے نفسوں میں یقین کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں اور اس آیت کی حسب ذیل تفسیریں کی گئی ہیں۔

(١) قتادہ نے کہا : جو شخص زمین میں سفر کرے وہ زمین میں غور فکر کرنے والی چیزیں اور عبرت انگیز مناظر دیکھتا ہے ‘ اور جو شخص اپنے آپ میں غور فکر کرے ‘ وہ جان لیتا ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔

(٢) السائب بن یزید نے کہا : انسان ایک سوراخ سے کھاتا اور پیتا ہے اور اس کا فضلہ دو مختلف سوراخوں سے نکلتا ہے ‘ اور انسان اگر صرف دودھ پیے تو اس دودھ کا رقیق فضلہ ایک جگہ سے خارج ہوتا ہے اور اس کا ٹھوس فضلہ دوسری جگہ سے خارج ہوتا ہے اور اس کے جو ہر مصفی سے اس کے پورے جسم اور بدن کا قوام تیار ہوتا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی صنعت اور اس کی قدرت اور حکمت کی بہترین نشانی ہے۔

(٣) ابن زین نے کہا : اللہ تعالیٰ نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ‘ پھر تم کو سماعت اور بصارت اور دھڑکتا ہوا دل دے کر جیتا جاگتا انسان بنادیا۔

(٤) حسن بصری نے کہا : تمہاری جوانی کے بعد بڑھاپا آتا ہے اور قوت کے بعد ضعف طاری ہوتا ہے اور سیاہ بالوں کے بعد سفید بال آجاتے ہیں (اور تمہارے یہ تغیرات تمہارے حادث ہونے پر دلالت کرتے ہیں اور ہر حادث کا کوئی محدث اور خالق ہوتا ہے تو ضرور تمہارا بھی کوئی خالکق ہے اور ضرور وہ خالق قدیم اور واجب ہے ‘ تمہاری طرف حادث اور ممکن نہیں ہے اور ضرور وہ خالق واحد ہے کیونکہ قدیم اور واجب متعدد نہیں ہوسکتے) ۔

(٥) اسی طرح تمہاری تخلیق کے مراحل کی تفصیل یہ ہے کہ اس نے پہلے تم کو نطفہ بنایا ‘ پھر جما ہوا خون بنایا ‘ پھر گوشت کا ٹکڑا بنایا ‘ پھر اس میں ہڈیاں پہنائیں ‘ پھر اس پتلے میں روح پھونک دی ‘ پھر تخلیق کے بعد تمہارے مختلف رنگ بنائے ‘ مختلف شکلیں اور صورتیں بنائیں اور تمہیں زبانیں اور بولیاں سکھائیں ‘ تمہیں دل اور دماغ دیئے ‘ تمہیں عقلیں عطا کیں اور ان عقلوں میں مختلف صلاحیتیں رکھیں اور تمہیں حسین و جمیل صورتیں عطا کیں اور تمہیں تمام مخلوق سے فزوں تر اور اشرف اور افضل بنایا اور ان سب چیزوں میں اللہ تعالیٰ کی خلاقی اور اس کی وحدانیت کے بہت دلائل اور بہت نشانیاں ہیں۔

عالم کبیر کی نشانیوں کے مقابلہ میں عالم صغیر کی نشانیاں

اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا ہے :

سنریہم ایتنا فی الافاق وفی انفسہم۔ (حمٓ السجدۃ : ٥٣) عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کے نفسوں میں بھی۔

انسان عالم صغیر ہے اور یہ جہان عالم کبیر ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اور صافت پر عالم صغیر میں بھی نشانیاں رکھی ہیں اور عالم کبیر میں بھی نشانیاں رکھی ہیں اور عالم کبیر میں جو نشانیاں ہیں وہی نشانیاں عالم صغیر میں ہیں :

(١) سورج اور چاند میں نور رکھا ہے جس سے وہ بالذات دکھائی دیتے ہیں ‘ اس کے مقابلہ میں انسان کی آنکھوں میں نور رکھا ہے جس سے وہ دیکھتی ہیں۔

(٢) زمین میں خاک اور مٹی ہے اور انسان کا جسم بھی موت کے بعد بوسیدہ ہو کر مٹی ہوجاتا ہے۔

(٣) عالم کبیر میں پانی ہے ‘ اس کے مقابلہ میں انسان کے جسم میں رطوبات ہوتی ہیں۔

(٤) عالم کبیر میں ہوا ہے اور اس کے مقابلہ میں نفس کا سانس لینا ہے۔

(٥) عالم کبیر میں حرارت والی آگ ہے اور اس کے مقابلہ میں انسان کا پتا ہے جس میں صفرا ہے جس میں حرارت ہوتی ہے۔

(٦) اور زمین میں پانی کی نہریں جاری ہیں ‘ اس کے مقابلہ میں انسان کی شریانیں اور رگیں ہیں جن میں خون جاری ہوتا ہے۔

(٧) عالم کبیر میں سمندر ہے اس کے مقابلہ میں انسان کا مثانہ ہے جس میں پیشاب جمع رہتا ہے۔

(٨) عالم کبیر میں پہاڑ ہیں جو زمین کی میخیں ہیں ‘ اس کے مقابلہ میں انسان کے جسم کی ہڈیاں ہیں۔

(٩) عالم کبیر میں درخت ہیں جن کی شاخیں اور پتے ہیں ‘ اس کے مقابلہ میں انسان کے جسم کے اعضاء ہیں جو شاخوں اور پتوں کی طرح حرکت کرتے ہیں۔

(١٠) عالم کبیر میں گھاس ہے اس کے مقابلہ میں انسان کے جسم کے بال ہیں۔

عالم کبیر اور عالم صغیر دونوں اللہ کی مخلوق ہیں اور وہی دونوں کا خالق واحد ہے۔ فتبارک اللہ احسن الخالقین۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٢ ص ١٩١)

القرآن – سورۃ نمبر 51 الذاريات آیت نمبر 21