مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

تحریر وتقریر کا بدلتا اسلوب

اور ترقی پذیر بدمذہبیت

 

اسماعیل دہلوی نے 1240 ہجری میں بھارت میں وہابیت کی تبلیغ واشاعت شروع کی۔دو سو تین سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔قریبا ایک سو نوے سال تک برصغیر میں علمائے اہل سنت وجماعت عوام مسلمین کو عقائد حقہ کی تعلیم دیتے رہے۔تحریر وتقریر کے ذریعہ وہابیت ودیوبندیت کی تردید وتقبیح کرتے رہے اور قوم مسلم بدمذہبیت سے ہمیشہ متنفر اور بدمذہبوں سے ہمیشہ دور رہی۔

 

دس بارہ سالوں سے یہ دیکھنے اور سننے میں آ رہا ہے کہ بہت سے علمائے اہل سنت وجماعت اعتقادی مسائل کی جانب متوجہ نہیں۔وہ قوم کو محض فضائل اعمال بتاتے ہیں,جب کہ وہابیہ دیابنہ اہل سنت وجماعت کے عقائد ومعمولات پر حملے کرتے ہیں,اہل سنت وجماعت کو ایک بدعتی فرقہ ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں اور سنی محررین ومقررین بدمذہبوں کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا جواب نہیں دیتے۔

 

بدمذہبوں کی تحریر وتقریر سے عوام الناس کے دلوں میں جو شبہات پیدا ہو جاتے ہیں,وہ رفتہ رفتہ پختہ ہو جاتے ہیں۔ایسی صورت میں بہت سے عوام اہل حق اور اہل باطل سب کو اپنی اپنی جگہ پر درست سمجھنے لگتے ہیں اور بعض لوگ بدمذہب بھی بن جاتے ہیں۔

 

بدمذہبیت کا رد وابطال بھی ہونا چاہئے اور فضائل اعمال کا بیان بھی وقت کا ایک اہم تقاضا ہے۔رد وابطال کے مختلف اسلوب ہیں۔سامعین وقارئین کے احوال وکوائف کو پیش نظر اور ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تحفظ دین ومسلک کی تدبیر اپنائی جائے۔

 

سب سے تعجب خیز اور افسوس ناک مرحلہ یہ ہے کہ دیابنہ اور وہابیہ سنی مسلمانوں کو بدعتی ثابت کرنے کی پرزور کوشش کرتے ہیں اور دوسری جانب سنی کہلانے والے بعض لوگ مرتدین کو بھی غیر مرتد ثابت کرنے کے واسطے تاویل گڑھتے ہیں۔

 

مسلمانان اہل سنت وجماعت سے عرض ہے کہ غلط افکار ونظریات سے پرہیز کریں۔کسی کا منہ دیکھ کر خود کو غلط راہ پر نہ ڈالیں۔ہر شخص کو قیامت میں اپنے عقائد واعمال کا حساب دینا ہے۔وہاں یہ عذر قابل قبول نہیں ہو گا کہ لوگ جیسا کہتے تھے,ویسا ہی میں بھی کہتا تھا۔اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ جس طرح لوگ جہنم رسید ہوں گے,ویسے ہی آپ کو بھی جہنم رسید ہونا پڑے گا۔

 

یہ ایک نیک مشورہ ہے۔ان شاء اللہ تعالی ہم بدمذہبوں کا رد وبطلان بھی کریں گے اور داخلی مسائل کی تصحیح بھی کریں گے۔جسے اللہ تعالی توفیق عطا فرمائے گا,وہ راہ حق پر رہے گا۔

 

یہ بالکل واضح ہے کہ سواد اعظم بفضل الہی حق پر رہے گا۔سواد اعظم سے عددی اکثریت ہی مراد ہے,یعنی اہل حق ہر عہد میں تمام کلمہ گو طبقات سے کثیر التعداد ہو گا۔عددی اکثریت کا تعین ہر عہد میں کل جہاں کی کلمہ خواں جماعتوں کے اعتبار سے ہو گا۔بالفرض کسی ملک کے کچھ مسلمان کفر وضلالت میں مبتلا ہو گئے تو اسی ملک یا دیگر ممالک میں دوسروں کو مذہب حق قبول کرنے کی توفیق عطا ہو گی,تاکہ جماعت حقہ ہمیشہ کثیر التعداد رہے۔

 

طارق انور مصباحی

 

جاری کردہ:یکم اپریل 2022