أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَكَانَ قَابَ قَوۡسَيۡنِ اَوۡ اَدۡنٰى‌ۚ ۞

ترجمہ:

تو وہ ( نبی، اللہ سے) دو کمانوں کی مقدار قریب ہوگئے یا اس سے بھی زیادہ

” فکان قاب قوسین “ کا معنی اور قریب ہونے والے کے مصداق میں مفسرین کا اختلاف اور قول مختار کا تعین

النجم : 9 میں فرمایا : تو وہ ( نبی اللہ سے) دو کمانوں کی مقدار ( قریب) ہوگئے، بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے۔

اس آیت میں ہے : ” قاب قوسین “ ” قاب “ کا معنی ہے : مقدا اور ” قوسین “ : ’ ’ قوس “ کا تثنیہ ہے، ” قوس “ کا معنی ہے : کمان اور اس میں تین مضاف مخذوف ہیں اور اس کا معنی ہے : وہ دو کمانوں کی مقدار کی مسافت کی مثل قریب ہوگئے، یہ اس کا ظاہری معنی ہے اور اس سے مراد ہے : اللہ کا اپنے نبی کو انتہائی قرب عطاء کرنا ہے اور اس سے قرب مسافت مراد نہیں ہے۔(الجامع الاحکام القرآن جز ١٧ ص ٨٤۔ ٨٣، ملخصا ً )

اور اس میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ کون کس کے قریب ہوا ؟ علامہ الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ نے لکھا ہے کہ اس مسئلہ میں تین اقوال ہیں :

(١) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : حضرت جبریل امین اللہ عزوجل کے قریب ہوئے۔

(٢) محمد بن کعب نے کہا : سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کے قریب ہوئے۔

(٣) حضرت جبریل امین سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ہو۔ ( النکت والعیون ج ٥ ص ٣٩٣، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

امام فخر الدین رازی متوفی ٦٠٦ ھ، قاضی بیضاوی متوفی ٦٨٥ ھ اور علامہ اسماعیل حقی متوفی ٩١١ ھ کا مختار یہ ہے کہ حضرت جبریل سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ہوئے ( یعنی ان کا مختار تیسرا قول ہے) ۔( تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٢٣٩، تفسیر بیضاوی مع الخفاجی ج ٩ ص ٧۔ ٦، روح البیان ج ٩ ص ٢٥٧ )

علامہ قرطبی مالکی متوفی ٦٦٨ ھ نے لکھا ہے :

سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب عزوجل کے یا حضرت جبریل امین کے قریب ہوئے ( ان کا مختار دوسرا قول ہے)( الجامع الاحکام القرآن جز ١٧ ص ٨٣، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

علامہ آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ نے بھی دوسرے قول کو اختیار کیا ہے اور لکھا ہے کہ حسن بصری کی روایت ہے کہ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے دو کمانوں کی مقدار قریب ہوگئے۔ ( روح المعانی جز ١٧ ص ٨٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

حافظ عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ، علامہ عینی متوفی ٨٥٥ ھ، علامہ قسطلانی متوفی ٩١١ ھ اور قاضی عیاض اور متوفی ٥٤٤ کا بھی یہی مختار ہے، جیسا کہ ان کی تصریحات گزر چکی ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ اکثر مفسرین اور محدثین کا مختار دوسرا قول ہے۔

” قاب قوسین “ سے مقصود یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا معاملہ واحد ہے

امام رازی نے لکھا ہے کہ یہ آیت محاورہ عرب کے موافق ہے کیونکہ دوسردار جب ایک دوسرے سے معاہدہ کرلیتے ہیں تو وہ اپنی دونوں کمانوں کو ملاتے ہیں اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کے ہتھیار ایک ہیں، اگر کوئی ان پر حملہ کرے گا تو وہ دونوں اس کے خلاف ہتھیار اٹھائیں گے۔ ( تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٢٣٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

اس آیت سے یہ واضح کردیا گیا کہ اللہ اور رسول کا معاملہ واحد ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رضا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ناراضگی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کرنا اللہ سے بیعت کرنا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنا اللہ کی اطاعت کرنا ہے، رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم اللہ کا حکم ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منع کرنا اللہ کا منع کرنا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دھوکا دینا اللہ کو دھوکا دینا ہے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچانا اللہ کو ایذاء پہنچانا ہے، آپ کا خریدنا اللہ کا خریدنا ہے اور آپ کا فعل اللہ کا فعل ہے، قرآن مجید میں اس کی بہت مثالیں ہیں۔

اللہ اور اس کے رسول کا معاملہ واحد ہونے پر قرآن مجید کی آیات

(١) مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہ ج (النسائ : ٨٠) جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کرلی۔

اس آیت میں یہ واضح تصریح ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔

(٢) اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللہ ط (الفتح : ١٠)

بے شک جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کر رہے تھے وہ اللہ سے بیعت کر رہے تھے۔

اس آیت میں یہ صاف بیان ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کرنا اور آپ سے خریدنا، اللہ سے بیعت کرنا اور اللہ سے خریدنا ہے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ صحابہ کے ہاتھوں پر تھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

(٣) یَدُ اللہ ِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ ج (الفتح : ١٠) اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے، یعنی آپ کی قوت، عطاء اور مدد اللہ تعالیٰ کی قوت، عطا اور مدد ہے۔

(٤) وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰـکِنَّ اللہ رَمٰی ج (الانفال : ١٧)

آپ نے ( حقیقۃً ) کنکریاں نہیں ماریں جب آپ نے ( ظاہراً ) کنکریاں ماری تھیں، لیکن اللہ نے کنکریاں ماری تھیں۔

اس آیت میں یہ واضح تصریح ہے کہ آپ کا فعل اللہ کا فعل ہے۔

ستر نقبائ ( انصار) نے مدینہ سے آ کر مکہ کی گھاٹی میں اپنی جانوں اور مالوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ جنت کے عوض فروخت کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنت کے عوض ان کی جانوں اور مالوں کو خرید تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

(٥) اِنَّ اللہ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ط (التوبہ : ١١١)

بے شک اللہ نے مؤمنوں سے ان کی جانوں ور مالوں کی جنت کے بدلہ میں خرید لیا۔

یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خریدنا، اللہ سبحانہٗ کا خریدنا ہے۔

منافقوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنا ایمان ظاہر کر کے اپنے زعم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دھوکا دیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

(٦) یخدعون اللہ (البقرہ : ٩) وہ اللہ کو دھوکا دیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کو دھوکا دینا تو غیرمتصور ہے کیونکہ اللہ سبحانہٗ عالم الغیب ہے اور منافقین بھی اللہ کو مانتے تھے، اس لیے اس کا معنی ہے : وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دھوکا دیتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وہ اللہ کو دھوکا دیتے ہیں، پس معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دھوکا دینا اللہ تعالیٰ کو دھوکا دینا ہے۔

(٧) اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللہ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَہُمُ اللہ ُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ (الاحزاب : ٥٧ )

بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں، اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت فرماتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کو ایذاء پہنچانا تو محال ہے، اس لیے اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچانا ہے، لہٰذا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچانا اللہ کو ایذاء پہنچانا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچانے کا اس آیت میں الگ سے صراحۃً ذکر ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو چیز پہلے سے ضمناً سمجھ آرہی تھی اس کو صراحۃً ذکر کے مؤکد کیا گیا ہے۔ اصطلاح میں اس کو ” تصریح “ علم ” ضمناً “ کہتے ہیں۔

بعض نو مسلم صحابہ نے جنگ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لے کر ان کو آزاد کرنے کا مشورہ، مال دنیا کی طمع میں دیا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مشورہ کو ان کی آخرت کے اعتبار سے قبول کیا تھا کہ ان میں سے بعض قیدی خود ایمان لے آئیں گے اور بعض کی اولاد اسلام قبول کرلے گی اور وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائیں گے، سو بعض نو مسلم صحابہ کی رائے مال دنیا کی طمع سے تھی اور آپ کا اس رائے کو قبول کرنا قیدیوں کی آخرت کی وجہ سے تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

(٨) تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَاق وَ اللہ ُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ ط (الانفال : ٦٧ )

تم فدیہ سے متاع دنیا کا ارادہ کر رہے تھے اور اللہ آخرت کا ارادہ فرما رہا تھا۔

آخرت کا ارادہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اللہ کا آخرت کا ارادہ کر رہا تھا معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارادہ اللہ کا ارادہ ہے۔

(٩) وَ اللہ ُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْہُ (التوبہ : ٦٢) اور اللہ اور اس کے رسول اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ تم اس کو راضی کرو۔

اس آیت میں اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں کا ذکر فرمایا ہے اور ” یرضوہ “ میں ضمیر واحد ذکر کی ہے اور اس سے اس پر متنبہ فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رضا واحد ہے اور رسول کو راضی کرنا اور اللہ کو راضی کرنا ہے۔

وَمَا نَقَمُوْٓا اِلَّآ اَنْ اَغْنٰـہُمُ اللہ ُ وَرَسُوْلُہٗ مِنْ فَضْلِہٖ ج (التوبہ : ٧٤)

ان منافقوں کو صرف یہ ناگوار ہوا کہ اللہ اور اسکے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اپنے فضل سے غنی کردیا۔

اس آیت میں بھی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں کا ذکر فرمایا ہے اور ” من فضلہ “ میں ضمیر واحد کا ذکر فرمایا ہے اور اس میں یہ تنبیہ فرمائی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فضل واحد ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فضل کرنا اللہ ہی کا فضل فرمانا ہے۔

(١١) لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللہ ِ وَرَسُوْلِہٖ (الحجرات : ١) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سبقت نہ کرو اور ان سے آگے نہ بڑھو۔

اللہ پر سبقت کرنا اور اس سے آگے بڑھنا محال ہے، اس کا تصور ہی نہیں ہوسکتا اور منع اس کام سے کیا جاتا ہے جس کا کرنا متصور ہو، اس لیے اللہ پر سبقت کرنے سے مراد ہے : اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سبقت کرنا اور اس آیت میں یہ بتایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سبقت کرنا، اللہ تعالیٰ سے سبقت کرنا ہے، پھر تاکید کے لیے صراحۃً فرمایا کہ اسکے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سبقت نہ کرو۔

ہم نے یہ گیارہ آیات پیش کی ہیں جن سے یہ واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاملہ واحد ہے اور اسی چیز کو ” قاب قوسین او ادنیٰ “ کی مثال سے واضح کیا ہے کہ دونوں کمانیں انتہائی قریب ہیں جس طرح دو قبیلوں کے سردار اپنی کمانوں کو ملا کر یہ بتاتے ہیں کہ ایک سے صلح ہے اور ایک سے جنگ دوسرے سے جنگ ہے اور ایک سے خیانت دوسرے سے خیانت ہے اور ایک سے معاہدہ دوسرے سے معاہدہ ہے اور ایک سے عہد شکنی دوسرے سے عہد شکنی ہے کیونکہ دونوں کے ساتھ معاملہ واحد ہے، اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صلح اللہ تعالیٰ سے صلح کرنا ہے اور آپ سے جنگ کرنا اللہ سے جنگ کرنا ہے، آپ سے خیانت کرنا اللہ سے خیانت کرنا ہے، آپ سے معاہدہ کرنا اللہ سے معاہدہ کرنا ہے اور آپ سے عہد شکنی کرنا اللہ سے عہد شکنی کرنا ہے۔

اور ” قاب قوسین “ سے یہ مقصود نہیں ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اس قدر قریب ہوگئے کہ دونوں میں کوئی فاصلہ نہ رہا، کیونکہ اللہ اللہ ہے اور بندہ بندہ ہے اور آپ بیشمار کمالات کے باوجود اللہ کے عبد اور اس کے بندے ہیں، اس لیے ” قاب قوسین “ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوس اور اللہ عزوجل کی قوس سے مقصود یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس قدر قرب ہے کہ دونوں کے ساتھ معاملہ واحد ہے۔

” فکان قاب قوسین او ادنی “ میں جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتہائی قرب بتایا ہے ہم نے اس کو درج ذیل مثال سے واضح کیا ہے۔

” فکان قاب قوسین او ادنی “ کی ایک تمثیل سے وضاحت

” قاب قوسین کی صورت :

قوس سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قوس الجبار رب العزت

” اوادنی “ کی صورت :

قوس سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قوس الجبار رب العزت

مفسرین اور محدثین نے اس آیت کا یہ معنی بھی بیان کیا ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے اتنے قریب ہوگئے جیسے ایک کمان کے دوسرے ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ اور اصل میں عبارت یہ ہے کہ ” کقابی قوس “ لیکن اس معنی میں کافی تکلف کا دخل ہے، ’ ’ قاب “ کا معنی کمان کا سرا بھی ہوتا ہے۔

اس آیت کا یہ محمل نہیں ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کوئی فاصلہ نہ رہا، یا اللہ اور رسول گڈ مڈ ہوگئے جیسا کہ ہم کئی بار بتا چکے ہیں، بلکہ اس کا محمل یہ ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوس کی تجلیات رب العزت کی قوس کے جلوئوں میں گم ہوگئیں اور آپ فنا فی الذات کے مرتبہ سے واصل ہوگئے، جیسا کہ علامہ آلوسی اللہ والوں سے نقل کیا ہے۔ (روح المعانی جز ٢٧ ص ٨٠) یا اس کا محمل آپ کا اللہ سے انتہائی قرب اور آپ کے مرتبہ کی تکریم اور آپ کے درجہ کی تعظیم کو بیان کرنا ہے جیسا کہ قاضی عیاض مالکی نے بیان کیا ہے۔ ( الشفاء ج ١ ص ١٥٩) یا اس کا محمل یہ بیان کرنا ہے کہ اللہ کے ساتھ اور آپ کے ساتھ معاملہ واحد ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 53 النجم آیت نمبر 9