أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاَنۡ لَّيۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ ۞

ترجمہ:

اور یہ کہ ہر انسان کا اسی کا عوض ملے گا جو اس نے عقل کیا

تفسیر:

النجم : ٣٩ میں فرمایا : اور یہ کہ ہر انسان کو اسی کا عوض ملے گا جو اس نے عمل کیا

امام ابو جعفر محمد بن جریرطبری متوفی ٣١٠ ھ نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ اس آیت کا حکم منسوخ ہوچکا ہے۔

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” وَاَن لَّیسَ لِلاِنسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی “ (النجم : ٣٩) کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :

وَالَّذِینَ اٰمَنُوا وَاتَّبَعَتہُم ذُرِّیَّتُہُم بِاِیمَانٍ اَلحَقنَا بِہِم ذُرِّیَّتَہُم (الطور : ٢١ )

اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان لانے میں ان کی پیروی کی ہم ان کی اولاد کو جنت میں ان کے ساتھ ملا دیں گے۔

پس اللہ تعالیٰ آباء کی نیکیوں کے سبب سے ان کی اولاد کو جنت میں داخل کر دے گا اور آباء کی سعی سے اولاد کو فائدہ ہوگا اور یوں النجم : ٣٩ کا حکم الطور : ٢١ سے منسوخ ہوگیا۔

اور جن دیگر مفسرین نے یہ کہا کہ النجم : ٣٩ منسوخ ہے، ان کی تفصیل درج ذیل ہے :

علامہ ابو اسحاق احمد بن ابراہیم الثعلبی المتوفی ٢٢٧ ھ لکھتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ النجم : ٣٩، الطور : ٢١ سے منسوخ ہے کیونکہ اس میں ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آباء کی نیکیوں سے ابناء کو جنت میں داخل کردیا اور عکرمہ نے کہا کہ ’ ’ ان لیس للانسان الا ما سعی “ کا حکم حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ (علیہما السلام) کی قوموں کے لیے تھا اور رہی یہ امت تو اس کو اپنی سعی سے بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے اور دوسروں کی سعی سے بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔

اور اس سلسلہ میں یہ احادیث ہیں :

اور ربیع بن انس نے کہا کہ النجم : ٣٩ کا حکم کافر کے لیے ہے اور رہا مومن تو اس کو اپنی سعی سے بھی فائدہ ہوتا ہے اور دوسروں کی سعی سے بھی ہوتا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ کافر کے لیے آخرت میں کوئی خیر نہیں ہے، اس کو اس کے اعمال کا اجر صرف دنیا میں ملتا ہے، اور روایت ہے کہ عبد اللہ بن ابی نے حضرت عباس (رض) کو قمیص پہنائی تھی تو جب عبد اللہ بن ابی مرگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے قمیص بھجوا دی تاکہ آخرت کے لیے اس کی کوئی نیکی نہ رہے جس پر ثواب عطاء کیا جاسکے۔ (الکشف والبیان ج ٩ ص ١٥٣، داراحیاء التراث، العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)

حنبلی مفسرین کے جوابات

علامہ عبد الرحمن علی محمد نوری الحنبلی المتوفی ٥٩٩ ھ لکھتے ہیں :

زجاج نے کہا : حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم (علیہما السلام) کے صحائف میں یہ آیت بھی مذکور تھی :

وَاَن لَّیسَ لِلاِنسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی (النجم : ٣٩) اور یہ کہ ہر انسان کو اسی کا عوض ملے گا جو اس نے عمل کیا

اس کا معنی یہ ہے کہ ہر انسان کو صرف اس کی کوشش کی جزاء ملے گی، اگر اس نے نیک عمل کیا ہے تو اس کو نیک جزاء ملے گی اور اگر اس نے برا عمل کیا ہے تو اس کو سزا ملے گی اور اس آیت کی تفسیر میں علماء کے آٹھ اقوال ہیں :

(١) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : یہ آیت ” وَاتَّبَعَتہُم ذُرِّیَّتُہُم بِاِیمَانٍ “ ( الطور : ٢١) سے منسوخ ہے، اللہ تعالیٰ نے بیٹوں کو آباء کی نیکیوں کی وجہ سے جنت میں داخل کردیا۔ (رہا یہ اعتراض کہ یہ دونوں آیتیں خبر ہیں، اور نسخ انشاء میں ہوتا ہے اس کا جواب ہم الاحقاف : ٩ کی تفسیر میں بیان کرچکے ہیں، اس کا دوسرا جواب علامہ آلوسی کی عبارت میں آ رہا ہے) ۔

(٢) عکرمہ نے کہا : یہ قاعدہ کہ ہر انسان کو صرف اس کے عمل کا عوض ملتا ہے، حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم کی امتوں کے لیے تھا اور اس امت کو اپنی سعی کا اجر بھی ملتا ہے اور دوسروں کی سعی کا اجر بھی ملتا ہے، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک عورت سے فرمایا : تم اپنے فوت شدہ باپ کی طرف سے حج کرو۔

(٣) ربیع بن انس نے کہا : النجم : ٣٩ میں انسان سے مراد کافر ہے، کیونکہ مومن کو اپنی سعی کا اجر بھی ملتا ہے اور دوسروں کی سعی کا بھی۔

(٤) الحسین بن الفضل نے کہا : اللہ تعالیٰ کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کو صرف اس کی سعی پر اجر عطاء فرمائے اور اس کے فضل کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس کو دوسرے کی سعی پر بھی اجر عطاء فرمائے اور النجم : ٣٩ صورت عدل پر محمول ہے۔

(٥) ابوبکر الوراق نے کہا : اس آیت میں سعی کا معنی نیت ہے، یعنی انسان کو صرف اس کی نیت کا اجر ملتا ہے۔

(٦) الثعلبی نے کہا : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کافر کو اس کی نیکیوں کا اجر صرف دنیا میں ملتا ہے، آخرت میں اس کے لیے کوئی اجر نہیں ہے۔

(٧) علامہ زاغوانی حنبلی متوفی ٥٦٧ ھ نے کہا ہے کہ اس آیت میں ” لام “ بہ معنی ” علی “ ہے، یعنی انسان کو صرف اسی عمل سے ضرر یا اسی عمل پر عذاب ہوگا جو اس نے خود کیا ہو، کسی اور کے برے عمل سے اس کو عذاب نہیں ہوگا، جیسا کہ النجم : ٣٨ میں تصریح ہے۔

(٨) ہمارے شیخ علی بن عبید اللہ زعوانی حنبلی متوفی ٥٢٧ ھ نے اس آیت کا دوسرا جواب یہ دیا ہے کہ اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ ہر انسان کو اپنی سعی کے سبب سے اجر ملتا ہے اور اسباب مختلف ہوتے ہیں : (١) اس کے رشتہ دار، اس کی اولاد اور اس کے دوست اس پر رحم کھا کر اسے اپنی عبادتوں کا ثواب پہنچاتے ہیں (٢) وہ دین کی خدمت کرتا ہے اور عبادت کرتا ہے، اس وجہ سے دین دار لوگ اس سے محبت کرتے ہیں اور وہ ان کے ثواب پہنچانے کا سبب بن جاتا ہے ( علامہ عینی، علامہ طحطاوی اور علامہ شامی نے بھی اپنی کتب میں ان جوابات کو ذکر کیا ہے۔ سعیدی غفرلہٗ )

(زاد المسیر ج ٨ ص ٨٢، مکتب اسلامی، بیروت، ١٤٠٧ ھ)

شافعی مفسرین کے جوابات

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی شافعی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

اس آیت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ انسان کو صرف اپنی سعی کا اجر ملتا ہے، حالانکہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ انسان کی سعی کا بھی اجر ملتا ہے، مثلاً میت کے رشتہ داروں کی طرف سے جو صدقہ کرتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں، یہ عبادات میت تک پہنچتی ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی اس انسان کی سعی کا نتیجہ ہے کیونکہ وہ انسان اپنے رشتہ داروں کے ساتھ ایسا نیک سلوک کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ اس کے مرنے کے بعد اس کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں۔

دوسرا اعتراض یہ ہے کہ انسان کو بغیر عمل کیے بھی اجر ملتا ہے، وہ ایک نماز پڑھتا ہے اور اس کو دس نمازوں کا اجر ملتا ہے، قرآن مجید میں ہے :

مَن جَآئَ بِالحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشرُ اَمثَالِہَا ج (الانعام : ١٦٠) جو شخص ایک نیکی لائے گا اس کے لیے اس کی دس مثالیں ہوں گی۔

اس کا جواب یہ ہے کہ زیادہ اجر ملنا اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اس زیر تفسیر آیت میں صورت عدل کا ذکر ہے۔

اس کا تیسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں انسان سے مراد کافر ہے اور چوتھا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں سابقہ شریعتوں کا ذکر ہے اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت نے ان کو منسوخ کردیا، اب انسان کو اپنی سعی کا اجر بھی ملے گا اور دوسروں کی سعی کا بھی، لیکن یہ جواب باطل ہے اور سابقہ جواب کافی ہیں پھر نسخ کے قول کی کیا ضرورت ہے ؟

(تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٢٧٦، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

میں کہتا ہوں کہ امام رازی کا اس جواب کو باطل کہنا صحیح نہیں ہے، یہ جواب حضرت ابن عباس (رض) کا ہے جو تفسیر قرآن میں دعاء رسول ہیں اور تمام مفسرین نے اس جواب پر اعتماد کیا ہے۔

مالکی مفسرین کے جوابات

علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ہے : یہ آیت الطور : ٢١ سے منسوخ ہے اور چھوٹا بچہ قیامت کے دن اپنے باپ کے میزان میں ہوگا، اور اللہ تعالیٰ آباء کو ابناء کے لیے اور ابناء کو آباء کے لیے شفیع بنائے گا اور اس پر دلیل یہ آیت ہے :

اٰبَآؤُکُم وَاَبنَآؤُکُم ج لَا تَدرُونَ اَیُّھُم اَقرَبُ لَکُم نَفعًا ج (النسائ : ١١)

تمہارے باپ ہوں اور تمہارے بیٹے، تم ان کے متعلق از خود نہیں جانتے کہ ان میں سے کس کا نفع تمہارے زیادہ قریب ہے۔

اور اکثر اہل تاویل نے کہا ہے کہ یہ آیت غیر منسوخ ہے اور کسی شخص کا عمل دوسرے شخص کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور اس پر اجماع ہے کہ کوئی شخص کسی شخص کی طرف سے نماز نہیں پڑھ سکتا ( فقہاء احناف نے کہا ہے کہ میت کی قضاء نمازوں کا اس کی طرف سے اس کے ورثاء فدیہ دے سکتے ہیں اور حیلہ اسقاط کرنا بھی جائز ہے، اس کی تفصیل ہم انشاء اللہ اس بحث کے آخر میں بیان کریں گے۔ سعیدی غفرلہ) اور امام مالک نے کہا ہے کہ میت کی طرف سے روزے رکھنا، حج کرنا اور صدقہ کرنا بھی جائز نہیں ہے ( میں کہتا ہوں کہ روزوں کا فدیہ دینا بھی جائز ہے اور میت کی طرف سے حج کرنا اور صدقہ دینا بھی جائز ہے اور انشاء اللہ ہم اس کو عنقریب دلائل کے ساتھ بیان کریں گے۔ سعیدی غفرلہٗ ) البتہ امام مالک نے یہ کہا ہے کہ اگر کسی شخص نے حج کرنے کی وصیت کی اور فوت ہوگیا تو اس کی طرف سے حج کرنا جائز ہے اور امام شافعی وغیرہ نے یہ کہا ہے کہ میت کی طرف سے نفلی حج کرنا جائز ہے۔

باقی اس آیت کی تفسیر میں ربیع بن انس نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت کفار کے لیے ہے اور مومن کو اس کے عمل کا ثواب بھی پہنچتا ہے اور دوسرے کے عمل کا ثواب بھی پہنچتا ہے، میں کہتا ہوں کہ بہ کثرت احادیث اس قول پر دلالت کرتی ہیں کہ مومن تک نیک اعمال کا ثواب پہنچتا ہے، خواہ وہ نیک اعمال اس مومن نے کیے ہوں یا کسی دوسرے نے اور صدقہ کا ثواب پہنچنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، جیسا کہ ” کتاب مسلم “ کے شروع میں عبد اللہ بن مبارک کا قول ہے، نیز حدیث صحیح میں ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے عمل منقطع ہوجاتے ہیں سوائے تین اعمال کے : علم نافع، صدقہ جاریہ اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہے۔

( صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٣١، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٨٨٠، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٣٧٦)

اور یہ محض اللہ کے فضل سے ہے جیسا کہ کسی عمل کے اجر کو بڑھا کر دگنا چوگنا کردینا بھی اللہ کے فضل سے ہے، حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ایک عمل کی جزاء دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک عطاء فرماتا ہے۔ ( صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٣١)

اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور النجم : ١٣٩ اللہ تعالیٰ کے عدل پر محمول ہے۔

(الجامع الاحکام القرآن جز ١٧ ص ١٠٦۔ ١٠٥، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

حنفی مفسرین کے جوابات

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :

اس آیت پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ میت کی طرف سے جو صدقہ کیا جائے تو اس سے اس کو نفع پہنچتا ہے، نیز بعض ١ جلہ محققین نے کہا ہے کہ کتاب اور سنت سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ غیر کے عمل سے نفع حاصل ہوتا ہے اور یہ چیز اس ظاہر آیت کے خلاف ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ دوسرے کے عمل سے نفع نہ پہنچنا بہ طریق عدل ہے اور نفع پہنچنا بہ طریق فضل ہے اور عکرمہ نے کہا : یہ حکم سابقہ امتوں میں تھا اور اس امت میں حکم یہ ہے کہ انسان کو اپنے عمل سے بھی نفع ہوتا ہے اور دوسرے کے عمل سے بھی نفع ہوتا ہے اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : یہ آیت الطور : ٢١ سے منسوخ ہے۔ علامہ ابوالحیان اندلسی نے نسخ کے قول پر یہ اعتراض کیا ہے کہ نسخ خبر میں نہیں انشاء میں ہوتا ہے اور النجم : ٣٩ اور الطور : ٢١ دونوں آیتیں خبر ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے النجم : ٣٩ میں یہ خبر دی ہے کہ دوسرے شخص کو اپنے عمل کا ثواب نہ پہنچایا جائے پھر ہماری شریعت میں اس کو جائز کردیا سو اس کا مآل النجم : ٣٩ کی خبر کو حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ کی شریعت کے ساتھ مقید کرنا ہے نہ کہ اس کو منسوخ قرار دینا اور یہ اس حکم کی تخصیص ہے اس کا نسخ نہیں ہے۔

امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی تلاوت کا ثواب اموات کو نہیں پہنچتا اور امام مالک کا بھی یہی مذہب ہے بلکہ امام ابن ھمام نے یہ کہا ہے کہ امام شافعی اور امام مالک عبادات بدینہ محضہ کے ایصال ثواب کے قائل نہیں ہیں اور بعض علماء شافعیہ اور امام احمد بن حنبل اور فقہاء احناف مطلقاً ایصال ِ ثواب کے جواز کے قائل ہیں۔

( روح المعانی جز ٢٧ ص ١٠٢۔ ١٠١، ملخصاً ، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

ایصال ِ ثواب کے متعلق احادیث

(١) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ میری ماں اچانک ہوگئی اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ بات کرتی تو کچھ صدقہ کرتی، پس اگر میں اس کی طرف سے کچھ صدقہ کروں تو کیا اس کو کوئی اجر ملے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٧٦٠۔ ١٣٨٨، صحیح مسلم الحدیث : ١٠٠٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٧١٧)

(٢) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ (رض) کی ماں کا انتقال ہوگیا، وہ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے۔ پھر وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میری ماں کا انتقال ہوگیا اور میں اس وقت موجود نہیں تھا، اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کروں تو کیا ان کو اس کا نفع پہنچے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! انہوں نے کہا : پس بیشک میں آپ کو گمراہ کرتا ہوں کہ میرا مخراف نام کا کھجوروں کا باغ ان پر صدقہ ہے۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٧٦٢۔ ٥٦ ٢٧، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٦٦٩، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٨٨٢)

(٣) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ ان کی ماں فوت ہوگئی اور انہوں نے ایک نذر مانی ہوئی تھی، آپ نے فرمایا : تم ان کی طرف سے ان کی نذر ادا کرو۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٧٦١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٣٨، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٣٣٠، سنن نسائی رقم الحدیث : ٣٨١٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢١٣٢)

(٤) حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت فضل بن عباس سواری پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، قبیلہ خشعم کی ایک عورت آئی تو حضرت فضل اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ عورت حضرت فضل کی طرف دیکھنے لگی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فضل کے چہرے کو دوسری طرف کردیا، اس عورت نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حج کرنا فرض کردیا ہے اور میرا باپ بہت بوڑھا ہے، وہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتا، کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! اور یہ حجۃ الوداع کا موقع تھا۔

( صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٥١٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٣٣٤، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٨٠٩، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٦٤١ )

(٥) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا کہ میری بہن نے حج کرنے کی نذر مانی تھی اور اب وہ فوت ہوگئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر اس پر قرض ہوتا تو کیا تم اس کا قرض ادا کرتے ؟ اس نے کہا : جی ! آپ نے فرمایا : تو اللہ کا قرض ادا کرو، وہ قرض کی ادائیگی کا زیادہ مستحق ہے۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٦٩٩، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٨٠٩، مسند الحمیدی رقم الحدیث : ٥٠٧، سنن دارمی رقم الحدیث : ١٨٤٠ )

(٦) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور اس نے کہا : میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی، پھر وہ حج کرنے سے پہلے فوت ہوگئی، آیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! تم اس کی طرف سے حج کرو، یہ بتائو کہ اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تم اس قرض کو ادا کرتیں ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا : تو پھر تم اللہ کا قرض ادا کرو کیونکہ اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا جائے۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٣١٥، مؤطا امام مالک رقم الحدیث : ٢٣٦، مسند احمد رقم الحدیث : ٢٢٦٦، عالم الکتب، بیروت)

(٧) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سینگھوں والے مینڈھے کو لانے کا حکم دیا، وہ مینڈھا لایا گیا تاکہ آپ اس کی قربانی کریں، پھر آپ نے فرمایا : اے عائشہ ! چھری لائو، پھر فرمایا : اس چھری کو پتھر سے تیز کرو، انہوں نے اس چھری کو دھار تیز کی، پھر آپ نے اس چھری کو پکڑ کر اس مینڈھے کو گرایا، پھر اس کو ذبح کرنے لگے، پھر یہ دعا کی : بسم اللہ ! اے اللہ ! اس کو محمد اور آل محمد اور امت محمد کی طرف سے قبول فرما، پھر اس کو قربان کردیا۔

(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٩٦٧، الرقم المسلسل، ٥٠٠١، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٧٩٢)

امام احمد نے اس حدیث کو تین مختلف سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے اور ان سندوں کے ساتھ یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے۔

(مسند احمدج ٣ ص ٣٥٦ طبع قدیم، ج ٢٣ ص ١٣٤، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤١٩ ھ، المستدرک ج ٤ ص ٢٢٩، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ١٧٩٢، سنن بیہقی ج ٩ ص ٢٦٨، مسند احمد ج ٣ ص ٣٦٢ طبع قدیم، مسند احمد ج ٢٣ ص ١٧١، مؤسسۃ الرسالۃ، سنن الدار قطنی ج ٤ ص ٢٨٥، مسند احمد ج ٣ ص ٣٧٥ طبع قدیم، مسند احمد ج ٢٣ ص ٢٦٧، مؤسسۃ الرسالۃ، المستدرک ج ١ ص ٣٦٧، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٢٨٩٩، سنن دارمی رقم الحدیث : ١٩٤٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣١٢١، الطحاوی ج ٤ ص ١٧٧)

حضرت علی (رض) کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے قربانی کی حدیث کی سند کی تحقیق

(٨) حنش بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) کو دیکھا، وہ دو مینڈھوں کی قربانی کرتے تھے، میں نے ان سے پوچھا : اس کی کیا وجہ ہے ؟ انہوں نے کہا کہ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے یہ وصیت کی تھی کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کروں، سو میں آپ یک طرف سے قربانی کرتا ہوں ( ” ترمذی “ کی روایت میں ہے : میں اس قربانی کو کبھی ترک نہیں کروں گا) ۔ ( سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٧٩٠، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٤٩٥، مسند احمد ج ١ ص ١٠٧ طبع قدیم، مسند احمدج ٢ ص ٢٠٦، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢٠ ھ، المستدرک ج ٤ ص ٢٣٠۔ ٢٢٩، سنن بیہقی ج ٩ ص ٢٨٨)

امام ابو دائود، امام ترمذی اور امام احمد کا سلسلہ سند ہے اس طرح ہے : ” شریک عن ابی الحسناء عن الحکم عن حبنش عن علی “۔

امام ابو عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ اس حدیث کی سند کے متعلق لکھتے ہیں :

یہ حدیث غریب ہے، ہم اس کو صرف شریک کی حدیث سے پہچانتے ہیں اور بعض اہل علم نے میت کی طرف سے قربانی کرنے کی اجازت دی ہے اور بعض نے اس سے منع کیا ہے۔ عبد اللہ بن مبارک نے کہا : مستحب یہ ہے کہ اس جانور کا میت کی طرف سے صدقہ کردیا جائے اور اس کی قربانی نہ کی جائے اور اگر قربانی کردی جائے تو قربانی کرنے والا اس کو خود نہ کھائے اور اس پورے جانور کو صدقہ کر دے۔ محمد ( امام بخاری) نے کہا : علی بن مدینی نے کہا : اس حدیث کو شریک کے علاوہ بھی راویوں نے روایت کیا ہے، میں نے ان سے پوچھا : ابو الحسناء کا نام کیا ہے ؟ تو انہوں نے اس کو نہیں پہچانا اور امام مسلم نے کہا : اس کا نام حسن ہے۔ ( سنن ترمذی ص ٦٣١، دارالمعرفہ، بیروت، ١٤٢٣ ھ)

حافظ جمال الدین ابو الحجاج یوسف المزی المتوفی ٧٤٢ ھ ابو الحسناء کے متعلق لکھتے ہیں :

ابوالحسناء کو فی ہیں، ان کا نام حسن ہے اور ایک قول یہ ہے کہ ان کا نام حسین ہے، امام ابو دئود، امام ترمذی اور امام نسائی نے ان سے احادیث روایت کی ہیں، ہمارے پاس ان کی حدیث سند عالی سے ہے، پھر انہوں نے اس حدیث کو اپنی سند سے روایت کیا ہے۔ ( تہذیب الکمال ج ٢١ ص ١٧٩، دارالفکر، بیروت : ١٤١٤ ھ)

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی نے بھی اسی طرح لکھا ہے۔ ( تہذیب التہذیب ج ١٢ ص ٦٦، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)

علامہ شمس الدین محمد بن امحمد الذہبی المتوفی ٧٤٨ ھ لکھتے ہیں :

الحسن بن الحکم النخعی الکوفی ابراہیم، شعبی اور ایک جماعت سے روایت کرتے ہیں، ابن معین نے کہا : یہ ثقہ ہیں، ابو حاتم نے کہا : یہ صالح الحدیث ہیں، ابن حبان نے ان میں کلام کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بہ کثرت خطاء کرتے تھے اور شدید وہمی تھے اور جب یہ کسی روایت میں منفرد ہوں تو مجھے وہ روایت پسند نہیں ہے۔ ( میزان الاعتدال ج ٢ ص ٢٣٣، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٦ ھ )

علامہ شعیب الانؤط اور ان کے شرکاء اس حدیث کی تحقیق میں لکھتے ہیں :

امام حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے کہ اور علامہ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے اور کہا ہے کہ اس سند میں جو ابو الحسناء ہے وہ الحسن بن الحکم نخعی ہے، اس کے باوجود انہوں نے ” میزان الاعتدال “ کے ” باب الکنی “ میں اس کا نام ذکر نہیں کیا اور کہا ہے وہ معروف نہیں ہے اور الحسن بن الحکم معروف ہے، اس سے ایک جماعت نے روایت کیا ہے اور متعدد ائمہ نے اس کی توثیق کی ہے اور نسائی کے علاوہ باقی اصحاب السنن نے اس سے حدیث کو روایت کیا ہے۔

(حاشیہ مسند احمد ج ٢ ص ٢٠٦، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

امام محمد بن عبد اللہ حاکم نیشا پوری متوفی ٤٠٥ ھ روایت کرتے ہیں :

حنش بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے دو مینڈھوں کی قربانی کی، ایک مینڈھے کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اور ایک مینڈھے کی اپنی طرف سے اور کہا کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ حکم دیا تھا کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کرو، پس میں آپ کی طرف سے ہمیشہ قربانی کرتا رہوں گا۔ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور امام بخاری اور امام مسلم نے اس کو روایت نہیں کیا اور اس کی سند میں جو ابو الحسناء ہے وہ الحسن بن الحکم النحعی ہے۔

( المستدرک ج ٤ ص ٢٣٠۔ ٢٢٩، دارالباز، مکہ مکرمہ)

اس حدیث کے ذیل میں علامہ شمس الدین ذہبی متوفی ٧٤٨ ھ لکھتے ہیں :

یہ حدیث صحیح ہے اور ابو الحسنا ہی حسن بن الحکم نخعی ہے۔ ( تلخیص المستدرک ج ٤ ص ٢٣٠۔ ٢٢٩، دا رالباز، مکہ مکرمہ)

اس حدیث پر بعض لوگوں نے ضعیف کا حکم اس لیے لگایا تھا کہ اس کی سند میں ابو الحسناء مجہول راوی ہے، الحمد للہ ! ہم نے اس کی جہالت کو زائل کردیا اور یہ واضح کردیا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

حضرت سعد بن عبادہ کی سند کی تحقیق

حضرت سعد بن عبادہ (رض) نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بیشک سعد کی ماں فوت ہوگئی، پس کون سا صدقہ افضل ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : پانی کا، پھر حضرت سعد نے کنواں کھودا اور کہا : یہ سعد کی ماں کا ہے۔ ( سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٦٨١)

دوسری سند سے یہ روایت ہے :

(٩) سعید بن المسیب بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا : کس چیز کا صدقہ آپ کو سب سے زیادہ پسندیدہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : پانی کا۔

( سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٦٨٠۔ ١٦٧٩، سنن نسائی رقم الحدیث : ٣٦٦٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٦٨٤، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٢٤٩٧، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣٣٤٨، المستدرک ج ١ ص ٤١٤، مسند احمد ج ٥ ص ٢٨٥)

امام حاکم نیشا پوری متوفی ٤٠٥ ھ لکھتے ہیں :

اس حدیث کو سعید بن المسیب نے حضرت سعد بن عبادہ (رض) سے روایت کیا ہے اور یہ امام بخاری اور امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔

علامہ ذہبی نے ” ذیل المستدرک “ میں اس پر تعاقب کیا ہے اور لکھا ہے : نہیں یہ غیر متصل ہے، کیونکہ سعید بن المسیب کا حضرت سعد بن عبادہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔ (المستدرک مع الذیل ج ١ ص ٤١٤)

امام ابو دائود نے حدیث : ١٦٨٠ میں اس کو دوبارہ روایت کیا ہے :” عن الحسن عن سعد بن عبادہ “ یہ بھی منقطع ہے، کیونکہ حسن بصری کا حضرت سعد سے سماع ثابت نہیں ہے، پھر امام ابو دائود نے اس کو حدیث : ١٦٨١ میں مکرر روایت کیا ہے : ” عن رجل عن سعد بن عبادہ “ اور یہ سند بھی ضعیف ہے کیونکہ اس میں ” الرجل “ مجہول ہے، لیکن یہ حدیث ان اسانید کے مجموعہ کی وجہ سے حسن بغیرہ ہوگئی اور ابن المسیب کی مراسیل صحیح ہے، اس لیے یہ حدیث لائق احتجاج اور صالح الاستدلال ہے۔

اس حدیث کی تائید میں امام ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی المتوفی ٣٦٠ ھ کی یہ صحیح السند روایت ہے :

(١٠) حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا کہ بیشک میری والدہ کا انتقال ہوگیا اور انہوں نے کوئی وصیت نہیں کی ہے، اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کروں تو کیا ان کو نفع پہنچے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! تم پر پانی کا صدقہ لازم ہے۔

(المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٨٠٥٧، مکتبۃ المعارف، ریاض، ١٤١٥ ھ، المعجم اولاسط رقم الحدیث : ٨٠٦١، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

حافظ نور الدین الہیثمی المتوفی ٨٠٧ ھ لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے تمام راوی صحیح ہیں۔ ( مجمع الزوائد ج ٣ ص ١٣٨، بیروت)

ایصال ِ ثواب کے متعلق بعض دیگر احادیث

(١١) حضرت سہل بن عبادہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو اور کہا کہ میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے، انہوں نے کہا کوئی وصیت کی ہے نہ صدقہ، اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کروں تو کیا وہ مقبول ہوگا ؟ اور انہیں اس کا فائدہ پہنچے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! اگرچہ تم بکری کا جلا ہوا کھر صدقہ کرو۔

( المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٧٤٨٦، مکتبۃ المعارف، ریاض، ١٤١٥ ھ)

حافظ الہیثمی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند میں ایک راوی محمد بن کریب ضعیف ہے۔ ( مجمع الزوائد ج ٣ ص ١٣٨)

(١٢) حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : جب کوئی شخص نفلی صدقہ کر کے اسے اپنے ماں باپ کی طرف سے قرار دیتا ہے تو انہیں بھی اس صدقہ کا اجر وثواب ملتا ہے اور اس کے اجر وثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔

( مجمع الزوائد ج ٣ ص ١٣٩، حافظ الہیثمی نے کہا کہ اس کو طبرانی نے ” اوسط “ میں روایت کیا ہے اور اس میں ایک راوی خارجہ بن مصعب الضبی ضعیف ہے۔ )

(١٣) عمرو بن شعیب اپنے باپ سے، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ عاص بن وائل نے وصیت کی کہ اس کی طرف سے سو غلام آزاد کیے جائیں تو اس کے بیٹے ہشام نے اپنے حصہ کے پچاس غلام آزاد کردیئے، پھر اس کے دوسرے بیٹے عمرو نے ارادہ کیا کہ بقیہ پچاس غلام آزاد کر دے، پھر انہوں نے سوچا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھ لوں۔ پھر وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے باپ نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تھی اور ہشام نے اپنے حصہ کے پچاس غلام آزاد کردیئے اور پچاس غلاموں کو آزاد کرنا باقی ہے، کیا میں اپنے باپ کی طرف سے ان کو آزاد کر دوں ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر تمہارا باپ مسلمان ہوتا پھر تم اس کی طرف سے غلام آزاد کرتے یا تم اس کی طرف سے صدقہ کرتے یا تم اس کی طرف سے حج کرتے تو اس کو ان عبادات کا ثواب پہنچتا۔ ( سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٨٨٣، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٣ ص ٣٨٧۔ ٣٨٦، سنن بیہقی ج ٦ ص ٢٧٩، مسند احمد ج ٢ ص ١٨٢ طبع قدیم، مسند احمد ج ١١ ص ٢٠٧، مؤسسۃ الرسالۃ)

” مسند احمد “ کے مخرج شعیب الارنؤط لکھتے ہیں کہ اس حدیث کی سند حسن ہے۔ ( حاشیہ مسند احمد ج ١١ ص ٣٠٧)

علامہ سید محمود آلوسی نے بھی اس حدیث سے ایصال ثواب کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ البتہ ان کی ذکر کردہ حدیث میں سو اونٹوں کی قربانی کرنے کا تذکرہ ہے اور ’ ’ مسنداحمد “ میں بھی اسی طرح ہے۔ لیکن ” سنن ابو دائود “ میں سو غلاموں کے آزاد کرنے کا ذکر ہے، جیسا کہ ہم مکمل حدیث ذکر کرچکے ہیں۔ ( روح المعانی جز ٢٧ ص ١٠١، دارلفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

(١٤) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک عورت نے عرض کی : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میری ماں کا اچانک انتقال ہوگیا، اگر اچانک انتقال نہ ہوا ہوتا تو ضرور وہ صدقہ کرتیں اور کچھ دیتیں، تو کیا میرا ان کی طرف سے کوئی چیز صدقہ کرنا انہیں کفایت کرے گا ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں ! تم ان کی طرف سے صدقہ کرو۔ ( سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٧٧٣)

اس حدیث پر امام ابو دائود نے سکوت کیا ہے اور قاعدہ ہے کہ جس حدیث پر امام ابو دائود سکوت کریں، اس کی سند حسن ہوتی ہے۔

ہم نے جن احادیث سے ایصال ثواب کے جواز پر استدلال کیا ہے ان میں سے چھ احادیث ” صحیح بخاری “ کی ہیں اور بعض میں ان کے ساتھ امام مسلم بھی متفق ہیں۔ اور ایک حدیث ” صحیح مسلم “ اور ’ ’ ابو دائود “ کی ہے۔ علاوہ ازیں چار احادیث ” سنن ابو دائود “ کی ہیں اور یہ بھی صحیح لغیرہ اور حسن ہیں۔ اور تین احادیث امام طبرانی کی ہیں، جن میں سے دو احادیث سند ضعیف کے ساتھ ہیں اور حدیث ضعیف السند فضائل اعمال میں مقبول ہوتی ہے، خصوصاً جب اس کی تائید میں احادیث صحیحہ اور امام طبرانی کی ایک روایت ہم نے سند صحیح کے ساتھ ذکر کی ہے۔ اس کے بعد اب ہم ایصال ثواب کے مطلقاً جواز اور فقہاء احناف اور فقہاء حنابلہ کی عبارات پیش کریں گے۔ قنقول وباللہ التوفیق۔

ایصال ثواب کے متعلق فقہاء احناف میں سے صاحب ہدایہ کی تصریحات

علامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر الرغینائی انخعی المتوفی ٥٩٣ ھ لکھتے ہیں :

دوسرے کی طرف سے حج کرنے میں اصل یہ ہے کہ انسان کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے عمل کا ثواب دوسرے کو پہنچا دے، اور وہ عمل نماز ہو یا روزہ یا صدقہ وہ یا کوئی اور عمل ( مثلاً تلاوت قرآن اور اذکار) یہ اہل سنت و جماعت کے نزدیک ثابت اور مقرر ہے کیونکہ روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسرمئی رنگ کے مینڈھے ذبح کیے، ایک اپنی طرف سے اور ایک اپنی امت کی طرف سے۔ جب آپ نے ان مینڈھوں کا منہ قبلہ کی طرف کردیا تو یہ دعا پڑھی :” اِنِّی وَجَّھتُ وَجھِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ حَنِیفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ المُشرِکِینَ “ (الانعام : ٧٩) (الانعام : ١٦٤۔ ١٦٢) اے اللہ ! یہ میری طرف سے اور میرے لیے ہے، محمد کی طرف سے اور اس کی امت کی طرف سے، بسم اللہ اللہ اکبر پر آپ نے ان کو ذبح کردیا۔ آپ نے دو مینڈھوں میں سے ایک کی قربانی امت کی طرف سے کی یہ اور عبادات کئی اقسام کی ہیں : مالیہ حضہ مثلاً زکوۃ ہدایہ حضہ مثلاً نماز، ان دونوں سے مرکب مثلاً حج اور قسم بنول ( مالیہ حضہ) میں۔۔۔۔ کرنے کا ثواب ہوگا کیونکہ یہ عبادت بدنیہ ہے اور عجز کی صورت میں مال خرچ کرنے کو عبادت کے قائم مقام قرار دیا ہے، جیسے روزہ میں فدیہ دینے کو روزے کے قائم مقام قرار دیا ہے۔ ( ہدایہ اولین ص۔ ٢٩۔ ٢٩٦، مکتبہ شرکت علمیہ، ملتان)

فقہاء احناف میں سے علامہ شامی کی ایصال ثواب کے متعلق تصریحات

سید محمد امین بن عمر بن عبد العزیز عابدین شامی حنفی متوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں :

معتزلہ ایصال ِ ثواب کی نفی اس آیت سے کرتے ہیں :” وَاَن لَّیسَ لِلاِنسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی “ ( النجم : ٣٩) لیکن یہ آیت یا منسوخ ہے یا مقصد ہے، یعنی سابقہ امتوں کو یا کافر کی صرف اپنی سعی کا اجر ملے گا، سابقہ امتوں کے مؤمنوں کو آخرت میں اور کافر کو صرف دنیا میں، کیونکہ بہ کثرت ایسی احادیث مروی ہیں جو اس تقیید کا تقاضا کرتی ہیں۔

حجاج بن دینار روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا : میرے ماں باپ ہیں جن کے ساتھ میں زندگی میں نیکی کرتا تھا، اب میں انکی موت کے بعد کیسے ان کے ساتھ نیکی کروں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان کی موت کے بعد ان کے ساتھ نیکی اس طرح ہے کہ تم اپنی نماز کے ساتھ ان کے لیے نماز پڑھو اور اپنے روزہ کے ساتھ ان کے لیے روزہ رکھو۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ج ٣ ص ٣٨٧، ادارۃ القرآن، کراچی ١٤٠٦ ھ)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنا، ایک شخص کہہ رہا تھا : شبرمہ کی طرف سے لبیک، آپ نے پوچھا : شبرمہ کون ہے ؟ اس نے کہا : میرا بھائی ہے یا میرا رشتہ دار ہے، آپ نے پوچھا : کیا تم نے اپنا خج کرلیا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں ! آپ نے فرمایا : پہلے اپنا حج کرو، پھر شبرمہ کی طرف سے حج کرو۔

( سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٨١١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٩٠٣، المثقی لا بن الجارود رقم الحدیث : ٤٩٩، مشکل الآثار ج ٣ ص ٢٢٣، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٢٠٣٩، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٢٤٤٠، سنن الدارقطنی ج ٢ ص ٢٦٧، سنن بیہقی ج ٤ ص ٢٣٦)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے اپنے ماں باپ کی طرف سے حج کیا یا ان کا کوئی قرض ادا کیا وہ قیامت کے دن ابرار ( نیکی کرنے والوں) کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

( سنن دارقطنی ج ٢ ص ٢٥٩ طبع قدیم، سنن دارقطنی رقم الحدیث : ٢٥٧٤، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢٢ ھ)

حضرت زید بن ارقم (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب کوئی شخص اپنے والدین کی طرف سے حج کرے تو وہ حج اس کی طرف سے بھی قبول کیا جاتا ہے اور اس کے والدین کی طرف سے بھی اور ان کی روحیں آسمان میں نوش ہوتی ہیں اور وہ شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک نیکی کرنے والا لکھا جاتا ہے۔ ( سنن دارقطنی ج ٢ ص ٢٥٩ طبع قدیم، سنن دارقطنی رقم الحدیث : ٢٥٧٢، درالکتب العلمیہ، اس کی سند میں ایک راوی ابو سعید البقال ضعیف ہے، تہذیب التہذیب ج ٤ ص ٨٠۔ ٧٩)

حضرت جابر بن عبد اللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے اپنے باپ اور ماں کی طرف سے حج کیا اس کا اپنا حج بھی ہوگیا اور اس کو دس حج کرنے کی فضلیت ملے گی۔

( سنن دارقطنی ج ٢ ص ٢٥٦ طبع قدیم، رقم الحدیث : ٢٥٧٦، طبع جدید، اس حدیث کا محمل یہ ہے کہ اس پر جو حج فرض ہے وہ اس کو ادا کرنے کی نیت کرے پھر اس کا ثواب اپنے ماں باپ کو پہنچا دے۔ )

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ میرے باپ کا انتقال ہوگیا اور اس نے حج نہیں کیا : آپ نے فرمایا : یہ بتائو اگر تمہارے باپ پر قرض ہوتا اور تم اس کو ادا کرتے تو وہ قبول کیا جاتا ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا : تو پھر تم اپنے باپ کی طرف سے حج کرو۔

(سنن دارقطنی ج ٢ ص ٢٥٩ طبعی قدیم رقم الحدیث : ٥٧٧، طبع جدید، المعجم الاوسط رقم الحدیث ١٠٠، حافظ الہثیمی نے کہا اس حدیث کو امام بزار نے اور امام طبرانی نے ” کبیر “ اور ” اوسط “ میں روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے، مجمع الزوائد ج ٣ ص ٢٨٢)

حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص قبرساتن سے گزرا اور اس نے گیارہ مرتبہ ” قل ھو اللہ احد “ پڑھا، پھر اس کا اجر اس قبرستان کے مردوں کی بخش دیا تو اس قبرستان کے جتنے مردے ہیں اتنی بار پڑھنے کا اس کا اجر ملے گا۔ ( جمع الجوامع رقم الحدیث : ٢٣١٥٢، الخصائل سورة اخلاص ج ١ ص ١٠٢ ،۔۔۔۔۔۔ )

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے قبرستان میں جا کر سورة یٰسین پڑھی ( اور اس کا ثواب مردوں کو پہنچایا) اللہ تعالیٰ ان دن ان کے عذاب میں تخفیف کردیتا ہے ( اسی طرح جمعہ کے دن بھی یٰسین پڑھنے سے عذاب میں تخفیف فرماتا ہے) اور قبرستان کے مردوں کی تعداد کے برابر پڑھنے والے کو نیکیاں عطاء فرماتا ہے۔ اس کو امام خلال نے روایت کیا ہے۔ ( اتحاف السادۃ المتقین ج ١٠ ص ٣٧٣)

( ردالمختار ج ٤ ص ٢٨۔ ١٥۔ ١٣۔ ١٤ ملخصاً ، مخرجاً ، زاید، داراحیاء التراث، العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)

ہم نے علامہ شامی کی ذکر کردہ ان احادیث کو ترک کردیا، جن کا پہلے ذکر آچکا ہے اسی طرح اس حدیث کو بھی ترک کردیا، جس کی سند میں کذاب راوی ہے اور سات عدوننی احادیث ذکر کی ہیں، ان میں صرف ایک حدیث کی سند ضعیف ہے۔ اس کو بھی اس لیے ذکر کیا ہے کہ اس کی مؤید دوسری احادیث ہیں اور فضائل اعمال میں ضعیف السند احادیث معتبر ہوتی ہیں اور باقی احادیث صحیح نطیرہ اور حسن ہیں۔

ایصال ثواب کے متعلق فقہاء حنبلیہ میں سے علامہ ابن قدامہ کی تصریحات

علامہ عبد اللہ بن احمد بن قدامہ حنبلی متوفی ٦٢٠ ھ لکھتے ہیں :

جس شخص پر حج فرض ہو یا اس نے حج کی نذر مانی ہو اور وہ خود حج کرنے پر قادر ہو، اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنا فرض حج یا نذر مانا ہوا حج کسی سے گرائے اور نفلی حج کی دو صورتیں ہیں :

(١) اس نے حجۃ الاسلام نہیں کیا توہ وہ نہ خود نفلی حج کرسکتا ہے نہ کسی سے نفلی حج کرا سکتا ہے۔

(٢) اس نے حجۃ الاسلام کرلیا ہے تو وہ کسی سے نفلی حج کراسکتا ہے خواہ وہ حج کرسکتا ہو یا عاجز ہو۔ امام ابوحنیفہ کا بھی یہی مذہب ہے۔

اگر وہ شخص خود حج کرنے سے عاجز ہو یا بہت بوڑھا ہو تو وہ کسی اور شخص سے حج کرا سکتا ہے۔

(المغنی ج ٣ ص ٩٣، ملخصاً ، دارالفکر، بیروت، ١٤٠٥ ھ)

نیز علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں :

جس شخص کے ماں باپ فوت ہوچکے ہیں یا حج کرنے سے عاجز ہوں، اس کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ ان کی طرف سے حج کرے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابورزین کو یہ حکم دیا :” حج عن ابیک واعنمر “ اپنے باپ کی طرف سے حج کرو اور عمرو کرو اور ایک عورت نے آپ سے سوال کیا کہ میرا باپ فوت ہوگیا اور اس نے حج نہیں کیا تو آپ نے فرمایا : تم اپنے باپ کی طرف سے حج کرو۔ امام احمد نے کہا : خواہ و اپنے ماں باپ کی طرف سے فرض حج کرے یا حج نفل کرے۔ حضرت زید بن ارقم (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنے والدین کی طرف سے حج کرتا ہے تو وہ حج اس کی طرف سے اور اس کے ماں باپ کی طرف سے قبول کیا جاتا ہے اور ان کی روحیں آسمان میں خوش ہوتی ہیں اور اللہ کے نزدیک وہ شخص نیکو کار لکھا جاتا ہے اور حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے اپنے ماں باپ کی طرف سے حج کیا ان کا فرض ادا کیا تو وہ قیامت کے دن نیکو کاروں میں اٹھایا جائے گا اور حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے اپنے باپ یا اپنی ماں کی طرف سے حج کیا تو اس کا حج بھی ہوگیا اور اس کو دس حج کرنے کا ثواب ملے گا یہ تمام احادیث ” سنن دارقطنی “ میں ہیں۔

شیخ ابن تیمیہ کے قرآن مجید سے ایصال ثواب کے ثبوت پر دلائل

شیخ ثقی الدین احمد بن تیمیہ شبلی متوفی ٧٩٨ ھ سے سوال کیا گیا۔

قرآن مجید میں ہے :”۔۔۔ “ (النجم : ٦٩) اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب ابن آدم مرجاتا ہے تو تین کے سوال اس کے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں، صدقہ جاریہ وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جائے اور وہ ایک اولاد جو مرنے والے کے لیے دعا کرے (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٣٦) کیا اس کا یہ تقاضا ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے پاس نیک اعمال سے کوئی چیز نہیں پہنچتی۔

شیخ ابن تیمیہ نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ اس آیت میں اور اس حدیث میں یہ بات نہیں ہے کہ میت کو دعائوں سے نفع نہیں پہنچتا اور یہ بات ہے کہ اس کی طرف سے جو نیک عمل کیے جائیں، وہ اس کو نہیں پہنچے اس پر متفق ہیں کہ میت کو ان چیزوں سے نفع پہنچتا ہے اور اس پر کتاب سنت اور اجماع سے دلائل ہیں اور جو اس کی مخالفت کرے وہ اہل بدعت سے ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

اَلَّذِینَ یَحمِلُونَ العَرشَ وَمَن حَولَہٗ یُسَبِّحُونَ بِحَمدِ رَبِّہِم وَیُؤمِنُونَ بِہٖ وَیَستَغفِرُونَ لِلَّذِینَ اٰمَنُواج رَبَّنَا وَسِعتَ کُلَّ شَیئٍ رَّحمَۃً وَّعِلمًا فَاغفِر لِلَّذِینَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِیلَکَ وَقِہِم عَذَابَ الجَحِیمِرَبَّنَا وَاَدخِلہُم جَنّٰتِ عَدنِنِ الَّتِی وَعَد تَّہُم وَمَن صَلَحَ مِن اٰبَآئِہِم وَاَزوَاجِہِم وَذُرِّیّٰتِہِمط اِنَّکَ اَنتَ العَزِیزُ الحَکِیمُ (المومن : ٧۔ ٨)

عرش کو اٹھانے والے فرشتے اور اور جو اس کے ارد گرد ہیں اپنے ب کی تسبیح حمد کے ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں اور مومنوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں ( اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! تو نے ہر چیز کا اپنی مغفرت اور اپنے علم سے مطالبہ کیا ہوا ہے سو تو ان کو بخش دے جو توبہ کریں اور تیرے راستے کی اتباع کریں اور ان کو دوزخ کے عذاب سے بچا اے ہمارے رب ان کو ان جنتوں میں داخل کر دے جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے باپ دادا اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے نیک ہوں ! بیشک تو بہت غالب، بےحد حکمت والا ہے

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ فرشتے مؤمنین کے لیے مغفرت کی عذاب سے بچانے کی اور انمول جنت کی دعا کرتے ہیں اور فرشتوں کی یہ دعا بندو کا عمل نہیں ہے اور اس سے بندو کو نفع ہوتا ہے، پس واضح ہوگیا کہ انسان کو اس کے بغیر کے عمل سے نفع پہنچا۔

اسی طرح ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا :

اللہ ُ وَاستَغفِر لِذَنبِکَ وَلِلمُؤمِنِینَ وَالمُؤمِنٰتِ ط (محمد : ١٩)

آپ اپنے بہ ظاہر خلاف اولیٰ کاموں کی مغفرت طلب کیجئے اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے۔

اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی :

رَبَّنَا اغفِر لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِلمُؤمِنِینَ یَومَ یَقُومُ الحِسَابُ (ابراہیم : ٤١ )

اے میرے رب ! میرے لیے مغفرت فرما، اور میرے والدین کے لیے اور مؤمنوں کے لیے جس دن حساب ہو گا

اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے دعا :

رَبِّ اغفِرلِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَن دَخَلَ بَیتِیَ مُؤمِنًا وَّلِلمُؤمِنِینَ وَالمُؤمِنٰت ِط (نوح : ٢٨ )

اے میرے رب ! میرے لیے مغفرت فرما، اور میرے والدین کے لیے اور جو مومن میرے گھر داخل ہو اور مؤمنین مردوں اور مرمن عورتوں کے لیے۔

یہ نبیوں اور رسولوں کی دعائیں اپنی امتوں اور مؤمنوں کے لیے ہیں اور ان کی یہ دعائیں انسان کے اعمال کا غیر ہیں اور ان کی دعائوں کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے قبول فرمائے گا اور ان سے انسان کو نفع ہوگا اور اس کی مغفرت ہوگی۔

شیخ ابن تیمیہ کے سنن متواترہ سے مالی صدقات اور عباداتِ بدنیہ کی ایصال ثواب پر دلائل

سنن متواترہ سے دوسروں کے اعمال کا نفع آور ہونا ثابت ہے جن کا انکار کفر ہے، مثلاً مسلمانوں کا میت کی نماز جنازہ پڑھنا اور نماز میں ان کے لیے دعا کرنا، اسی طرح قیامت کے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شفاعت کرنا کیونکہ انکے ثبوت میں احادیث متواترہ ہیں، بلکہ مرتکب کبائر کی شفاعت کا اہل بدعت کے سوا کوئی انکار نہیں کرتا اور یہ ثابت ہے کہ آپ اہل کبائر کی شفاعت کریں گے اور آپ کی شفاعت اللہ تعالیٰ سے دعا اور اس سے سوال کرنا ہے، پس یہ امور اور ان کی امثال قرآن اور سنن متواترہ سے ثابت ہیں اور ایسی چیزوں کا منکر کافر ہے اور ایسی چیزیں احادیث صحیحہ سے بہ کثرت ثابت ہیں :

(١) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : میری ماں کا انتقال ہوگیا، اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اس کو نفع ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں !ٗ اس نے کہا : میرا ایک باغ ہے اور میں آپ کو گواہ کرتا ہوں میں نے اس باغ کو اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کردیا۔

(سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٨٨٢، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٦٦٩، سنن نسائی رقم الحدیث : ٣٦٥٥ )

(٢) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہوگیا اور انہوں نے کوئی وصیت نہیں کی اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ بات کرتیں تو کچھ صدقہ کرتیں، پس اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کر دوں تو کیا اس سے ان کو نفع ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں !

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٣٨٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٠٤)

(٣) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ میرا باپ فوت ہوگیا اور اس نے کوئی وصیت نہیں کی، اگر میں اس کی طرف سے کچھ صدقہ کروں تو کیا اس کا فائدہ ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں !

(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٣٠)

(٤) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ العاص بن وائل نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ وہ سو اونٹ ذبح کرے گا اور ہشام بن العاص نے اپنے حصہ کے پچاس اونٹ ذبح کردیئے اور عمرو نے اس کے متعلق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا : اگر تمہارا باپ توحید کا اقرار کرتا پھر تم اس کی طرف سے روزہ رکھتے یاصدقہ کرتے تو اس کو نفع ہوتا۔ ( مسند احمد ج ٢ ص ١٨٢)

(٥) ” سنن دار قطنی “ میں ہے کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا : یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ تھے ‘ میں زندگی میں ان کے ساتھ نیکی کرتا تھا ‘ اب میں ان کی وفات کے بعد کیسے ان کے ساتھ نیکی کروں ؟ آپ نے فرمایا : اب انکے ساتھ نیکی یہ ہے کہ تم اپنی نماز کے ساتھ ان کے لئے نماز پڑھو اور اپنے روزہ کے ساتھ انکے لئے روزہ رکھو ‘ اور اپنے صدقہ کے ساتھ ان کے لئے صدقہ کرو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ٣ ص ٧٨٣)

(٦) امام مسلم نے اپنی کتاب کے شروع میں ابو اسحاق طالقانی سے روایت کیا ہے ‘ انہوں نے کہا : میں نے عبداللہ بن المبارک سے کہا : اے ابو عبدالرحمن ! حدیث میں ہے کہ نیکی کے بعد نیکی یہ ہے کہ تم اپنی نماز کے ساتھ اپنے ماں باپ کے لئے نماز پڑھو اور اپنے روزے کے ساتھ ان کے لئے روزہ رکھو ‘ عبداللہ بن مبارک نے کہا : اے ابو اسحاق ! یہ کس سے روایت ہے ؟ میں نے کہا : یہ شہاب بن حراس کی حدیث ہے ‘ انہوں نے کہا : وہ ثقہ ہے ‘ میں نے کہا : وہ کس سے روایت کرتا ہے ؟ انہوں نے کہا : حجاج بن دینار سے ‘ انہوں نے کہا : وہ بھی ثقہ ہے ‘ وہ کس سے روایت کرتا ہے ؟ میں نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ‘ انہوں نے کہا : اے ابو اسحاق ! حجاج اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان کئی سواریوں کی مسافت کو قطع کرنا ہے لیکن صدقہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور واقعہ اسی طرح ہے جس طرح عبداللہ بن مبارک نے کہا ‘ کیونکہ یہ صدیث مرسل ہے۔ (مقدمہ مسلم رقم الحدیث : ٦١ )

اور ائمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ صدقہ میت تک پہنچتا ہے ‘ اسی طرح عباداتِ مالیہ جیسے غلام آزاد کرنا ‘ ان کا اختلاف صرف اس چیز میں ہے کہ عبادات بدنیہ مثلاً نماز ‘ روزہ اور تلاوت قرآن ان کو دوسرے کی طرف سے کرنا جائز ہے یا نہیں ‘ جب کہ صحیح حدیث میں ہے :

(٧) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جو شخص فوت ہوگیا اور اس کے ذمہ روزے تھے تو اس کا ولی (وارث) اس کی طرف سے وہ روزے رکھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٥٩١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٤١١)

(٨) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ‘ ایک عورت نے کہا : یا رسول اللہ ! میری ماں کا انتقال ہوگیا اور اس کے ذمہ نذر کے روزے ہیں ‘ آپ نے فرمایا : یہ بتائو کہ اگر اس کے ذمہ کسی کا قرض ہوتا تو کیا اس کی طرف سے وہ قرض ادا کیا جاتا ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا : تو پھر تم اپنی ماں کی طرف سے روزے رکھو۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٢١ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٤١١)

(٩) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور کہنے لگی : میری بہن کا انتقال ہوگیا اور اس کے ذمہ دو ماہ کے مسلسل روزے ہیں ‘ آپ نے فرمایا : یہ بتائو کہ اگر تمہاری بہن پر قرض ہوتا تو تم اس کو ادا کرتیں ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا : پھر اللہ کا حق ادائیگی کا زیادہ مستحق ہے۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٥٩١)

(٠١) حضرت عبداللہ بن بریدہ بن حصیب اپنے والد (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر کہا : بیشک میری ماں فوت ہوگئی ہے اور اس پر ایک ماہ کے روزے ہیں ‘ اگر میں اس کی طرف سے یہ روزے رکھ لوں تو آیا اس کی طرف سے یہ روزے ادا ہوجائیں گے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں !

(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٤١١)

لہٰذا ان احادیث میں یہ تصریح ہے کہ میت کے ذمہ جو نذر کے روزے ہیں ان کو رکھا جائے گا اور وہ قرض کی ادائیگی کے مشابہ ہیں اور ائمہ کا اس میں اختلاف ہے اور جن کے پاس یہ احادیث پہنچ گئیں، انہوں نے اس میں اختلاف نہیں کیا، اس مسئلہ میں ان ائمہ کا اختلاف ہے جن کے پاس یہ احادیث نہیں پہنچیں ( میں کہتا ہوں : ان ائمہ نے ان احادیث میں تاویل کی ہے اور روزہ رکھنے کے حکم سے روزہ کا فدیہ دینا مراد لیا ہے تاہم ان کے نزدیک بھی کسی کی طرف سے نفل روزہ اور نفل نماز پڑھنا جائز ہے خواہ جس کی طرف سے یہ نفلی عبادت ادا کی جائے وہ زندہ ہو یا مردہ۔ سعیدی غفرلہ) اور رہا حج تو وہ سب کے نزدیک دوسرے کی طرف سے ادا کرنا کافی ہے اور اس کے متعلق یہ احادیث ہیں :

(١١) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور کہنے لگی : میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی، ابھی اس نے حج نہیں کیا تھا کہ وہ فوت ہوگئی، آیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا : اس کی طرف سے حج کرو، یہ بتائو کہ اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تم اس کو ادا کرتیں ؟ اللہ کا قرض ادا کرو، اللہ تعالیٰ قرض کی ادائیگی کا زیادہ حق دار ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث 1852، صحیح مسلم رقم الحدیث 1148)

(٢١) حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک عرت نے کہا : یا رسول اللہ ! میری ماں فوت ہوگئی اور اس نے حج نہیں کیا، آیا اس کے لئے یہ کافی ہوگا کہ میں اس کی طرف سے حج ادا کر دوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! بخاری کی روایت میں ہے : حضرت ابن عباس فرماتے ہیں : ایک عورت نے کہا : میری بہن نے حج کی نذر مانی تھی، آیا اس کے لئے میرا حج کرنا کافی ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث 6699، صحیح مسلم رقم الحدیث 1149)

ان احادیث میں یہ تصریح ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میت کی طرف سے حج فرض ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور اسی طرح نذر مانے ہوئے حج کو بھی میت کی طرف سے ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور اسی طرح فرض روزوں کو بھی میت کی طرف سے ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور جن کو حکم دیا ہے وہ بعض احادیث میں میت کی اولاد تھی اور بعض احادیث میں میت کا بھائی تھا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو میت کے ذمہ قرض کے مشابہ قرار دیا ہے اور قرض ہر ایک کی طرف سے ادا کیا جاسکتا ہے اور یہ اس پر دلیل ہے کہ یہ کام بھی ہر شخص کرسکتا ہے اور اس میں اولاد کی تخصیص نہیں ہے۔ کیونکہ بعض احادیث میں آپ نے بھائی کو بھی ادائیگی کا حکم دیا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ کتاب، سنت اور اجماع علماء سے یہ واضح ہوگیا کہ میت کی طرف سے عبادات کو ادا کرنا اور ایصال ثواب کرنا جائز ہے اور (النجم :39) اس کے خلاف نہیں ہے، اسی طرح وہ حدیث بھی اس کے خلاف نہیں ہے جس میں یہ فرمایا ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد اس کے سب اعمال منقطع ہوجاتے ہیں سوا تین کے۔ (صحیح مسلم :1131) اور یہ حق ہے بلکہ یہی حق ہے کیونکہ اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ اس کو دوسرے کے عمل سے فائدہ نہیں ہوگا جب کہ اس حدیث میں یہ ہے کہ اس کی اولاد کی دعا سے اس کو فائدہ ہوگا۔

(النجم :39) کے متعدد جوابات ہیں۔ (١) یہ ہم سے پہلی شریعت کا حکم ہے (٢) یہ حکم حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ کی امتوں کے ساتھ مخصوص ہے (٣) یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے (٤) انسان کی سعی سے مراد اس کا سبب ہے اور اس کے غیر کے اعمال کا بھی وہ سبب ہوتا ہے اور ظاہر یہ ہے کہ یہ آیت باقی نصوص کے مخالف نہیں ہے اور اس میں یہ مذکور نہیں ہے کہ غیر کے عمل سے اس کو نفع نہیں پہنچے گا۔ حدیث صحیح میں ہے :

(٣١) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص کسی کے جنازہ پر گیا حتیٰ کہ اس کی نماز پڑھی، اس کو ایک قیراط اجر ملے گا اور جو تدفین تک جنازہ کے ساتھ رہا اس کو دو قیراط اجر ملے گا، پوچھا گیا : قیراط کیا ہیں ؟ انہوں نے کہا : دو بڑے پہاڑوں کی مثل ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث 1325، صحیح مسلم رقم الحدیث 945) اور اللہ تعالیٰ زندہ کی نماز پڑھنے سے میت پر رحم فرماتا ہے، جیسا کہ اس حدیث میں ہے :

(٤١) جو مسلمان بھی فوت ہو اور اس کی نماز جنازہ سو مسلمان پڑھیں، ایک روایت میں ہے : چالیس مسلمان اس کی نماز جنازہ پڑھیں اور ایک روایت میں ہے : تین صفحیں نماز پڑھیں اور وہ اس کے لئے دعا اور شفاعت کریں تو ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے اور ایک روایت میں ہے : اس کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث 948-947)

پس اللہ تعالیٰ اس سعی کرنے والے کو ایک قیراط اجر دے گا اور اس کی سعی سے اس میت پر رحم فرمائے گا، اس کی دعا کے سبب سے اور اس کی طرف سے صدقہ کرنے کے سبب سے اور اس کی طرف سے روزہ رکھنے کے سبب سے اور اس کی طرف سے حج کرنے کے سبب سے۔

(٥١) حدیث صحیح میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : جو شخص بھی اپنے (مسلمان) بھائی کے لئے دعا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس دعا کے ساتھ ایک فرشتہ مقرر کردیتا ہے اور جب بھی وہ اپنے بھائی کے لئے دعا کرتا ہے تو وہ فرشتہ آمین کہتا ہے اور کہتا ہے : تیرے لئے بھی ایسا ہو۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث 2733)

پس یہ وہ سعی ہے جس سے مسلمان اپنے بھائی کو نفع پہنچاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو جزا دے اور اس پر رحم فرمائے۔

ہر وہ چیز جس سے میت کو نفع ہوتا ہے یا زندہ کو نفع ہوتا ہے اور اس پر رحم کیا جاتا ہے، یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ نفع اس کی اپنی سعی سے ہو، کیونکہ مومنین کے کم سن بچے اپنے آباء کے ساتھ بغیر اپنی کسی سعی کے داخل ہوں گے، اور جس طرح کوئی انسان کسی شخص کا قرض اپنی طرف سے ادا کردیتا ہے تو وہ بری ہوجاتا ہے، اسی طرح جب کوئی شخص کسی کی طرف سے حج کرلے گا یا روزہ رکھ لے گا تو اس کا ذمہ بھی بری ہوجائے گا۔ ( مجموعۃ الفتاوی ٤٢ ص ٤٧١۔ ٠٧١، ملخصا و مخرجاً و موضحاً ، دارالجیل، ریاض ٨١٤١ ھ)

شیخ ابن تیمیہ کے تلاوت قرآن سے ایصالِ ثواب پر دلائل :

نیز شیخ ابن تیمیہ حنبلی متوفی ٨٢٧ ھ سے یہ سوال کیا گیا :

حسب ذیل مسائل میں ائمہ اور فقہاء کیا ارشاد فرماتے ہیں :

میت پر قرآن پڑھنے کا ثواب اس کو پہنچتا ہے یا نہیں ؟ تلاوتِ قرآن کی اجرت دینا جائز ہے یا نہیں ؟ مستحق کے لئے اہل میت کا طعام کھانا جائز ہے یا نہیں ؟ قبر پر قرآن مجید کی تلاوت کرنا جائز ہے یا نہیں ؟

شیخ ابن تیمیہ حنبلی نے اس کے جواب میں لکھا :

الحمد للہ رب العلمین ! مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کرنے کا میت کو نفع ہوتا ہے اور اس کے متعلق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے احادیث صحیحہ مروی ہیں، ان میں سے حضرت سعد بن عبادہ (رض) کی حدیث با حوالہ گزر چکی ہے جس میں آپ نے یہ فرمایا ہے کہ وہ اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کرلیں، اسی طرح میت کو اس کی طرف سے حج کرنے، اس کی طرف سے قربانی کرنے، غلام آزاد کرنے اور دعا اور استغفار سے بھی نفع ہوتا ہے۔

اور رہا میت کی طرف سے نفل نماز پڑھنا اور روزے رکھنا اور تلاوت قرآن کرنا تو اس میں علماء کے دو قول ہیں :

(١) امام احمد، امام ابوحنیفہ وغیرھما اور بعض اصحابِ شافعی وغیرہم کا مذہب یہ ہے کہ اس سے میت کو نفع پہنچتا ہے۔

(٢) امام مالک اور امام شافعی کا مشہور مذہب یہ ہے کہ اس سے میت کو نفع نہیں ہوتا۔

رہا تلاوت قرآن پر اجرت دینا اور اس کا ثواب پہنچانا، اس میں ایک قول یہ ہے کہ دنیاوی مال کے عوض جو تلاوت کی گئی ہے وہ قبول نہیں ہوگی نہ اس کا ثواب ہوگا، دوسرا قول یہ ہے کہ فقیر اور تنگ دست کا تلاوت قرآن پر اجرت لینا جائز ہے اور غنی اور خوش حال کا اجرت لینا جائز نہیں ہے اور یہ امام احمد کے مذہب کے موافق ہے، وہ کہتے ہیں کہ یتیم کا ولی جب فقیر ہو تو وہ یتیم کے مال سے کھا سکتا ہے اور غنی کو اجتناب کرنا چاہیے اور یہ قول دوسرے قول سے زیادہ قوی ہے، پس جب فقیر اجرت لے گا تو وہ اس سے عبادت کرنے پر مدد حاصل کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس کی نیت پر اس کو اجر دے گا۔ پس جب کوئی شخص اس مال کو مستحق پر خرچ کرے گا تو وہ صدقہ میت کو مل جائے گا اور جب وہ اس سے قرآن مجید کی تلاوت اور اس کی تعلیم پر اعانت کا قصد کرے گا تو یہ افضل اور احسن ہے، کیونکہ تعلیم قرآن پر اعانت کرنا اعمال میں سب سے افضل عمل ہے۔ (تلاوت قرآن پر اجرت لینے کے جواز میں، میں نے ” شرح صحیح مسلم “ ج ٧ ص ٩٦٠١۔ ٦٦٠١ میں مفصل بحث کی ہے اور کچھ یہاں بھی اس بحث کے اخیر میں ذکر کروں گا، ان شاء اللہ۔ سعیدی غفرلہ)

اور قبروں پر دائما تلاوت کرنا سَلَف میں معروف نہیں تھا، امام ابو حنیفہ، امام مالک اور امام احمد نے اکثر روایات میں اس کو مکروہ کہا ہے اور متاخر روایت میں اس کی اجازت دی ہے، جب ان کو یہ حدیث پہنچی کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے یہ وصیت کی تھی کہ ان کو دفن کرنے کے بعد ان کی قبر پر سورة بقرہ کی شروع اور آخر کی آیات تلاوت کی جائیں اور بعض انصار نے یہ وصیت کی تھی کہ ان کی تدفین کے بعد ان کی قبر پر سورة بقرہ تلاوت کی جائے۔ (النجم الکبیر رقم الحدیث ٣١٦٣١، المعجم الکبیرج ٩١ ص ٠٢٢ )

(مجموعۃ الفتاویٰ ج ٤٢ ص ٦٧١۔ ٥٧١، ملخصاً ، دارالجیل ریاض ٨١٤١ ھ)

نیز شیخ ابن تیمیہ حنبلی سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص ستر ہزار مرتبہ ” لا الہ الا اللہ “ پڑھے اور اس کا ثواب میت کو پہنچا دے تو اس سے میت کی دوزخ سے نجات ہوگی یا نہیں اور یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں ؟ اور جب انسان ” لا الہ الا اللہ “ پڑھ کر اس کا ثواب میت کو پہنچا دے تو میت کو اس کا ثواب پہنچے گا یا نہیں ؟ شیخ ابن تیمیہ متوفی ٨٢٧ ھ نے اس کے جواب میں کہا :

جب کوئی انسان ستر ہزار مرتبہ یا اس سے کم یا زیادہ مرتبہ ” لا الہ الا اللہ “ پڑھے گا اور میت کو اس کے ثواب کا ہدیہ کرے گا تو اس میت کو اس کا ثواب پہنچے گا اور یہ نہ کوئی حدیث صحیح ہے نہ ضعیف ہے۔ (مجموعۃ الفتاوی ج ٤٢ ص ٠٨١، دارالجیل، بیروت ٨١٤١ ھ)

شیخ محمد قاسم نانوتوی متوفی ٧٩٢١ ھ اس مسئلہ میں لکھتے ہیں :

حضرت جنید کے کسی مرید کا رنگ یکایک متغیر ہوگیا، آپ نے سبب پوچھا تو بروئے مکاشفہ اس نے کہا کہ اپنی ماں کو دوزخ میں دیکھتا ہوں، حضرت جنید نے ایک لاکھ یا پچتھر ہزار بار کبھی کلمہ پڑھا تھا، یوں سمجھ کر کہ بعض روایتوں میں اس قدر کلمہ کے ثواب پر وعدہ مغفرت ہے، اپنے جی ہی جی میں اس مرید کی ماں کو بخش دیا اور اس کی اطلاع نہ کی، مگر بخشتے ہی کیا دیکھتے ہیں کہ وہ جوان ہشاش بشاش ہے، آپ نے پھر سبب پوچھا، اس نے عرض کیا کہ اب اپنی والدہ کو جنت میں دیکھتا ہوں، سو آپ نے اس پر یہ فرمایا کہ اس جوان کے کشف کی صحت تو مجھ کو اس حدیث سے معلوم ہوئی اور اس حدیث کی تصحیح اس کے مکاشفہ سے ہوگئی۔ (تحذیر الناس ص ٤٤۔ ٥٤، مطبوعہ دارالاشاعت، کراچی)

مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن قنوجی متوفی ٧٠٣١ ھ میں لکھتے ہیں :

شیخ تقی الدین ابو العباس احمد بن تیمیہ نے اکیس دلائل سے اس استدلال کو باطل کیا ہے کہ انسان کو دوسرے کے عمل سے نفع نہیں ہوتا اور قرآن اور سنت کے اکیس دلائل سے یہ واضح کیا ہے کہ انسان کو دوسرے کے عمل سے فائدہ پہنچتا ہے (ہم نے ان اکیس دلائل کو ” شرح صحیح مسلم “ ج ٢ ص ٩٢٩۔ ٠٣٩ میں ذکر کیا ہے، وہاں ملاحظہ فرمائیں، سعیدی غفرلہ) ۔

(فتح البیان ج ٦ ص ٤٦٤۔ ٦٦٤، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ٠٢٤١ ھ)

علماء غیر مقلدین میں سے شیخ ابن قیم جو زیہ کی ایصال ثواب پر تصریحات

شیخ محمد بن ابی بکرابن قیم جو زیہ متوفی ١٥٧ ھ لکھتے ہیں :

ایک عورت نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ میری ماں فوت ہوگئی ہے اور اس کے ذمہ روزوں کی نذر ہے اور نذر پوری کرنے سے پہلے اس کا انتقال ہوگیا، آپ نے فرمایا : اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے۔ (سنن ابن ماجہ : ٨٧٥١ )

صحیح حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص فوت ہوگیا اور اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے۔

ایک جماعت نے کہا کہ یہ حدیث اپنے عموم اور اطلاق پر ہے اور ایک جماعت نے کہا : اس کی طرف سے نذر کے روزے رکھے جائیں، نہ فرض روزے اور ایک جماعت نے کہا : نذر کے روزے رکھے جائیں اور فرض روزے نہ رکھے جائیں۔ حضرت ابن عباس اور ان کے اصحاب اور امام احمد اور ان کے اصحاب کا یہی قول ہے اور یہی قول صحیح ہے، کیونکہ فرض روزے نماز کے قائم مقام ہیں اور جس طرح کوئی شخص کسی شخص کی طرف سے فرض نماز نہیں پڑھ سکتا، اسی طرح کوئی شخص کسی کی طرف سے فرض روزے بھی رکھ نہیں سکتا اور نذر میں کسی چیز کو اپنے ذمہ لازم کرنا ہے، پس وہ بہ منزلہ قرض ہے، پس ولی جب نذر کی قضا کرے گا تو وہ قضا قبول کی جائے گی، جس طرح اس کی طرف سے قرض کی ادائیگی قبول کی جاتی ہے اور صرف معذور شخص کی طرف سے حج کی ادائیگی قبول کی جائے گی اور کسی شخص کی دوسرے شخص کی طرف سے توبہ نفع نہیں دے گی، نہ کسی شخص کا دوسرے کی طرف سے اسلام لانا نفع دے گا، نہ کسی اور فرض کا کسی کی طرف سے ادا کرنا نفع دے گا، جس شخص نے ان فرائض کی ادائیگی میں تفریط کی حتی کہ وہ مرگیا۔ (اعلام الموقعدین ج ٤ ص ٣٢٣، دار الحدیث، مصر)

حیلہ اسقاط کا بیان : میں کہتا ہوں کہ جس شخص کے ذمہ فرض نمازیں ہوں یا فرض روزے ہوں اور وہ ان کی ادائیگی کے سے پہلے مرجائے تو اس کی طرف سے نہ نماز پڑھی جائے گی اور نہ روزہ رکھا جائے گا، کیونکہ حدیث میں ہے :

حضرت عبداللہ بن عمر سے سوال کیا جاتا کہ آیا کوئی شخص کسی شخص کی طرف سے روزے رکھے یا کوئی شخص کسی شخص کی طرف سے نماز پڑھے ؟ انہوں نے فرمایا : کوئی کسی کی طرف سے روزے رکھے نہ کوئی کسی کی طرف سے نماز پڑھے۔

(موطأ امام مالک رقم الحدیث : ٨٨٦، دارالمعرفتہ، بیروت ٠٢٤١ )

لیکن چونکہ بہ کثرت احادیث صحیحہ میں یہ وارد ہے کہ جس شخص کے ذمہ فرض روزے ہوں اور اس کا انتقال ہوجائے تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے، اس لئے فقہا احناف کے نزدیک روزوں اور نمازوں کا فدیہ دیا جائے اور ایک روزے اور ایک نماز کا فدیہ دو کلو گرام گندم یا اس کی قیمت ہے، اس کے روزوں اور نمازوں کا حساب کر کے اگر اس نے وصیت کی ہو تو اس کے تہائی مال سے فدیہ ادا کردیا جائے، ورنہ کوئی شخص یا کئی اشخاص مل کر اپنی طرف سے تبرع اور احساس کر کے اس کا فدیہ ادا کردیں، اگر فدیہ کی رقم بہت زیادہ ہو تو پھر حیلہ اسقاط کرلیا جائے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ اگر مثلاً کل فدیہ کی رقم دس ہزار روپے ہے اور ولی کے پاس صرف ایک ہزار روپے ہے تو وہ ایک ہزار روپے فقیر کو دے دے اور میت کے ذمہ سے اتنی نمازیں ساقط کر دے جن کا فدیہ ایک ہزار ہو، پھر فقیر وہ ایک ہزار روپے ولی کو ہبہ کر دے اور پھر وہ اس فقیر پر وہ ہزار روپے صدقہ کر دے اور میت کے ذمہ سے اتنی نمازیں ساقط کر دے اور یہ عمل دس بار دہرائیں تو میت کے ذمہ سے اتنی نمازیں ساقط ہوجائیں گی جن کا فدیہ دس ہزار روپے ہے یا دس آدمی بیٹھ جائیں، میت کا ولی ان میں سے ایک ایک کو ایک ہزار روپے صدقہ کرے اور وہ آدمی دوسرے شخص کو وہ ہزار روپے ہبہ کر دے اور وہ شخص اس رقم پر قبضہ کرے، تیسرے آدمی پر صدقہ کر دے، علیٰ ہذا القیاس، ان دس آدمی میں سے ہر شخص اس ہزار روپے پر قبضہ کر کے میت کی طرف سے دوسرے شخص پر صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ میت کی طرف سے اتنا فدیہ قبول فرمائے اور اس سے نمازیں ساقط کر دے، یہ ایک حیلہ ہے اور اللہ سے امید رکھے کہ وہ اس کو قبول فرمائے گا۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی نور الایضاح و مراقی الفلاح ج ٢ ص ٢٣۔ ٠٣، مکتبہ غوثیہ، کراچی)

ایصال ثواب کے متعلق علماء غیر مقلدین میں سے نواب صدیق حسن بھوپالی کی تصریحات

نواب صدیق حسن خاں بھوپالی متوفی ٧٠٣١ ھ لکھتے ہیں : زندہ انسان، نماز، روزہ، تلاوت قرآن، حج اور دیگر عبادات کا جو ثواب میت کو ہدیہ کرتا ہے وہ میت کو پہنچتا ہے اور زندہ انسان کا اپنے فوت شدہ بھائی کے لئے یہ عمل نیکی، احسان اور صلہ رحمی کے قبیل سے ہے اور تمام مخلوقات میں جس کو نیکی اور احسان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ میت ہے جو تحت الثریٰ میں رہین ہے اور اب نیک اعمال کرنے عاجز ہے، پھر اپنے فوت شدہ بھائی کے لئے عبادات کا ہدیہ پیش کرنا ایک نیکی ہے اور ہر نیکی کا دس گنا اجر ملتا ہے، سو جو شخص میت کے لئے ایک دن کے روزے یا قرآن مجید کے ایک پارے کی تلاوت کا ہدیہ پیش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو دس روزوں اور دس پاروں کا اجر عطا فرمائے گا اور اس سے یہ معلوم ہوا کہ اپنی عبادات کو دوسروں کے لئے ہدیہ پیش کرنا اس سے بہتر ہے کہ انسان ان عبادات کا اپنے لئے ذخیرہ کرے، یہی وجہ ہے کہ جس صحابی نے کہا تھا کہ میں اپنی دعا کا تمام وقت آپ پر صلوۃ پڑھنے میں صرف کروں گا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ تمہارے لئے کافی ہے، یہ وہ صحابی ہیں جو بعد کے تمام لوگوں سے افضل ہیں، پھر اس قول کا کیا جواز ہے کہ سلف صالحین نے فوت شدہ لوگوں کے لئے ایصال ثواب نہیں کیا ؟ کیونکہ اس قسم کے ایصال ثواب کے لئے لوگوں کی شہادت کی ضرورت نہیں ہے اور اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ سلف صالحین نے ایصال ثواب نہیں کیا تھا تو اس سے ایصال ثواب میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ یہ مستحب ہے، واجب نہیں ہے اور ہمارے لئے ایصال ثواب کے جواز کی دلیل موجود ہے، خواہ ہم سے پہلے کسی نے ایصال ثواب کیا ہو یا نہ۔

شیخ ابن قیم نے ایصال ثواب کے دلائل میں سے دعاء استغفار اور نماز جنازہ کو پیش کیا ہے اور ان تمام کاموں کو سلف صالحین نے کیا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا ہے کہ آپ کے لئے اذان کے بعد فضلیت اور وسیلۃ (بلنددرجہ) کی دعا کی جائے اور آپ پر صلوٰۃ پڑھی جائے اور ہم نے خواب میں دیکھا کہ انہوں نے اس پر ہمارا شکریہ ادا کیا اور ہمیں معلوم ہوگیا کہ ان تک ہمارا نفع پہنچا ہے۔ عبدالحق نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عمر نے یہ وصیت کی تھی کہ ان کی قبر پر سورة بقرہ پڑھی جائے، امام احمد پہلے ایصال ثواب کا انکار کرتے تھے، جب انہیں حضرت ابن عمر کے اس قول کا علم ہوا تو انہوں نے اس سے انکار سے رجوع کرلیا۔ امام ابن ابی شیبہ نے حجاج بن دینار سے مرفوعاً روایت کیا ہے : تم اپنی نمازوں کے ساتھ ماں باپ کی طرف سے نماز پڑھو اور اپنے روزوں کے ساتھ ان کی طرف سے روزے رکھو اور اپنے صدقہ کے ساتھ ان کی طرف سے صدقہ کرو، حدیث میں ہے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنے مردوں پر یٰسین پڑھو۔ اس کا ایک احتمال یہ ہے کہ انسان کی موت کے وقت پڑھو اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس کی قبر پر پڑھو۔ علامہ سیوطی نے کہا : جمہور نے پہلی صورت کو اختیار کیا ہے اور شیخ ابن قیم نے کئی دلائل سے دوسری صورت کو ترجیح دی ہے۔ عبدالواحد مقدسی نے کہا : یہ احادیث مرفوعہ اور صالحین کی خواب میں بشارتیں ایصال ثواب کے جواز پر اور میت کو اس سے نفع پہنچنے پر دلالت کرتی ہیں، شیخ نے کہا : ہرچند کہ صرف صالحین کی بشارات دلیل نہیں بن سکتیں، لیکن بہ کثرت بشارات اس کے ثبوت پر دلالت کرتی ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا : تمہارے خوابوں سے اس کی موافقت ہوتی ہے کہ لیلۃ القدر آخری عشرہ میں ہے۔

(السراج الوہاج ج ٢ ص ٥٥، مطبع صدیقی بھوپالی، ٠٢٣١ ھ)

ایصال ثواب کے متعلق علماء غیر مقلدین میں سے نواب وحید الزمان حیدرآبادی کی تصریحات

نواب وحید الزمان حیدرآبادی متوفی ٨٣٣١ ھ لکھتے ہیں :

اہل سنت کے درمیان اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مردوں کو زندوں کی سعی سے فائدہ پہنچتا ہے، اس کی ایک صورت یہ ہے کہ جس ثواب کا سبب مردے نے اپنی زندگی میں مہیا کردیا تھا (مثلاً اس کی صالح اولاد اور اس کے وہ احباب جن سے اس نے نیک سلوک کیا) اور دوسری صورت یہ ہے کہ مسلمان اس کے لئے دعا کریں اور استغفار کریں اور اس کی طرف سے صدقہ کریں اور حج کریں اور ہمارے اصحاب کا عباداتِ بدنیہ کے ایصال ثواب میں اختلاف ہے، مثلاً تلاوت قرآن کا اور عبادات مالیہ کا ثواب بھی پہنچتا ہے مثلاً صدقہ کر کے اس کا ثواب میت کو ہدیہ کیا جائے تو اس کو یہ ثواب پہنچتا ہے، اور امام احمد نے اس کی تصریح کی ہے اور کہا ہے کہ میت کی طرف ہر عبادت کا ثواب پہنچتا ہے خواہ وہ عبادت صدقہ ہو، نماز ہو، حج ہو، اعتکاف ہو یا تلاوت قرآن یا ذکر ہو یا کوئی اور عبادت ہو اور (النجم : ٩٣) ایمان پر محمول ہے یعنی کسی انسان کو دوسرے انسان کا ایمان لانا نفع نہیں پہنچا سکتا، اگر وہ انسان خود ایمان نہ لایا ہو، یا اس آیت میں انسان سے مراد ابو جہل یا عقبہ یا ولید بن مغیرہ ہے یا یہ آیت دوسری آیت سے منسوخ ہے اور وہ یہ ہے :”(الطّور : ١٣) اور اللہ تعالیٰ دعائوں کو قبول کرنے والا ہے اور حاجات کو پورا کرنے والا ہے اور ہمارے شیخ ابن القیم نے کہا کہ قرآن کی تلاوت بغیر اجرت کے کر کے اسے میت کو ہدیہ کرنے سے اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے اور یہ چیز ہرچند کہ مقتدمین اور سلف صالحین میں معروف نہیں تھی لیکن دلیل کے تقاضے سے یہ جائز ہے کیونکہ جب حج، روزہ، دعا، استغفار اور صدقہ کا ثواب احادیث صحیحہ کی بناء پر میت کو پہنچتا ہے تو قرآن مجید کی تلاوت کے ثواب کے پہنچنے سے کیا چیز مانع ہے ؟ ہاں ! جب انسان نے اپنے لئے کوئی عمل کیا پھر بعد میں اس نے ارادہ کیا کہ وہ اس کا ثواب دوسرے کو پہنچا دے تو یہ جائز نہیں ہے اور اس میں بھی ان کے دو قول ہیں۔ ہماری اس تحقیق سے ظاہر ہوگیا کہ بعض علماء (اسماعیل دہلوی) کا یہ کہنا باطل ہے کہ عبادات بدنیہ کا ایصال ثواب بدعت ہے، ہاں ! تلاوت قرآن کے لئے جمع ہونا اور اس کے لئے دن معین کرنا بیشک بدعت ہے۔

(ہدیۃ المہدی ص ٨٠١۔ ٧٠١، مطبع صدیقی بھوپالی، ١٠٣١ ھ)

ایصال ثواب کے لئے انعقاد محفل اور عرفی تعیین یوم پر دلائل

میں کہتا ہوں کہ اگر اس سے مراد بدعت حسنہ ہے تو یہ کلام صحیح ہے اور اگر اس سے مراد بدعت سیہ ہے تو یہ کلام باطل ہے کیونکہ جو کام انفرادی طور پر کرنا سنت سے ثابت اور مستحب ہے، وہ اجتماعی طور پر کرنا بدعت سیہ کس دلیل سے ہوگا ؟ یہ از خود شریعت بنانا ہے، کیا تم نہیں دیکھتے کہ عہد رسالت میں اور عہد ابوبکر میں اور حضرت عمر کی خلافت کے اوائل میں قیام رمضان (تراویح) انفرادی طور پر پڑھی جاتی تھی ؟ پھر حضرت عمر (رض) نے جماعت کے ساتھ تروایح شروع کرائی اور اب تک اس پر عمل ہو رہا ہے حتیٰ کہ غیر مقلدین کے ہاں بھی باجماعت تروایح پڑھی جاتی ہے اور نواب وحید الزمان نے تعیین یوم کو جو بدعت کہا ہے، اگر اس سے مراد تعیین شرعی ہے جیسے یکم شوال عیدالفطر کے لئے معین ہے اور نو ذوالحجہ حج کے لئے معین ہے اور دس ذوالحجہ عیدالاضحیٰ کے لئے معین ہے اور یہ تعیین صرف شارع (علیہ السلام) کی طرف سے ہوتی ہے، کوئی اس کو از خود معین نہیں کرسکتا تو پھر یہ کلام درست ہے، اور اگر اس سے مراد تعیین عرفی ہے تو پھر نواب صاحب کا یہ کلام باطل ہے کیونکہ تعیین عرفی عہد رسالت سے لے کر آج تک ہو رہی ہے، حدیث میں ہے :

حضرت ابو سعید حذری (رض) بیان کرتے ہیں کہ خواتین نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : آپ کے معاملہ میں مرد ہم پر غالب آگئے، آپ اپنی طرف سے ہمیں تعلیم دینے کے لئے ایک دن معین کردیں، آپ نے ان سے ملاقات کے لئے ایک دن معین کیا اور اس دن میں ان کو وعظ کیا اور احکام بیان کئے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٠١، صحیح مسلم رقم الحدیث ٣٣٦٢ )

امام بخاری نے یہ عنوان کیا ہے :

” جس شخص نے تعلیم دینے کے لئے ایام مخصوصہ معین کردیئے۔ “

اور اس باب کے تحت یہ حدیث ذکر کی ہے :

ابو وائل بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ہر جمعرات کے دن لوگوں کو نصیحت کرتے تھے، ایک شخص نے آپ سے کہا : اے ابو عبد الرحمان ! میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں ہر روز نصیحت کریں، حضرت ابن مسعود نے فرمایا : ہر روز نصیحت اور وعظ کرنے سے مجھے صرف یہ چیز مانع ہے کہ میں تم کو اکتاہٹ میں ڈالنا پسند کرتا ہوں، اور اس میں وعظ کرنے میں تمہارا اس طرح لحاظ کرتا ہوں جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وعظ کرنے میں ہمارا لحاظ فرماتے تھے، اس خوف سے کہ ہم اکتا نہ جائیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٠٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٢٨٢، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٥٥٨٢)

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٢٥٨ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

حضرت ابن مسعود نے اپنے اس عمل میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتداء کی ہے، جس طرح آپ صحابہ کو ہر روز وعظ نہیں کرتے تھے، بلکہ کسی ایک دن وعظ کیا کرتے تھے تاکہ صحابہ روز روز وعظ سننے سے اکتا نہ جائیں، اسی طرح حضرت ابن مسعود نے بھی اپنے وعظ کے لئے ایک معین کرلیا تھا۔ (فتح الباری ج ١ ص ٠٢٢، دارالفکر، بیروت ٠٢٤١ ھ)

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے جو وعظ اور تعلیم کے لئے جمعرات کا دن معین فرمایا تھا وہ شرعی تعیین نہیں تھی کہ جمعرات سے پہلے یا بعد کسی دن وعظ اور تعلیم جائز نہ ہو جیسے عیدالاضحیٰ کے لئے دس ذوالحجہ معین ہے، نہ اس سے پہلے عید ہوسکتی ہے نہ اس کے بعد، بلکہ انہوں نے لوگوں کی سہولت کے لئے ایک دن معین کردیا تھا کہ سب لوگ اس دن وعظ سننے اور حصول تعلیم کے لئے جمع ہوجائیں، جیسے لوگ دینی اور تبلیغی اجتماع کے لئے ایک تاریخ مقرر کر کے اشتہار چھاپ دیتے ہیں یا دینی مدارست میں داخلہ کے لئے اور امتحانات کے لئے اور تقسیم اسناد اور دستار بندی کے لئے ایک تاریخ معین کردیتے ہیں، اگرچہ اس سے پہلے اور بعد کی تاریخوں میں بھی یہ امور جائز ہوتے ہیں اور جیسے دینی مدارس میں ختم بخاری کے لئے پیشگی ایک تاریخ معین کردی جاتی ہے اور جب ختم بخاری کے لئے ایک تاریخ معین کرنا جائز ہے تو ختم قرآن کے لئے تدفین کے دوسرے روز ( جس کو عرف میں سوئم کہتے ہیں) یا چالیسویں روز کی تاریخ معین کرنا کیوں جائز نہیں، جب کہ ان تاریخوں سے پہلے یا بعد میں سوئم اور چالیسویں کی تقریبات منعقد کرنا جائز ہے اور اس سے پہلے اور بعد یہ تقریبات ہوتی بھی ہیں، خود میں نے اپنی والدہ مرحومہ کا سوئم چوتھے روز کیا اور چہلم چالیس دن سے پہلے کیا، سو ان تاریخوں میں ان تقریبات کا کرنا ضروری نہیں ہے، صرف سہولت سے لوگوں کے اجتماع کے لئے عرفاً ایک تاریخ مقرر کردی جاتی ہے۔

تعیین عرفی کے ثبوت میں ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز فجر کے وقت حضرت بلال (رض) سے فرمایا : اے بلال ! مجھے یہ بتائو کہ اسلام میں تمہارا کون سا ایسا عمل ہے جس کے مقبول ہونے کی تمہیں زیادہ توقع ہے ؟ کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے جوتیوں سے چلنے کی آواز سنی، حضرت بلال نے کہا : میں نے اسلام لانے کے بعد کوئی ایسا عمل نہیں کیا جس کے مقبول ہونے کی مجھے زیادہ توقع ہو، ما سوائے اس کے کہ میں رات اور دن کے جس وقت میں بھی وضو کرتا ہوں تو اس وضو کے ساتھ اتنی نماز پڑھتا ہوں جو میرے لئے مقدر کی گئی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث ٩٤١١، صحیح مسلم رقم الحدیث ٨٥٤٢ )

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٢٥٨ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

اس حدیث سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ (نفلی) عبادت کو ادا کرنے کے لئے اپنے اجتہاد سے وقت مقرر کرنا جائز ہے کیونکہ حضرت بلال نے اپنے اجتہاد سے وضو کرنے کے بعد نماز پڑھنے کو مقرر کیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے اس عمل کو برقرار رکھا۔ علامہ ابن جوزی نے کہا کہ اس حدیث میں وضو کرنے کے بعد نماز پڑھنے کی ترغیب ہے تاکہ وضو کرنا اپنے مقصود سے خالی نہ رہے۔ (فتح الباری ج ٣ ص ٥٤٣، دارالفکر، بیروت، ٠٢٤١ ھ)

اور آج تک امت مسلمہ حضرت بلال (رض) کی اس سنت کے مطابق وضو کے بعد دو رکعت نماز سنت الوضو پڑھ رہی ہے اور جب اپنے اجتہاد سے نفلی عبادت کے لئے وقت مقرر کرنا جائز ہے تو اسی اصول پر ایصال ثواب کے لئے سوئم اور چہلم، غوثِ اعظم کے ایصال ثواب کے لئے گیارھویں اور میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بارھویں تاریخ کو مقرر کرنا جائز ہے اور ان تاریخ میں ان تقریبات کو منعقد کرنا ضروری نہیں ہے، ان تاریخوں سے پہلے اور بعد میں بھی یہ تقریبات منعقد ہوسکتیں تھیں اور ہوتی بھی ہیں، لیکن لوگوں کو جمع کرنے کے لئے کسی نہ کسی تاریخ کو معین تو کرنا ہوگا، عہد صحابہ اور عہد تابعین میں ایصال ثواب کی تقریبات منعقد نہیں ہوتی تھیں، تو نہ ہوتی ہوں لیکن جب دلائل سے ان تقریبات کا معین دن میں منعقد کرنا جائز ہے تو پھر کوئی حرج نہیں ہے، عہد صحابہ اور تابعین میں دینی مدارس میں سالانہ تبلیغی جلسے بھی نہیں ہوتے تھے، ختم بخاری کی تقریبات بھی نہیں ہوتی تھیں، تاریخ معین کر کے منگنی، نکاح اور ولیمہ کی تقریبات بھی نہیں ہوتی تھیں اور یہ سب دینی کام ہیں اور ان کو کار ثواب سمجھ کر معین تاریخوں میں کیا جاتا ہے تو پھر صرف رشتہ داروں اور بزرگوں کے لئے ایصال ثواب کی تاریخوں کو کیوں ہدف اعتراض بنایا جاتا ہے ؟

ایصالِ ثواب کے متعلق علماء دیو بند کا نظریہ

شیخ انور شاہ کشمیری متوفی ٢٥٣١ ھ لکھتے ہیں : میت کی طرف سے قرضوں کو ادا کرنا، صدقات کرنا اور دیگر تمام عبادات معتبر ہیں : (فیض الباری ج ٣ ص ٣١٤)

شیخ شبیر احمد عثمانی متوفی ٩٦٣١ ھ نے متعدد کتب حدیث کے حوالوں سے ایصالِ ثواب کے ثبوت میں احادیث بیان کیں اور اس کے بعد لکھا : ان احادیث اور آثار کے علاوہ بہ کثرت احادیث اور آثار ہیں جو حد تواتر تک پہنچتے ہیں اور ان سے ایصال ثواب ثابت ہے : خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص اپنی عبادت کا ثواب دوسروں کو پہنچاتا ہے اس سے دوسروں کو نفع ہوتا ہے اور یہ چیز تواتر سے ثابت ہے۔ (فتح المہلہم ج ٣ ص ٩٣، مکتبہ الحجاز، کراچی)

علماء دیو بند کا اب بھی یہ معمول ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کو ایصالِ ثواب کرنے کے لئے برسی اور سوئم کی محفلیں منعقد کرتے ہیں : اس سلسلے میں روزنامہ جنگ، کراچی اور روزنامہ ایکسپریس، کراچی کی سرخیاں ملاحظہ فرمائیں :

ملتان : اعظم طارق کی برسی کے اجتماع میں دھماکہ، ١٤ جاں بحق

(روزنامہ جنگ، کراچی، جمعہ ٢٢ شعبان المعظم ٥٢٤١ ھ/٨ اکتوبر ٤٠٠٢ ئ)

مفتی جمیل اور مولانا نذیر کے لئے ایصال ثواب کا اعلان

مفتی جمیل اور مولانا نذیر کے ایصالِ ثواب کے لئے قرآن خوانی آج ہو گی

کراچی (اسٹاف رپورٹر) جامعہ علوم اسلامیہ، علامہ بنوری ٹائون کے ناظم امور قاری محمد اقبال کے مطابق ممتاز علمائے کرام مفتی محمد جمیل اور مولانا نذیر احمد تونسوی کے ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی پیر کو جامعہ علوم اسلامیہ، بنوری ٹائون میں صبح گیارہ بجے ہوگی۔ (روزنامہ جنگ، کراچی ص ٦١ پیر ٥٢ شعبان المعظم ٥٢٤١ ھ/٨ اکتوبر ٤٠٠٢ ئ)

بنوری ٹائون میں مفتی جمیل اور نذیر تونسوی کے ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی

قرآن خوانی صبح گیارہ بجے شروع ہوئی، شہداء کے لئے بلندی درجات کی دعا کی گئی

کراچی (وقائع نگار) عالمی تحفظ ختم نبوت کے مرکزی رہنمائوں مفتی محمد جمیل خان اور مولانا نذیر احمد تونسوی کے ایصال ثواب کے لئے بنوری ٹائوں میں صبح گیارہ بجے قرآن خوانی ہوئی اس موقع پر مولانا عزیز الرحمن جالندھری، ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر نے سات ہزار سے زائد شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مفتی محمد جمیل خان نے ملک بھر میں دینی مدارس کا جال بچھا کر اسلام کی ترویج و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ (روزنامہ دن، کراچی، ص ٨، ٢١ اکتوبر ٤٠٠٢)

مفتی جمیل اور نذیر تونسوی کے ایصال ثواب کے لئے بنوری ٹائون میں قرآن خوانی

اجتماع میں ٧ ہزار سے زائد افراد کی شرکت، شہدا کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی : مقررین

کراچی (اسٹاف رپورٹر) عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی رہنمائوں مفتی محمد جمیل خان اور مولانا نذیر احمد تونسوی کے ایصال ثواب کے لئے بنوری ٹائون میں صبح گیارہ بجے قرآن خوانی ہوئی اس موقع پر مولانا عزیز الرحمن جالندھری اور ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر نے سات ہزار سے زائد شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مفتی محمد جمیل خان اور مولانا نذیر احمد تونسوی کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔ (روزنامہ امت، کراچی، ص ١، ٦٢ شعبان ٥٢٤١ ھ/٢ اکتوبر ٤٠٠٢ ئ)

ایصال ثواب کے متعلق اعلیٰ حضرت کا نظریہ

فاتحہ دلاتے وقت کھانا سامنے رکھنے کے بارے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا متوفی ٠٤٣١ ھ میں فرماتے ہیں :

اور وقت فاتحہ کھانے کے قاری کے پیش نظر ہونا اگرچہ بیکار بات ہے، مگر اس کے سبب سے وصولی ثواب یا جواز فاتحہ میں کچھ خلل نہیں، جو اسے ناجائز وناروا کہے، ثبوت اس کا دلیل شرعی سے دے، ورنہ اپنی طرف سے بحکم خدا و رسول کسی چیز کو ناجائز و ناروا کہہ دینا خدا و رسول پر افتراء کرنا ہے، ہاں ! اگر کسی شخص کا یہ اعتقاد ہے کہ جب تک کھانا سامنے نہ کیا جائے گا، ثواب نہ پہنچے گا تو یہ گمان اس کا محض غلط ہے لیکن فنس فاتحہ میں اس اعتقاد سے بھی کچھ حرف نہیں آتا۔

(فتاویٰ رضویہ ج ٤ ص ٥٩١، سنی دارالاشاعت، ٤٩٣١ ھ )

ایصال ثواب کی تفصیل اور غنی کے کھانے کی تحقیق بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں :

طعام تین قسم کا ہے ایک وہ کہ عوام ایام موت میں بطور دعوت کرتے ہیں یہ ناجائز و ممنوع ہے : ” اغنیاء کو اس کا کھانا جائز نہیں، دوسرے وہ طعام کو اپنے اموات کو ایصال ثواب کے لئے بہ نیت تصدیق کیا جاتا ہے، فقراء اس کے لئے احق ہیں، اغنیاء کو نہ چاہیے، تیسرے وہ طعام کو نذر ارواحِ طیبہ (اس نذر سے مراد ایصال ثواب کی نذر ہے، یہ نذر عرفی ہے، شرعی اور فہقی نذر مراد نہیں ہے کیونکہ وہ نذر عبادت ہے اور غیر اللہ کے لئے حرام ہے، اس نذر عرفی کی مزید وضاحت عنقریب اعلیٰ حضرت کی دیگر عبادات سے پیش کی جائے گی، انشاء اللہ، سعید غفرلہ) حضرات انبیاء و اولیاء علیہم الصلوۃ و الثناء کیا جاتا ہے اور فقراء و اغنیاء سب کو بطور تبرک دیا جاتا ہے، یہ سب کو بلا تکلف روا ہے اور وہ ضرور باعث برکت ہے۔

(فتاویٰ رضویہ ج ٤ ص ٤١٢، سنی دارالاشاعت فیصل آباد)

گیارہویں شریف کے بارے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا لکھتے ہیں :

گیارہویں شریف جائز ہے اور باعث برکات اور وسیلہ مجریہ قضاء حاجات ہے اور خاص گیارہویں کی تخصیص عرفی اور مصلحت پر مبنی ہے جبکہ اسے شرعاً واجب نہ جانے۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٤ ص ٤١٢)

بزرگان دین کی نذر نیاز اور تیجہ و چالیسواں اور عرس کے متعلق لکھتے ہیں :

ایصال ثواب میں نذر اللہ نہ کہنا چاہیے، اللہ عزوجل اس سے پاک ہے کہ ثواب اسے نذر کیا جائے، ہاں ! نذر رسول کہنا صحیح ہے، معظمین کی سرکار میں جو ہدیہ نذر کیا جاتا ہے اور اسے عرف میں نذر کہتے ہیں، جیسے بادشاہوں کو نذر دی جاتی ہے، اولیاء کی نذر کے بہت ثبوت ہمارے ” فتاویٰ افریقہ “ میں ہیں، اور تازہ ثبوت یہ ہے کہ شاہ ولی اللہ ” انسان العین فی مشائخ الحرمین “ میں حال سید عبدالرحمن ادریسی قدس سرہ میں فرماتے ہیں : (اسلامی ممالک کے اطراف سے سید عبدالرحمن کو نذریں پیش کرنے کے لئے لائی جاتی ہیں) ۔

تیجہ، دسوا، چہلم وغیرہ جائز ہیں جب کہ اللہ کے لئے کریں اور مساکین کو دیں، اپنے عزیزوں کا ارواح کو علم ہوتا ہے اور ان کا آنا نہ آنا کچھ ضرور نہیں، فاتحہ کا کھانا بہتر یہ ہے کہ مساکین کو دے اور اگر خود محتاج ہے تو آپ کھالے، اپنے بی بی بچوں کو کھلائے، سب اجر ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایصال ثواب کے لئے حکم بھی دیا اور صحابہ نے ایصال ثواب کیا اور آج تک کے مسلمانوں کا اس پر اجماع رہا، تخصیصات عرفیہ جبکہ لازم شرعی نہ سمجھی جائیں خدا نے مباح کی ہیں۔

اور عرس کی منہیات شرعیہ سے خالی ہو اور شیرینی پر ایصال ثواب یہ سب جائز ہیں، نزد قبر رکھنے کی ضرورت نہیں نہ اس میں جرم جبکہ لازم نہ جانے۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٤ ص ٨١٢۔ ٧٢١، فیصل آباد )

تیجہ اور چالیسویں کو معین کرنے کے بارے میں اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں :

اموات مسلمین کو ایصال ثواب قطعاً مستحب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں : تم میں سے جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو نفع پہنچا سکتا ہے تو نفع پہنچائے۔ اور یہ تعینات عرفیہ ہیں، ان میں اصلاً حرج نہیں، جبکہ انہیں شرعاً لازم نہ جانے، نہ یہ سمجھے کہ انہیں دنوں ثواب پہنچے گا، آگے پیچھے نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٤ ص ٩١٢، فیصل آباد )

نیز اعلیٰ حضرت امام احمد رضا لکھتے ہیں : تیجے و چالیسویں وغیرہ کا تعین عرفی ہے جس سے ثواب میں خلل نہیں آتا، ہاں ! قرآن خوانی پر اجرت لینی دینی منع ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ حافظ کو مثلاً چالیس دن کے لئے نوکر رکھ لیں کہ جو چاہیں گے کام لیں گے اور یہ تنخواہ دیں گے پھر اس سے قبر پر پڑھنے کا کام لیا جائے گا۔ اب یہ اجرت بلا شبہ جائز ہے کہ اس کے مقابل ہے نہ کہ تلاوت قرآن کے (فتاویٰ رضویہ ج ٤ ص ٢٢٢ )

قرآن خوانی کی اجرت لینے کی توجیہات

مصنف کہتا ہے کہ یہ بھی جائز ہے کہ نفس قرآن مجید پڑھنے کا معاوضہ نہ طے کیا جائے بلکہ خاص قیود کے بدلے معاوضہ لیا جائے، مثلاً فلاں جگہ، فلاں وقت، فلاں شخص کے لئے ایصال ثواب کیا جائے، ان قیودات کا معاوضہ لے، دوسری صورت یہ ہے کہ قرآن پڑھنے والا نفس قرآت کی اجرت نہ لے کر بلکہ اس کو پڑھنے سے جو تھکاوٹ ہوتی ہے اس کے ازالہ کے لئے معاوضہ لے، تیسری صورت یہ ہے کہ وہ قرأت کا معاوضہ تو نہیں لیتا لیکن اس وقت وہ اگر کوئی کار معاش کرتا تو اس کو جو اجرت ملتی وہ لیتا ہے، اسی تاویل سے صحابہ نے حضرت ابوبکر اور دیگر خلفائے راشدین کو کار خلافت اور امامت کی اجرت دی اور اسی تاویل سے نماز کی امامت کی اجر دی جاتی ہے۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ قاری للہ فی اللہ قرآن مجید میں پڑھے اور پڑھوانے والا للہ فی اللہ بلا تعیین کچھ خدمت کر دے اور آج کل اسی کا رواج ہے، پانچویں وجہ یہ ہے کہ علامہ آلوسی اور دیگر علماء نے اس حدیث کے پیش نظر قرآن مجید کی تلاوت کی اجرت لینے کو جائز کہا ہے :”“ جن چیزوں پر اجرت لی جاتی ہے ان میں اجرت کی سب سے زیادہ مستحق کتاب اللہ ہے۔ (صحیح البخاری :2276، صحیح مسلم 2201)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا تیجہ اور چالیسویں کے کھانے کے بارے میں لکھتے ہیں :

سوم، دہم و چہلم کا کھانا مساکین کو دیا جائے، برادری کو تقسیم یا برادری کو جمع کر کے کھلانا بےمعنی بات ہے۔

(فتاویٰ رضویہ، ج 4 ص 223)

نیز سوئم کے کھانے اور کلمہ پڑھے ہوئے چنوں کے بارے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا لکھتے ہیں :

یہ چیزیں غنی نہ لے فقیر لے اور وہ جوان کا منتظر رہتا ہے، ان کے نہ ملنے سے ناخوش ہوتا ہے اور اس کا قلب سیاہ ہوتا ہے، مشرک یا چمار (مردار خور) کو اس کا دینا گناہ، فقیر لے کر خود کھائے اور غنی لے ہی نہیں اور لے لئے ہوں تو مسلمان فقیر کو دے دے، یہ حکم عام فاتحہ کا ہے، نیاز اولیا کرام طعام موت نہیں وہ تبرک ہے، فقیر و غنی سب لیں، جبکہ مانی ہوئی نذر بطور نذر شرعی نہ ہو، شرعی پھر غیر فقیر کو جائز نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ ج 4 ص 225، فیصل آباد)

حضرت خاتونِ جنت کی نیاز کے بارے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا لکھتے ہیں :

اور حضرت خاتونٍ جنت کی نیاز کا کھانا پردے میں رکھنا اور مردوں کو نہ کھانے دینا، یہ عورتوں کی جہالتیں ہیں، انہیں اس سے باز رکھا جائے۔ (فتاویٰ رضویہ ج 4 ص 225)

کسی نے کہا : کوئی ایسی حدیث لکھ دیجئے جس سے ثابت ہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی طرح فاتحہ دلائی تھی (اسی طرح سوئم، چہلم اور عرس کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے) اس کے بارے میں اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں :

فاتحہ دلانہ شریعت میں جائز ہے اور جس طرح مدارس اور خانقاہ ہیں اور مسافر خانے بنائے جاتے ہیں اور سب مسلمان ان کو فعل ثواب سمجھتے ہیں کیا کوئی ثبوت دے سکتا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح بنائے یا بنوائے تھے ؟ یا کوئی ثبوت دے سکتا ہے کہ فاتحہ جس طرح اب دی جاتی ہے جس میں قرآن مجید اور کھانے دونوں کا ثواب میت کو پہنچاتے ہیں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا اور جب ممانعت کا ثبوت نہیں دے سکتا اور بیشک ہرگز نہیں دے سکتا تو جس چیز سے اللہ اور رسول نے منع نہ فرمایا دوسرا کہ منع کرے گا اپنے دل سے شریعت گھڑے گا :”“ (الخل :116-117) (فتاوی رضویہ ج 4 ص 226، سنی دارالاشاعت، فیصل آباد، 1394 ھ)

ایصالِ ثواب کے ثبوت پر برطانیہ سے موصول ہونے والے اعتراضات کے جواب :

میں نے ” شرح صحیح مسلم “ ج 4 ص 499-510 میں ایصال ثواب کی بحث لکھی تھی، لیکن چونکہ یہ بحث اب تک ” تبیان القرآن “ میں نہیں آیا تھا، اس لئے میں نے یہاں پر یہ مبحث از سر نو زیادہ تفصیل اور تحقیق سے لکھا اور ” شرح صحیح مسلم “ کے بعض آخری اقتباسات کو بھی اس مبحث کی تکمیل اور تتمیم کے لئے دوبارہ ذکر کیا، اس مبحث پر منکرین ایصال ثواب کی طرف سے جو اعتراضات کئے گئے ہیں وہ محترمہ ام الحسر شمیم اختر نے شیفیلڈ برطانیہ سے مجھے بھجوائے تاکہ ” تبیان القرآن “ میں، میں ان کا جواب لکھ دوں۔ ہرچند کہ ان میں سے اکثر اعتراضات کے جوابات خود ” شرح صحیح مسلم “ میں آ چکے تھے لیکن میں نے مناسب جانا کہ میں ان تمام اعتراضات کے جوابات لکھ دوں تاکہ ایصال ثواب کی یہ بحث مکمل طریقہ سے بےغبار ہوجائے، میں ان اعتراضات کو نمبر وار نقل کر کے ان کے جوابات لکھ رہا ہوں، فاقول وباللہ التوفیق و بہ الاستعاثہ یلیق، علیہ توکلت و الیہ انیب۔

اس کا جواب کہ دوسرے کے عمل کے کام آنے کا ثبوت کہا ہے ؟

اعتراض : ایک کا عمل دوسرے کے کام آسکتا ہے اس کا ثبوت کہاں ہے ؟

الجواب : الطّور :21 میں یہ مذکور ہے کہ آباء کے ایمان کی وجہ سے ان کی نابالغ اولاد کو ان کے ساتھ جنت میں داخل کردیا جائے گا اس کی تفصیل اسی جلد میں الطّور 21 کی تفسیر میں بھی ہے اور النجم 39 کی تفسیر میں بھی ہے اور ” شرح صحیح مسلم “ میں بھی قرآن مجید کی آیات، احادیث اور فقہاء اسلام کی عبارات سے واضح کیا گیا ہے کہ ایک مسلمان کا عمل دوسرے مسلمان کے کام آتا ہے اور ”“ (النجم :39) کے وافی اور شافی جوابات دیئے گئے ہیں، دیکھیئے ! شرح صحیح مسلم “ ج 2 ص 932، 928

اس کا جواب کہ زندہ کے لئے ایصالِ ثواب کیوں نہیں کیا جاتا ؟

اعتراض 2: زندہ شخص کے لئے دعا کرنا جائز ہے تو زندہ شخص کے لئے ایصال ثواب کیوں نہیں کیا جاتا ؟ زندہ شخص کے لئے ایصال ثواب کی ممانعت کہاں ہے ؟

الجواب : زندہ شخص کے لئے ایصال ثواب کی ممانعت نہیں ہے اور زندہ شخص کے لئے بھی دوسرا شخص عبادات انجام دیتا ہے، حج بدل کی احادیث اور اس مسئلہ میں فقہاء کی عبارات اس پر واضح دلیل ہیں، علامہ علی بن ابی بکر مرغینانی صاحب ہدایہ، چنفی نے لکھا ہے کہ حج بدل میں شرط یہ ہے کہ جس پر حج فرض ہو وہ معذور ہو اور موت تک دائمی عجز رہے اور حج نفل میں نیابت مطلقاً جائز ہے کہ حج بدل میں شرط یہ ہے کہ جس پر حج فرض ہو وہ معذور ہو اور موت تک دائمی عجز رہے اور حج نفل میں نیابت مطلقاً جائز ہے اور حالت قدرت میں بھی دوسرے کی طرف سے حج کرنا جائز ہے کیونکہ نفل کے باب میں وسعت ہے، مکمل عبارت اسی جلد میں مذکور ہے، اسی طرح علامہ ابن قدامہ حنبلی نے بھی لکھا ہے، اس کی مکمل عبارت بھی اسی جلد کے اسی مبحث میں ہے، خود راقم الحروف نے اپنی والدہ کی حیات میں ان کی طرف سے عمرہ ادا کیا اور راقم الحروف کے دوست محترم طیب بھائی نے راقم الحروف کی طرف سے عمرہ کیا۔ نیز صالح بن درہم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایام حج میں ہم سے ایک شخص نے کہا : کیا تمہارے پہلو میں ابلۃ نام کی بستی ہے ؟ ہم نے کہا : ہاں ! اس شخص نے کہا : تم میں سے کون شخص اس بات کا ضامن ہے کہ مسجد عشاء میں میرے لئے دو یا چار رکعت نماز پڑھے اور کہے : یہ نماز ابوہریرہ کے لئے ہے، کیونکہ میں نے اپنے خلیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ اللہ قیامت کے دن مسجد عشاء سے ایسے شہداء کو اٹھائے گا، جن کے ہم پلہ شہداء بدر کے سوا اور کوئی نہیں ہوگا (سنن ابو دائود رقم الحدیث :4308) اس حدیث میں زندہ کے لئے ایصال ثواب کی واضح دلیل ہے۔

اس کا جواب کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایصال ثواب کا کہاں ثبوت ہے ؟

اعتراض 3: وفات یافتہ افراد کے لئے عہدِ رسالت یا عہد خلفاء راشدین میں ایصال ثواب کی کوئی محفل منعقد ہوئی یا اجتماعی دعا کی گئی، جنگ یمامہ جیسے واقعات پیش آئے، کیا کسی نے اپنا عمل دوسرے کو دیا ؟ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا صحابہ میں سے کسی نے ایصال ثواب کیا ؟ ثبوت کیا ہے ؟۔

الجواب : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل سے زیادہ قوی آپ کا قول ہے، حتیٰ کہ جب آپ کے قول اور عمل میں تعارض ہو تو آپ کے قول کے مقابلہ میں عمل کو ترک کردیا جاتا ہے اور جب کہ بہ کثرت احادیثِ صحیحہ میں آپ کے صریح ارشادات موجود ہیں کہ فلاں کی طرف سے صدقہ کرو اور فلاں کی طرف سے حج کرو اور فلاں کی طرف سے روزے رکھو تو پھر اس سلسلہ میں آپ کے اور صحابہ کے اعمال کو تلاش کرنے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔

نیز اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ عہد رسالت اور عہد صحابہ وتابعین میں مساجد میں صرف فرض نمازیں پڑھی جاتی تھیں، سنن اور نوافل صرف گھروں میں پڑھے جاتے تھے، جبکہ اب مساجد میں سنن اور نوافل پڑھنے کا بھی رواج ہوگیا ہے۔ کیا مخالفین یہ بتاسکتے ہیں کہ اس رواج کا ثبوت کس حدیث میں ہے ؟

نیز عہد رسالت میں اور عہد صحابہ وتابعین میں گھڑیوں کے حساب سے ایک معین وقت پر نمازیں نہیں پڑھی جاتی تھیں، جب مسلمان جمع ہوجاتے تھے، نماز پڑھ لیتے تھے، ہم سے تیجے اور چالیسویں کی تعیین کا سوال کرنے والے مخالفین کیا بتاسکتے ہیں کہ گھڑیوں کے حساب سے معین وقت پر نماز پڑھنے کا ثبوت کس حدیث میں ہے ؟

اور اگر آپ کے صریح ارشادات کے باوجود معترض کی تسکین آپ کے عمل سے ہوسکتی ہے تو ہم ” صحیح مسلم “ اور بہ کثرت دیگر احادیث کے حوالوں سے بتا چکے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سینگھوں والے مینڈھے کی قربانی کی اور یہ دعا کی : اے اللہ : اس کو محمد اور آلِ محمد اور امت محمد کی طرف سے قبول فرما، اور صحابہ کے عمل کا ثبوت یہ ہے کہ ہم ” سنن ابو دائود اور دیگر کثیر احادیث کے حوالوں سے یہ بتا چکے ہیں کہ حضرت علی ہمیشہ دو مینڈھوں کی قربانی کرتے تھے، ایک اپنی طرف سے اور ایک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے۔

اس سوال کا جواب ہم گزشتہ صحفات میں غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان کی طرف سے اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی طرف سے بھی لکھ چکے اور مذکور الصدر احادیث کا ” شرح صحیح مسلم “ ج 4 ص 501-502 میں بھی ذکر ہے۔

نواب صدیق حسن بھوپالی کی عبارت یہ ہے :

اس سے یہ معلوم ہوا کہ اپنی عبادات کو دوسروں کے لئے ہدیہ پیش کرنا اس سے بہتر ہے کہ انسان ان عبادات کا اپنے لئے ذخیرہ کرے، یہی وجہ ہے کہ جس صحابی نے کہا تھا کہ میں اپنی دعا کا تمام وقت آپ پر صلوۃ پڑھنے میں صرف کروں گا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ تمہارے لئے کافی ہے، یہ وہ صحابی ہیں جو بعد کے تمام لوگوں سے افضل ہیں۔ پھر اس قول کا کیا جواز ہے کہ سلف صحالین نے فوت شدہ لوگوں کے لئے ایصال ثواب نہیں کیا ؟ کیونکہ اس قسم کے ایصال ثواب کے لئے لوگوں کی شہادت کی ضرورت نہیں ہے اور اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ سلف صالحین نے ایصال ثواب نہیں کیا تھا تو اس سے ایصال ثواب میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ یہ مستحب ہے، واجب نہیں ہے اور ہمارے لئے ایصال ثواب کے جواز کی دلیل موجود ہے، خواہ ہم سے پہلے کسی نے ایصال ثواب کیا ہو یا نہ ( السراج الوہاج ج 2 ص 55)

اور اعلیٰ حضرت امام رضا فاضل بریلوی کی عبارت یہ ہے :

فاتحہ دلانا شریعت میں جائز ہے اور جس طرح مدارس اور خانقاہیں اور مسافر خانے بنائے جاتے ہیں اور سب مسلمان ان کو فعل ثواب سمجھتے ہیں، کیا کوئی ثبوت دے سکتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح بنائے تھے یا بنوائے تھے یا کوئی ثبوت دے سکتا ہے کہ فاتحہ جس طرح اب دی جاتی ہے جس میں قرآن مجید اور کھانے دونوں کا ثواب میت کو پہنچاتے ہیں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا اور جب ممانعت کا ثبوت نہیں دے سکتا اور بیشک ہرگز نہیں دے سکتا تو جس چیز سے اللہ اور رسول نے منع نہ فرمایا، دوسرا کہ منع کرے گا اپنے دل سے شریعت گھڑے گا۔ (فتاویٰ رضویہ ج 4 ص 26)

نفلی عبادت کے لئے اپنے اجتہاد سے کوئی بھی وقت معین کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ تعیین عرفی ہوتی ہے، تعیین شرعی کی طرح نہیں، جسے شارع نے مقرر کیا ہے اور مکلّف اس کا پابند ہے اور اسی پر اجر کامل موقوف ہے۔ دیکھیئے ” ازروئے شرع “ نفلی روزہ ہر دن رکھا جاسکتا ہے، لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ پیر کے دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث 1162) اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر ہفتہ کے دن مسجد قباء کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے تھے اور آپ کی اتباع میں حضرت عبداللہ بن عمر بھی ہر ہفتے کو مسجد قباء جایا کرتے تھے، جبکہ مسجد قباء کی زیارت ایک نفلی عبادت ہے، جسے ہر روز کیا جاسکتا ہے لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہفتے کے دن کو اس کی زیارت کے لئے خاص کرلیا تھا، چناچہ حدیث میں ہے :

حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر ہفتے کے دن مسجد قباء پیدل یا سواری پر جایا کرتے تھے، اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر بھی ہر ہفتہ کے دن مسجد قباء کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :1193)

اس اعتراض کا جواب کہ قرآن مجید میں دوسرے کے لئے دعا کے ثبوت سے ایصال ثواب کا ثبوت لازم نہیں آتا :

اعتراض 4: آپ نے ” شرح صحیح مسلم “ (ج 4 ص 500) میں قرآن مجید کی ان آیات سے ایصال ثواب پر استدلال کیا ہے :

” اور آپ کہیے : اے میرے رب ! میرے والدین پر رحم فرما جس طرح انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔ (بنی اسرائیل :24)

” اے ہمارے رب ! ہماری مفغرت فرما اور ہمارے ان بھائیوں کی جو ہم سے پہلے فوت ہوچکے ہیں۔ (الحشر :10)

دعا میں استدعا ہے، اپنا عمل کسی کو دیا نہیں جا رہا، اس لئے دعا کی آیات ایصال ثواب کے لئے دلیل نہیں بن سکتیں۔

الجواب : معتزلہ یہ کہتے ہیں کہ کسی شخص کا عمل دوسرے کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور اسی قاعدہ کی بنیاد پر وہ ایصال ثواب کی نفی کرتے ہیں، ہم نے بنی اسرائیل :24 سے یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اپنے والدین کے لئے حصول رحمت کی دعا کیجئے اور الحشر :10 میں یہ بتایا ہے کہ مومنین اپنے فوت شدہ بھائیوں کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں گویا ہمیں بھی ایسی دعا کرنے کی تلقین کی ہے اگر آپ کی دعا سے آپ کے والدین کو رحمت حاصل نہ ہو اور مومنین کی دعا سے ان کے فوت شدہ بھائیوں کو مغفرت حاصل نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم اور اس کی تلقین عبث ہوگی۔ سو واضح ہوگیا کہ ایک مسلمان کے عمل سے دوسرے مسلمان کو فائدہ پہنچتا ہے اور اس سے یہ قاعدہ باطل ہوگیا کہ ایک کے عمل سے دوسرے کو فائدہ نہیں ہوتا اور اسی قاعدہ کی بنیاد پر معتزلہ نے ایصال ثواب کی نفی کی تھی، پس ان آیات سے ایصال ثواب کی نفی کی بنیاد منہدم ہوگئی اور خصوصیت کے ساتھ ایصال ثواب کا ثبوت ان متعدد احادیث سے ہے جن کو ہم پیش کرچکے ہیں۔

اس کا جواب کہ ایصالِ ثواب کے کھانے سے اغنیاء کیوں کھاتے ہیں ؟

اعتراض 5: صدقہ غرباء کے لئے ہوتا ہے، امراء کے لئے نہیں ہو تھا، لیکن عملاً امراء بھی ایصال ثواب کی دعوتوں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔

الجواب : جو صدقہ فرض ہو جیسے نذر معین کا یا زکوٰۃ کا، اس کا کھانا امراء کے لئے جائز نہیں ہے اور نفلی صدقات جیسے سوئم اور چہلم میں صدقہ کا ثواب یا بزرگان دین کے عرس کا طعام اس کو سب کھا سکتے ہیں۔

اس کا جواب کہ قرآن اور حدیث میں بندوں کے اعمال میں دوسرے کے ہدیہ کئے ہوئے اعمال کا ذکر کیوں نہیں ہے ؟

اعتراض 6: قیامت کے دن اپنے اپنے اعمال کا حساب ہوگا، یہ کہیں نہیں ہے کہ تمہارے اعمال میں ان ہدیوں کو بھی دیکھا جائے گا جو تمہیں وفات کے بعد بھی وصول ہوئے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے : ” البقرہ :139) اگر دوسرے کی نیکیاں بھی انسان کے اعمال میں ہوتیں تو قرآن میں ان کا ذکر بھی ہوتا۔

الجواب : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ابن آدم کے مرنے کے بعد تین کے سوا اس کے سب اعمال منقطع ہوجاتے ہیں، صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جائے اور وہ نیک اولاد جو مرنے والے کے لئے دعا کرے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :1631) اس نے اپنی زندگی میں جو اعمال از خود نہیں کئے تھے، اس حدیث کی رو سے قیامت تک کی یہ نیکیاں اس کے اعمال میں داخل ہوں گی۔

حضرت جریر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے اسلام میں کسی نیک طریقہ کو ایجاد کیا اس کو اپنی نیکیوں کا بھی اجر ملے گا اور جن لوگوں نے اس نیکی پر عمل کیا ان کا اجر بھی اس کو ملے گا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث 1017) سو جس نے اپنی اولاد کو نماز سکھائی، اس کی نماز کا اجر اسی کو ملے گا اور جس نے اپنی اولاد کو صدقہ و خیرات کرنا سکھایا، اس کے صدقہ و خیرات کرنے کا بھی اجر اس کو ملے گا، جس نے دینی مسائل سکھائے، ان مسائل پر عمل کرنے والوں کا اجر اس کو ملے گا، جس نے کوئی دینی کتاب لکھی، اس کو پڑھ کر اس پر عمل کرنے والوں کا اجر اس کو ملتا رہے گا جب تک دنیا میں وہ کتاب باقی رہے گی۔

حضرت ابو اسید مالک بن ربیعہ الساعدی (رض) بیان کرتے ہیں کہ بنو سلمہ کے ایک شخص نے پوچھا : یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ کے انتقال کے بعد کیا کوئی ایسی نیکی ہے جو میں ان کے ساتھ کرسکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں تم ان کی نماز جنازہ پڑھو، ان کے لئے مغفرت طلب کرو، ان کی وفات کے بعد ان کے کئے ہوئے وعدوں کو پورا کرو، جن رشتہ داروں کے ساتھ وہ نیکی کرتے تھے ان کے ساتھ نیکی کرو اور ان کے دوستوں کی تکریم کرو۔

(سنن ابو دائود رقم الحدیث :5142، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 3664)

اولاد کی نیکیوں سے بھی ماں باپ کو نفع ہوگا اور یہ نیکیاں ماں باپ کے اعمال نامے میں درج ہوں گی، ہم نے تین حدیثیں بیان کی ہیں، جن کے اعتبار سے اولاد اور شاگردوں کی نیکیاں ماں باپ اور اساتذہ کے اعمال میں اور قارئین کی نیکیاں مصنفین کے اعمال ناموں میں درج ہوں گی تو کیا کسی حدیث میں یہ ذکر ہے کہ میزان پر کسی شخص کو وہ نیکیاں ملیں گی جو اس کے لئے دوسروں نے کی ہیں اور کیا کسی حدیث میں اعمال نامے میں درج تمام مفصل نیکیوں کا ذکر ہے، حتیٰ کہ یہ کہا جائے کہ اس میں کسی شخص کی اپنی کی ہوئی نیکیوں کا تو ذکر ہے لیکن ان نیکیوں کا ذکر نہیں ہے جو کسی دوسرے نے اس کے لئے کیں تھیں اور کیا ایصال ثواب کے ثبوت کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وہ تمام ارشادات کافی نہیں ہیں جن میں آپ نے کسی سے فرمایا : تم اپنی ماں کی طرف سے حج کرو، کسی سے فرمایا : تم اپنے باپ کی طرف سے حج کرو، کسی سے فرمایا : تم اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کرو، اور کیا قرآن مجید میں یہ آیت نہیں ہے :

” اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کی اولاد کو بھی ان کے ساتھ ملا دیں گے۔ (الطّور : 31)

لہٰذا اب یہ اعتراض ساقط ہوگیا کہ اگر دوسروں کی نیکیاں انسان کے کام آتیں تو قرآن ان کو بھی ذکر کرتا۔ اور قرآن مجید میں یہ بھی ہے :۔

” اور اگر اللہ بعض لوگوں کی نیکیوں سے دوسرے بعض سے عذاب دور نہ کرتا تو زمین فاسد ہوجاتی۔ (البقرہ :251)

نیز قرآن مجید میں ہے :

” اور اگر اللہ بعض لوگوں کے شر کو بعض لوگوں کی خیر سے دور نہ فرماتا تو راہبوں کے معبد، اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے، ضرور گرا دیئے جاتے۔ (الحج :40)

حافظ ابن کثیر متوفی 774 ھ نے اول الذکر آیت (البقرہ 251) کی تفسیر میں یہ حدیث ذکر کی ہے :

حضرت عبادت بن الصامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت میں تیس ابدال ہیں، ان ہی کی وجہ سے تم کو رزق دیا جاتا ہے، ان ہی کی وجہ سے تم پر بارش ہوتی ہے اور ان ہی کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ (تفسیر ابن کثیرج 1 ص 346، دارالفکر، بیروت 1419 ھ)

شیخ محمد بن علی الشوکانی متوفی 1250 ھ اور نواب صدیق حسن بھوپالی متوفی 1307 ھ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے :

امام ابن ابی حاتم اور امام بیہقی نے ” شعب الایمان “ میں حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث روایت کی ہے کہ : اللہ نماز پڑھنے والوں کے سبب سے بےنمازوں سے عذاب دور کردیتا ہے اور حج کرنے والوں کے سبب سے حج نہ کرنے والوں سے عذاب دور کردیتا ہے اور زکوٰۃ نہ دینے والوں کے سبب سے ان سے عذاب دور کردیتا ہے جو زکوٰۃ نہیں دیتے۔ (فتح القدیر ج 1 ص 460، دارالوفاء المنصورہ، 1418 ھ، فتح البیان ج 1 ص 363، دارالکتب العلیمہ، بیروت 1420 ھ)

اور ”(البقرہ :139) “ اس کے خلاف نہیں ہے کیونکہ جو شخص کسی کی تعلیم دینے یا اس کے نیک سلوک، اس کی پرورش اور اس کی محبت کی وجہ سے اس کی طرف سے نیک اعمال کرتا ہے، وہ در حقیقت اسی کے اعمال ہوتے ہیں کیونکہ وہ دوسرے کے نیک اعمال کا سبب ہوتا ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت سعد نے اپنی ماں کے مال سے صدقہ کیا تھا، اس لئے یہ ایصالِ ثواب کی دلیل نہیں ہے

اعتراض 7: جس حدیث میں ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ نے اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کیا، وہ ایصال ثواب کی دلیل نہیں بنتی کیونکہ انہوں نے اپنی ماں کے مال سے صدقہ کیا تھا یا ان کی خواہش سے صدقہ کیا تھا۔

الجواب : یہ حدیث پر افتراء ہے، کسی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ حضرت سعد نے اپنی ماں کے مال سے صدقہ کیا تھا یا ان کی خواہش سے ان کی طرف سے ایسا کیا تھا، اگر منکرین کے پاس ایسی حدیث ہے تو پیش کریں ورنہ جھوٹی حدیث گھڑنے سے باز آئیں اور اس جھوٹ کا واضح قلع قمع اس حدیث سے ہوتا ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : یا رسول اللہ : میری ماں کا انتقال ہوگیا اور میں اس وقت موجود تھا، اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کروں تو کیا ان کو اس کا نفع پہنچے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! انہوں نے کہا : پس بیشک میں آپ کو گواہ کرتا ہوں میں میرا مخراف نام کا کھجوروں کا باغ ہے وہ ان پر صدقہ ہے۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث :2762، سنن ترمذی رقم الحدیث :669، سنن ابو دائود رقم الحدیث :2882 خ یہ حدیث ” شرح صحیح مسلم “ ج 4 ص 501 پر بھی درج ہے)

اس کا جواب کہ میت کی نذر پوری کرنا وارثوں پر لازم ہے اس لئے یہ ایصال ثواب کی دلیل نہیں ہے

اعتراض 8: جس حدیث میں وارث سے کہا گیا ہے کہ وہ میت کا قرض ادا کرے یا اس کی نذر پوری کرے وہ بھی ایصال ثواب کی دلیل نہیں ہے کیونکہ میت کا قرض ادا کرنا اور اس کی نذر پوری کرنا وارثوں پر فرض ہے۔

الجواب : قرض ادا کرنا، اور نذر پوری کرنا وارثوں پر اس وقت ضروری ہے جب اس نے ترکہ میں مال چھوڑا ہو، اور اگر اس نے ترکہ میں کوئی مال نہ چھوڑا ہو، پھر ان پر قرض ادا کرنا یا نذر پوری کرنا فرض نہیں ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میت کی طرف سے نذر پوری کرنے کا مطلقاً حکم دیا ہے اور جب وارث اپنی طرف سے تبرع اور احسان کر کے اس کی نذر پوری کرے گا تو یہ خالص غیر کا عمل ہوگا جس سے میت کو نفع ہوگا اور یہ ایصال ثواب کی واضح دلیل ہے، نیز جب میت نے مال چھوڑا ہو اور وارث اس مال سے قرض ادا کرے یا نذر پوری کرے تب بھی یہ عمل تو میت کا نہیں ہے، مال میت کا ہے لیکن عمل تو وارث کا ہے اور وارث کے اس عمل سے میت کو بہرحال نفع ہوگا اور اس صورت میں بھی یہ ایصال ثواب کی دلیل ہے۔

اس اعتراض کا جواب کہ اس حدیث کی سند کمزور ہے جس میں حضور کی طرف سے حضرت علی کی قربانی کرنے کا ذکر ہے

اعتراض 9: حضرت علی (رض) سے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے قربانی کرنے کی حدیث ہے اس کی سند کا حال ” میزان “ میں قابل دید ہے، اس روایت کو قبول کرنے کے لئے چیتے کا دل چاہیے ؟

الجواب : جی نہیں ! اس روایت کو قبول کرنے کے لئے مسلمان کا دل کافی ہے ” میزان الاعتدال “ میں اس سند کا جو حال ہے وہ ہم نے دیکھ لیا ہے ” میزان الاعتدال “ کے مصنف علامہ ذہبی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کے راوی الحسن بن الحکم کے متعلق ابن معین نے کہا : وہ ثقہ ہیں اور ابو حاتم نے کہا : وہ صالح الحدیث ہیں، البتہ یہ بھی لکھا ہے کہ ابن حبان ان کو ناپسند کرتے تھے (اگر وہ ناپسند کرتے تھے توہ کرتے رہیں) (میزان الاعتدال ج 2 ص 233) اور علامہ ذہبی نے ” تلخیص المستدرک “ میں اس حدیث کے متعلق لکھا ہے : یہ حدیث صحیح ہے (تلخیص المستدرک ج 4، ص 230-229)

اس اعتراض کا جواب کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امت کی طرف سے قربانی دینا گھر کے سربراہ کی مثل ہے، یہ ایصالِ ثواب کی دلیل نہیں

اعتراض 10: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو اپنی آل اور اپنی امت کی طرف سے قربانی کی تھی وہ بھی ایصال ثواب کی دلیل نہیں ہے کیونکہ جب گھر کا سربراہ قربانی دیتا ہے تو وہ سب کی طرف سے قربانی ہوجاتی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساری امت کے سربراہ تھے، اس لئے آپ نے ساری امت کی طرف سے قربانی کردی۔ آپ کا یہ عمل امت کی دل جوئی کے لئے تھا یہ ایصال ثواب کی دلیل نہیں ہے۔

الجواب : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اور ہمارا تعلق ایک گھرانے اور اس کے سربراہ کا سا نہیں ہے بلکہ ایک نبی اور اس کی امت کا ہے اور نبی کے ہر عمل میں امت کے لئے حسین نمونہ ہے، قرآن مجید میں ہے :

بے شک تمہارے لئے رسول اللہ ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) میں حسین نمونہ ہے (الاحزاب :21)

سو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی آل اور امت کی طرف سے جو قربانی کی ہے اس میں ہمارے عمل کے لئے یہ نمونہ ہے کہ ہم بھی اپنے عزیزوں اور معاشرہ کے ان پسند ماندہ افراد کی طرف سے قربانی کیا کریں جو از خود قربانی نہیں کرسکتے اور ان کے لئے ایصال ثواب کریں۔

نیز قرآن مجید میں ہے :

آپ کہیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔ (آل عمران :31)

اس آیت کا بھی یہ تقاضا ہے کہ ہم اپنی قربانی کے ساتھ اپنے عزیزوں اور معاشرہ کے تنگ دست افراد کی طرف سے قربانی کریں اور ان کے لئے ایصال ثواب کریں۔

اس کا جواب کہ حضرت سعد بن عبادہ کی حدیث مرسل ہے، اس لئے حجت نہیں

اعتراض 11: حضرت بعد بن عبادہ (رض) کی وفات پندرہ ہجری میں ہوئی ہے، حسن بصری جو بےنظیر مدلس ہیں، ان کی وفات کے بعد تقریباً بائیس ہجری میں پیدا ہوئے۔ ” موطأ امام مالک “ میں حسن بصری نے حضرت سعد بن عبادہ سے یہ مرسلاً روایت کی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کرنے کا سوال کیا۔ سو یہ روایت مدلس ہے اور ناقابل اعتبار ہے۔ ” تہذیب التہذیب “ اور ” میزان الاعتدال “ میں حسن بصری کے مدلس ہونے کا ذکر ہے۔

الجواب : ہم نے ” موطأ امام مالک “ کی مرسل روایت سے استدلال نہیں کیا بلکہ ” صحیح بخاری “ کی متصل السند تین روایتیں پیش کی ہیں، پہلی روایت ”“ سے شروع ہوتی ہے (صحیح البخاری رقم الحدیث 2761) اور دوسری روایت ”“ سے شروع ہوتی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث 2762)

اور تیسری متصل روایت یہ ہے : ” الحدیث “ (صحیح البخاری رقم الحدیث 2760) ان تینوں روایات میں سے کسی روایت میں حسن بصری نہیں ہیں۔ نیز ” سنن ابو دائود “ میں سعید بن مسیب اور حسن بصری سے مرسل روایت ہے ” جس کے متعلق ہم ایصال ثواب کے متعلق احادیث کے عنوان کے تحت بحث کرچکے ہیں۔ تاہم معترضین کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ حسن بصری بےنظیر مدلس تھے، ان کی روایات مرسل ہیں، مدلس نہیں ہیں۔

کیا حضرت حسن بصری فی الواقع مدلس تھے ؟

حافظ جمال الدین ابو الحجاج یوسف مزی متوفی 742 ھ لکھتے ہیں :

حسن بصری کا پورا نام ہے : حسن بن ابی الحسن یسار بصری، حضرت عمر فاروق (رض) کی خلافت کے آخری دو سالوں میں پیدا ہوئے، ان کی ماں کا نام خیرہ تھا اور وہ ام المومنین ام سلمہ (رض) کی باندی تھیں، بعض اوقات کی ماں گھر میں نہیں ہوتی تھیں اور یہ روتے تھے تو حضرت ام سلمہ ان کے منہ میں اپنا پستان دے دیتی تھیں، ان میں جو حکمت اور فصاحت تھی وہ اسی کی برکت سے تھی۔ (تہذیب الکمال ج 4 ص 297، دارالفکر، بیروت 1414 ھ)

نیز علامہ مزی نے لکھا ہے کہ ان کی ماں ان کو حضرت عمر کے پاس لئے گئیں، حضرت عمر (رض) نے ان کے لئے دعا کی : اے اللہ : اس کو دین میں فقہ عطا فرما اور لوگوں کے نزدیک اس کو محبوب بنا دے۔ (تہذیب اللکمال ج 4 ص 303)

امام احمد بن حنبل نے کہا : رجب 110 ھ میں ان کی وفات ہوئی، سفیان بن عیینہ نے کہا : اس وقت ان کی عمر اٹھاسی (88) سال تھی۔ (تہذیب الکمال ج 4 ص 317)

” میزان الاعتدال “ کے مصنف علامہ شمس الدین ذہبی نے ” سیر اعلام النبلائ “ میں حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ کے بہت فضائل اور مناقب لکھے ہیں، وہ لکھتے ہیں۔

حضرت حسن بصری اپنے زمانہ کے اہل علم و عمل کے سردار تھے اور اہل بصرہ کے شیخ تھے۔ (سیر اعلام النبلاء ج 5 ص 487)

یحییٰ بن معین نے کہا : انہوں نے صحابہ کی ایک جماعت سے مرسلاً احادیث روایت کی ہیں، مثلاً حضرت علی، حضرت ام سلمہ، ان سے ان کا سماع نہیں ہے اور نہ ہی حضرت ابو موسیٰ اور نہ حضرت ابن سریع سے اور نہ عمرو بن تغلب سے اور نہ حضرت عمران سے اور نہ حضرت ابی زرہ سے اور نہ حضرت اسامہ بن زید سے اور نہ حضرت ابن عباس سے اور نہ حضرت عقبہ بن عامر سے اور نہ حضرت ابو ثعلبہ سے اور نہ حضرت ابو بکرہ سے اور نہ حضرت ابوہریرہ سے اور نہ حضرت جابر سے اور نہ حضرت ابو سعید سے اور دوسروں نے کہا : ان کا حضرت سلمہ بن محبق، حضرت عباس اور حضرت ابی بن کعب سے بھی سماع نہیں ہے، فتاوہ نے کہا : ان کا کسی بدری صحابی سے سماع نہیں ہے۔ (سیر اعلام النبلاء ج 5 ص 459-458)

حضرت حسن بصری نے کہا : میں حضرت عثمان (رض) کے زمانہ خلافت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجرات میں جاتا تھا، اس وقت میں بالغ ہوچکا تھا اور جب باغیوں نے حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا اس وقت میری عمر 14 سال تھی۔ حسن بصری، عثمان بن ابی العاص کے پاس گئے تھے اور انہوں نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے۔

(سیر اعلام النبلاء، ج 5 ص 461-460)

ابو بردہ نے کہا : میں نے حسن بصری سے زیادہ کوئی شخص سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب سے مشابہ نہیں دیکھا۔

ابو قتاوہ نے کہا : حسن بصری کو لازم رکھو، میں نے ان سے زیادہ کوئی شخص حضرت عمر (رض) سے مشابہ نہیں دیکھا۔

حضرت انس بن مالک (رض) نے کہا : حسن بصری سے سوال کرو کیونکہ ان کو (احادیث) حفظ ہیں اور ہم بھول گئے۔

فتاوہ نے کہا : میں نے جب بھی حسن بصری کے علم کا دوسرے علماء سے تقابل کیا تو حسن بصری کو ان سے افضل پایا۔

(سیر اعلام النبلاء ج 5، ص 463، دارالفکر، بیروت 1417 ھ)

ابو ہلال نے کہا : جب فتاوہ کے پاس حسن بصری کی موت کی خبر پہنچی تو انہوں نے کہا : وہ علم میں غوطہ زن تھے، بلکہ وہ علم میں ہی پروان چڑھے، اور اللہ کی قسم ! خارجیوں کے سوا ان سے کوئی بغض نہیں رکھتا تھا۔

ہمام نے فتاوہ سے روایت کیا کہ زمین کبھی ایسے سات لوگوں سے خالی نہیں رہی، جن کے سبب سے بارش ہوتی ہے اور جن کی برکت سے لوگوں سے مصائب دور کئے جاتے ہیں اور مجھے توقع ہے کہ حسن بصری بھی ان سات میں سے ایک ہیں۔

(سیر اعلام النبلاء ج 5 ص 464)

امام محمد بن سعد متوفی 230 ھ لکھتے ہیں :

حسن بصری نے کہا : میں جنگ صفین کے ایک سال بعد بالغ ہوا، حضرت عمان کی شہادت کے وقت ان کی عمر چودہ سال تھی انہوں نے حضرت عثمان کو دیکھا، ان سے سماع کیا اور ان سے احادیث روایت کیں، انہوں نے حضرت عمران بن حصین سے، حضرت سمرہ بن جندب سے، حضرت ابوہریرہ سے، حضرت ابن عمر سے، حضرت ابن عباس سے، حضرت عمرو بن تغلب سے، حضرت اسود بن سریع سے، جندب بن عبداللہ سے اور صعصغہ بن معاویہ سے احادیث رویت کیں اور ان سے روایت کی ہیں اور حسن بصری جامع، عالم، عالی، رفیع، فقیہ، ثقہ، مامون، عابد، ناسک، کبیر العلیم، فصیح اور جمیل تھے۔ ان کی جو روایات متصل ہیں اور ان سے روایت کی ہیں جن سے انہوں نے سماع کیا ہے وہ عمدہ اور حجت ہیں اور ان کی مرسل احادیث حجب نہیں ہیں (یہ محمد بن سعد کی رائے ہے، احناف اور مالکیہ کے نزدیک مرسل روایت مطلقاً مقبول ہے) اہل مکہ نے ان کی تعظیم کی اور مجاہد، عطائ، طائوس اور عمرو بن شعیب نے کہا : ہم نے ان کی مثل کسی شخص کو نہیں دیکھا۔ (الطبقات الکبریٰ ج 7 ص 115، دارالکتب العلمیہ، بیروت 1418 ھ)

حافظ شمس الدین ذہبی متوفی 748 ھ نے لکھا ہے :

یہ اپنے زمانہ میں بصرہ میں سید التابعین تھے، یہ فی نفسہ ثقہ تھے، علم اور عمل میں سردار تھے، بہت عظیم القدر تھے اور بہت تدلیس کرتے تھے۔ (میزان الاعتدال ج 2 ص 281، دارالکتب العمیہ، بیروت 1416 ھ)

حسن بصری کو مدلس کہنا صحیح نہیں، دراصل یہ مرسل روایت بیان کرتے تھے، اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 752 ھ کا بھی ان کو مدلس کہنا صحیح نہیں ہے، وہ لکھتے ہیں :

حسن بصری ثقہ اور فقیہ تھے، ان کی مرسل روایات بہت ہیں اور وہ تدلیس کرتے تھے۔

(تقریب التہذیب ص 166 دارالمعرفتہ، بیروت 1422 ھ)

نیز حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں۔

العجلی نے کہا : وہ تابعی ثقہ ہیں اور جل صالح ہیں، ان حبان نے ان کا الثقات میں ذکر کیا ہے، انہوں نے ایک سو بیس صحابہ کو دیکھا، وہ تدلیس کرتے تھے، وہ اہل بصرہ میں سب سے زیادہ فصیح تھے، سب سے زیادہ حسین تھے، سب سے زیادہ عبادت گزار تھے اور سب سے زیادہ فقیہ تھے۔ (تہذیب التہذہیب ج 2 ص 248، دارالکتب العلمیہ، بیروت 1415 ھ)

تدلیس کا لغوی اور اصطلاحی معنی

تدلیس کا لغوی معنی ہے : روشنی اور اندھیرے کا مختلط ہونا، بیچنے والے کا سودے کے عیب کو خریدار سے چھپانا، دھوکا دینا۔

سند میں تدلیس یہ ہے کہ محدت نے جس شیخ سے حدیث سنی ہو، اس شیخ کے کسی عیب کی وجہ سے اس کی طرف حدیث کا اسناد نہ کرے بلکہ اس سے اوپر کے شیخ کی طرف حدیث کا اسناد کرے جس کو اس نے دیکھا بھی ہو۔

(لسان العرب ج 5 ص 286، دارصادر، بیروت 2003 ئ)

اور تدلیس کی اصطلاحی تعریف یہ ہے : علامہ یحییٰ بن شرف نووی متوفی 676 ھ لکھتے ہیں :

تدلیس الاسنادیہ یہ ہے کہ محدث اپنے معاصر سے ایک حدیث روایت کرے جس سے اس نے اس حدیث کو نہ سنا ہو اور وہ یہ وہم ڈالے کہ اس نے اسی سے اس حدیث کو سنا ہے اور جس سے اس نے سنا ہے اس کے ضعیف یا اس کے کم عمر ہونے کی وجہ سے اس کی طرف اس حدیث کا اسناد نہ کرے تاکہ اس حدیث کی تحسین ہو۔

(تقریب النواوی مع تدریب الراوی ج 1 ص 223-224) مکتبہ علمیہ، مدینہ منورہ)

اور حدیث مرسل کی تعریف یہ ہے :

تابعی کبیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرے اور یہ کہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یا آپ نے یہ کام کیا۔ (تقریب النواوی مع تدریب الراوی ج 1 ص 195)

واضح رہے کہ حدیث مرسل امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک مطلقاً مقبول ہوتی ہے اور امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک اگر دوسرے قرآن سے مؤ ید ہوجائے تو مقبول ہوتی ہے ورنہ نہیں۔

حضرت حسن بصری کے مدلس نہ ہونے پر دلائل

حضرت حسن بصری کے متعلق سب نے لکھا ہے کہ وہ عالم باعمل تھے اور اپنے زمانہ میں سب سے بڑے فقیہ اور سب سے زیادہ عبادت گزار تھے، سو ان کے تعلق یہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ سند حدیث میں تدلیس کریں گے اور لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے اپنی روایت کی نسبت اپنے شیخ الشیخ کی طرف کریں گے جس سے انہوں نے اس حدیث کو نہیں سنا ہوگا اور اپنے اس شیخ کی طرف اس حدیث کی نسبت نہیں کریں گے جس سے درحقیقت انہوں نے اس حدیث کو سنا ہوگا کیونکہ ان کے اس شیخ میں کوئی عیب ہوگا اور وہ اس حدیث کو رواج دینے کے لئے اس کی نسبت شیخ الشیخ کی طرف کردیں گے تاکہ اس حدیث کا رواج ہو اور ظاہر ہے کہ یہ دھوکہ دہی ہے اور کسی متقی عالم دین سے ایسا کرنا متصور نہیں ہے۔ چہ جائیکہ ایسے شخص سے جو اپنے زمانے کا سب سے بڑا فقیہ اور سب سے بڑا عابد ہو۔ لہٰذا حضرت حسن بصری کی طرف تدلیس کی نسبت کرنا باطل ہے، خواہ کسی نے بھی یہ نسبت کی ہو۔

البتہ حضرت حسن بصری کی مرسل روایات بہت ہیں، اور حدیث مرسل وہ ہوتی ہے جس میں تابعی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرے اور درمیان میں کسی صحابی کو چھوڑ دے۔ علامہ ابو الحجاج یوسف مزی متوفی 742 ھ لکھتے ہیں :

ایک شخص نے حسن بصری سے کہا کہ آپ ہم سے حدیث بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں۔ ”( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا) کاش ! آپ یہ بھی بیان کرتے کہ آپ سے یہ حدیث کس نے بیان کی ہے ؟ حسن بصری نے کہا : اے شخص ! نہ ہم نے جھوٹ بولا ہے نہ ہم سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ ہمارے ساتھ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تین سو اصحاب تھے اور انہی میں سے کوئی شخص ہمیں نماز پڑھاتا تھا (یعنی ان ہی صحابہ میں سے ہم نے احادیث سنی ہیں ض۔

یونس بن عبید نے کہا کہ میں نے حسن بصری سے سوال کیا : اے ابو سعید ! آپ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، حالانکہ آپ نے ان کے زمانہ کو نہیں پایا۔ حسن بصری نے کہا : اے بھتیجے ! تم نے مجھ سے اس چیز کا سوال کیا ہے جو تم سے پہلے مجھ سے کسی نہیں کیا اور اگر میرے نزدیک تمہاری وہ وقعت نہ ہوتی جو ہے تو میں تمہیں نہ بتاتا، تم دیکھ رہے ہو کہ میں کس زمانے میں ہوں اور یہ زمانہ حجاج کی عمل داری کا تھا اور ہر وہ حدیث جس میں تم مجھ سے یہ سنتے رہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ دراصل حضرت علی بن ابی طالب (رض) سے میں نے سنی ہوتی ہے، لیکن میں اس زمانہ میں ہوں کہ حضرت علی کا نام زبان پر لانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ ( تہذیب الکمال ج 4 ص 316، دارالفکر، بیروت)

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی 752 ھ لکھتے ہیں :

ابن مدینی نے کہا کہ حسن بصری کی مرسلات جب ان سے کوئی ثقہ راوی روایت کرے تو وہ صحیح ہیں اور بہت کم ایسا ہوگا کہ ان میں سے کوئی حدیث ساقط الاعتبار ہو۔ اور امام ابو زرعہ نے کہا کہ ہر وہ حدیث جس میں حسن بصری کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے اس کی اصل ثابت پائی سو اچار احادیث کے اور امام محمد بن سعد نے کہا کہ حسن بصری جامع، عالم، رفیق، فقیہ، ثقہ، مامون، عابد، ناسک، کثیر العیم، فصیح اور جمیل تھے۔

(تہدیب التہذیب ج 2 ص 245، دارالکتب العلمیہ، بیروت 1415 ھ )

ان اقتباسات سے واضح ہوگیا کہ حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ تعالیٰ کا روایت حدیث میں کتنا بلند مقام ہے اور منکرین حدیث نے ان کی بہ کثرت احادیث کو رد کرنے کے لئے یہ زہر پھیلایا ہے کہ وہ مدلس تھے اور ہم نے تفصیل سے اس کو اس لئے لکھا کہ عام لوگوں کو اس زہر آفرینی سے کوئی غلط فہمی ہوئی ہو تو وہ دور ہوجائے اور حضرت حسن بصری کے دامن سے غبار ہٹ جائے اور قیامت کے دن حسن بصری ایسے فقیہ اور عابد و زاہد کے دامن سے گرد صاف کرنے کی وجہ سے ہمیں ان کی شفاعت نصیب ہو اور ہماری مغفرت ہو۔

” میں صالحین سے محبت کرتا ہوں اور ہرچند کہ میں ان میں سے نہیں ہو، شاید کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی صالحیت عطا فرما دے “۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 53 النجم آیت نمبر 39