أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ ۞

ترجمہ:

پس اے جن اور انس ! تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے ؟

” فبای الاء ربکما تکذبان “ کے مخاطبین

پھر فرمایا : پس اے جن و انس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے ؟۔

اس آیت میں انسانوں اور جنات سے خطاب ہے، اگرچہ اس سورت میں پہلے جنات کا ذکر ہے : لیکن قرآن مجید کی اور سورتوں میں جنات کا ذکر آچکا ہے، اور پورا قرآن مجید کتاب واحد ہے اور آیت کے کے بعد جنات کا ذکر ہے ’ٖ ’ الرحمن 33) اور ” ثقلان “ سے مراد جن اور انس ہیں۔ اسی طرح اس کے بعد کی آیت ہے : (الرحمن 33) نیز جن اور انس دونوں مکلّف ہیں اور پورے قرآن میں مکفین سے خطاب ہے۔ نیز علامہ زمحشری متوفی 538 ھ نے ” الکشاف “ ج 4 ص 444 میں امام رازی متوفی 606 ھ نے تفسیر کبیر “ ج 10 ص 346 میں اور علامہ آلوسی متوفی 1270 ھ نے ” روح المعانی “ جز 27 ص 159 میں لکھا ہے۔ اس آیت سے پہلے فرمایا ہے : (الرحمن 10) اور ” انام “ کا لفظ جن اور انس دونوں کو شامل ہے۔

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کے پاس گئے اور ان کے سامنے شروع سے آخر تک سورة الرحمن پڑھی، صحابہ خاموش رہے، آپ نے فرمایا : میں نے جنات سے ملاقات کی اور تب یہ سورت جنات پر پڑھی تھی، انہوں نے تم سے اچھا جواب دیا تھا، جب بھی پڑھتا :

” پس اے جنات اور انسانوں کے گروہ۔ تم اپنے رب کی کون کون نعمتوں کو جھٹلائو گئے۔

تو وہ کہتے : اے ہمارے رب ! ہم تیری نعمتوں میں کسی چیز کو نہیں جھٹلائیں گے، پس تیرے لئے حمد ہے : (سنن ترمذی رقم الحدیث 329، المستدرک ج 2 ص 472، دلائل النبوۃ ج 2 ص 232)

” آلائ “ کا معنی اور ” الائ “ ” النعمائ “ کا فرق

(القاموس ص 1260، تاج العروج ج 10 ص 21 لسان العرب ج 1 ص 143، النہیا ج 1 ص 64 خ مختار الصحاح ص 27)

حدیث میں ہے، حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

اللہ کی نعمتوں میں غورو فکر کرو، اور اللہ کی ذات میں غورو فکر نہ کرو۔

(المعجم الاوسط رقم الحدیث، مجمع الزوائد ج 1 ص 81 الکامال لا بن عدی ج 7 ص 2556، الاحادیث الصحیحۃ للا لبانی رقم الحدیث 1788)

علامہ میر سید شریف علی بن محمد الجرجانی المتوفی 816 ھ لکھتے ہیں۔

جس چیز کے ساتھ بغیر غرض اور بغیر عوض کے احسان کرنے اور نفع پہنچانے کا قصد کیا جائے اس کو نعمت کہتے ہیں :

(کتاب التعریفات ص 168، دارالفکر بیروت 1418 ھ)

علامہ ابو اللیث نصر بن محمد سمر قندی حنفی متوفی 375 ھ لکھتے ہیں :

بعض علماء نے کہا ہے کہ ” الاء اللہ “ اور نعماء اللہ “ دونوں ایک ہیں مگر ” الاء ‘ عام نعمت ہیں اور ” نعماء “ خاص نعمتیں ہیں اور یہ بھی کہا تا ہے کہ ” الائ “ سے مراد نعمت ظاہرہ ہے اور وہ توحید ہے اور ” نعمائ “ سے مراد نعمت باطنہ ہے اور وہ معرفت قلب ہے :

قرآن مجید میں ہے :

اس نے تم کو اپنی تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں عطا کی ہیں۔ (القمان :20)

(تفسیر السمرقندی، بحراعلوم ج 3 ص 305، دارالکتب العلمیہ بیروت 1413 ھ)

ظاہری اور باطنی نعمتوں کا فرق اور ان کی تفاصیل

ظاہری اور باطنی نعمتوں کی تفصیل حسب ذیل ہے :

1 حضرت ابن عباس (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ظاہری اور باطنی نعمتوں کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا : ظاہری نعمت اسلام ہے اور باطنی نعمت یہ ہے کہ الہ سبحانہ نے تمہاری بد اعمالیوں پر پردہ رکھا ہوا ہے۔

2 ظاہری نعمت صحت اور تندرستی اور انسان کے محاسن اخلاق ہیں اور باطنی نعمت معرفت اور عقل ہے۔

3 محاسبی نے کہا : ظاہر نعمت دنیاوی نعمتیں ہیں اور باطنی نعمت اخروی نعمتیں ہیں۔

4 ظاہری نعمت وہ ہے جو آنکھوں سے نظر آتی ہے مثلا انسان کا مال اور منصب اور مرتبہ، اس کا حسن و جمال اور عبادت اور اطاعت کی توفیق اور باطنی نعمت انسان کے دل و دماغ میں اللہ تعالیٰ کا علم اور اس پر حسن یقین اور اللہ تعالیٰ کے بندوں سے مصائب اور آفات کو دور کرنا ہے۔

5 مجاہد اور وکیع نے کہا : ظاہری نعمت فصاحت و بلاغت سے شیریں لہجے میں ہنستے مسکراتے ہوئے کلام کرنا ہے اور باطنی نعمت دل کا صاف اور پاک ہونا ہے۔

6 نقاش نے کہا : ظاہری نعمت خوبصورت اور عمدہ لباس ہے اور باطنی نعمت گھر میں ضرورت اور آسائش کی چیزیں ہیں۔

7 ظاہری نعمت اولاد ہے اور باطنی نعمت نیک اور باعمل شاگرد ہے، یا دینی تصانیف ہیں۔

8 ظاہری نعمتیں وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے خود اس کو عطا کی ہیں اور باطنی نعمتیں وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس کی اولاد کو عطاء کی ہیں۔

9 ظاہری نعمت اس کا علم ہے اور وہ عبادات ہیں جو وہ ظاہراً کرتا ہے اور باطنی نعمت اس کا عرفان ہے اور اس کی وہ عبادات ہیں جو وہ لوگوں سے چھپ کر کرتا ہے۔

10 ظاہری نعمت اس کی سلطنت اور اس کا اقتدار ہے اور باطنی نعمت اس کا اللہ تعالیٰ کی طرف افتقار ہے۔

(النکت و العیون ج 4 ص 242-243، الجامع الاحکام القرآن جز 14 ص 69 ملخصا و مزید اوموضحا)

امام ابو اسحاق احمد بن محمد الثعلبی النیشاپوری متوفی 427 ھ لکھتے ہیں :

ظاہری نعمت عبادات کی توفیق ہے اور باطنی نعمت اخلاص اور دکھاوے سے محفوظ رہنا ہے، ظاہری نعمت زبان سے ذکر کرنا ہے اور باطنی نعمت دل سے ذکر کرنا ہے ظاہری نعمت قرآن کی تلاوت کرنا ہے اور باطنی نعمت قرآن کی معرفت ہے ظاہری نعمت دن کی روشنی ہے جس میں انسان کسب معاش کرتا ہے اور باطنی نعمت رات کا اندھیرا ہے جس میں وہ آرام کرتا ہے اور سکون سے سوتا ہے ظاہری نعمت زبان سے کلام کرنا ہے اور باطنی نعمت عقل سے تدبر کرنا ہے ماں کے پیٹ سے نکلنے کے بعد جو چیزیں ملیں وہ ظاہری نعمت ہے اور ماں کے پیٹ میں جو غذا اور دوسری چیزیں ملیں وہ باطنی نعمت ہے، ظاہری نعمت شہادت ناطقہ ہے اور باطنی نعمت سعادت سابقہ ہے ظاہری نعمت گوناگوں عطائیں اور باطنی نعمت گناہوں کو معاف کرنا ہے ظاہری نعمت مشقت کا بوجھ کم کرنا ہے اور مرتبہ بلند کرنا ہے اور باطنی نعمت سینہ کھول دینا ہے ظاہری نعمت فتوحات عطاء کرنا ہے اور باطنی نعمت مخالفین کو شکست دینا ہے ظاہری نعمت مال اور اولاد ہے اور باطنی نعمت ہدایت اور ارشاد ہے ظاہری نعمت درست بات کہنا ہے اور باطنی نعمت درست کام کرنا ہے ظاہری نعمت وہ امراض و مصائب ہیں جن کو اللہ سبحنہ گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے اور باطنی نعمت دنیا اور آخرت میں اللہ عزوجل کا گناہوں پر مواخذہ کرنا ہے ظاہری نعمت بندوں کے ساتھ نسبی اور سسرالی تعلق ہے اور باطنی نعمت اللہ عزوجل کے ساتھ سحری کے اوقات میں دعا اور مناجات کا تقرب ہے ظاہری نعمت کامل مسلمانوں کا دنیا پر غلبہ اور تفوق ہے جس کا اس آیت میں ذکر ہے :

اور تم ہی (دنیا) پر غالب اور فائق ہوگئے۔ بہ شرطی کہ تم (کامل) مومن ہو۔ ( آل عمران :139)

اور باطنی نعمت نیکیوں میں سبقت کرنے والے مسلمانوں کا اللہ سبحانہ سے وہ خاص قرب ہے، جس کا اس آیت میں ذکر فرمایا ہے :

اور (نیکیوں) میں سبقت کرنے والے (درجات میں) سبق کرنے والے ہیں۔ وہی لوگ (اللہ کا) قریب حاصل کئے ہوئے ہیں۔ (الواقعہ :10-11)

(الکشف و البیان ج 7 ص 32، ملخصا و موضحا داراحیاء التراث العربی بیروت 1422 ھ )

یہ اللہ سبحانہ کی عطا کی ہوئی چند ظاہری اور باطنی نعمتوں کا ذکر ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کی ظاہری اور باطنی نعمتیں ” لاتعدو لاتحصیٰ “ ہیں اور حدود شمار سے باہر ہیں۔

” الا لاء “ اور النعماء “ دونوں مترادف ہیں اور ان میں ظاہری اور باطنی نعمتوں کا فرق کرنا صحیح نہیں

نیز علامہ سمر قندی حنفی متوفی 375 ھ لکھتے ہیں

بعض علماء نے کہا ہے ” الا لائ “ کا معنی ہے : نعمتوں پہنچانا اور ” النعمائ “ کا معنی ہے : مصائب کا دور کرنا، اس کی مثال یہ ہے کہ اگر کسی کا ہاتھ لنجا (شل) ہو تو اس کو ” الا لائ “ تو حاصل ہے مگر ” النعمائ “ حاصل نہیں ہے اسی طرح گونگے کی زبان ہے، اسی طرح وہ آدمی ہے جس کو عرق النساء یا گھٹیا ہو یا جو شخص عنینین (نامرد) ہو ان سب کو ” الا لائ “ تو حاصل ہیں لیکن ” النعمائ “ حاصل نہیں ہیں اور اکثر مفسرین نے ” الا لائ “ اور ” النعمائ “ میں فرق نہیں کیا اور اس صورت میں یہ لکھا ہے کہ مصائب کو دور کرنا اور نعمت کو پہنچانا دونوں ” الا لائ “ ہیں۔

(تفسیر السمر قندی، بحرالعلوم ج 3 ص 305-306 دارالکتب العلمیہ، بیروت 1413 ھ)

میں کہتا ہوں کہ کتب لغت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ ” الا لائ “ اور ” النعمائ “ مترادف ہیں کیونکہ کتب لغت میں ” الا لائ “ کا معنی مطلقاً نعمت بیان کیا ہے اور اس کو ظاہری نعمت یا باطنی نعمت کے ساتھ مقید نہیں کیا، اسی طرح ” سنن ترمذی “ کی حدیث میں ہے کہ جنات نے ” فبای الاء ربکما تکذبان “ سن کر کہا : اے ہمارے رب ! ہم تیری کسی نعمت کا انکار نہیں کرتے اور انہوں نے نعمت ظاہری نعمت یا باطنی نعمت کے ساتھ مقید نہیں کیا، اس سے معلوم ہوا کہ ” الا لائ “ کا لفظ ظاہری نعمتوں اور باطنی نعمتوں دونوں کو شامل ہے، نیز اس سورت میں بھی اس پر دلیل ہے کیونکہ دنیا کی نعمتیں ظاہری نعمت ہیں اور آخرت کی نعمتیں باطنی نعمت ہیں اور اس سورت میں دنیا کی نعمتوں کے بعد بھی ” فبای الاء ربکما تکذبان “ کا ذکر ہے اور آخرت کی نعمتوں کے بعد بھی ” فبای الاء ربکما تکذبان “ کا ذکر ہے، دنیا کی نعمتوں کے بعد اس کے ذکر کی مثال یہ ہے۔

ان دو سمندروں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں۔ سو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے۔ (الرحمن :22-23)

موتی اور مونگے دنیا کی نعمتیں ہیں اور ظاہری نعمتیں ہیں اور باطنی نعمتوں کے بعد اس کے ذکر کی مثال یہ ہے :

اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اس کے لئے دو جنتیں۔ سو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے۔ (الرحمن :46-47)

اس آیت میں جنت کے ذکر کے بعد ” الائ “ کا ذکر ہے اور جنت آخرت کی نعمت ہے اور باطنی نعمت ہے، سو اس سورت میں ظاہری اور باطنی دونوں نعمتوں پر ” الائ “ کا اطلاق کیا گیا ہے، پس لغت، حدیث اور آیات قرآن ہر طریقہ سے واضح ہوگیا ہے کہ ” الائ “ کا لفظ ظاہری اور باطنی دونوں نعمتوں کو شامل ہے اور جن علماء نے یہ کہا ہے کہ ” الائ “ کا معنی ظاہری نعمتیں ہیں اور ” النعمائ “ کا معنی باطنی نعمتیں ہی، ، ان کا قول غلط اور بال ہے۔

” فبای الاء ربکما تکذبان “ کو 31 بار مکرر ذکر کرنے میں کوئی حکمت ہے یا نہیں ؟

اس سورت میں ” فبای الاء ربکما تکذبان “ کا 31 مربہ ذکر فرمایا ہے اور بار بار اس آیت کو ذکر کرنے کا فائدہ اس آیت کے معنی کو ذہنوں میں راسخ کرنا اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے، کیونکہ جو چیز اہم ہوتی ہے اس کا بار بار ذکر کر کے اس کی تاکید کی جای ہے اور جس چیز کے ذکر میں لذت ہو اس کا بھی بار بار ذکر کیا جاتا ہے اور رب کی نعمتوں کے ذکر سے مسلمانوں کو لذت حاصل ہوتی ہے اس لئے اس کا بار بار ذکر فرمایا، باقی رہا یہ سوال کہ اس کو خاص 31 بار کیوں ذکر فرمای، اس سے کم یا زیادہ بار کیوں ذکر نہیں فرمایا ؟ تو یہ اعداد توقیفی ہیں، اس لئے اس خاص عدد کی حکمت اور اس کے فائدہ کو جاننے کے لئے سر کھپانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، جیسے قرآن مجید کی ایک سو چودہ سورتیں ہیں اس سے کم یا زیادہ کیوں نہیں ہیں ؟ اس کی توجیہ میں دماغ لڑانے اور دور دراز کی مناسبتوں اور توجیہات کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

امام رازی لکھتے ہیں، قرآن مجید میں ہے :

اور اللہ نے میوے اور خودرو گھاس پیدا کی۔ ( عبس :31)

” ابَّ “ کے متعدد معانی ہیں، اس سے پہلی آیات میں زیتوں کا اور کھجور کا درخت کا ذکر ہے اور اس آیت میں پھل کا ذکر ہے۔ اس کے بعد ” ابَّ “ کا ذکر بہ ظاہر غیر مناسب معلوم ہوتا ہے حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ہم ان الفاظ کے معانی جانتے ہیں، پھر اپنی لاٹھی اٹھا کر فرمایا : اللہ کی قسم ! یہ تکلیف ہے، اور اے عمر ! اگر تمہیں معلوم نہیں کہ ” الابَّ “ کیا چیز ہے تو کوئی حرج نہیں ہے، جس چیز کا قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے اس کی اتباع کرو اور جس چیز کا بیان نہیں کیا گیا اس کو چھوڑ دو ۔

(تفسیر کبیرج 10 ص 348، داراحیاء التراث العربی، بیروت 1415 ھ)

اسی طرز پر حضرت عمر کی اتباع کرتے ہوئے میں کہتا ہوں کہ قرآن مجید میں 31 بار ” فبای الاء ربکما تکذبان “ کا ذکر ہے اور اکتیس بار ذکر کرنے کی توجیہ نہیں بیان کی، سو ہمیں بھی اس کی توجیہ اور اس کی تعداد کی وجہ تلاش کرنے کے درپے نہیں ہونا چاہیے، تاہم بعض علماء نے اس تعداد کی وجہ بھی بیان کی ہے، خود امام رازی نے بھی اس کی تین وجہیں بیان کی ہیں لیکن وہ اس قدر واضح اور عام فہم نہیں ہیں، سب سیزیادہ آسان اور واضح توجیہ علامہ اسماعیل حقی متوفی 1137 ھ نے بیان کی ہیں، ہم اس کو یہاں ذکر کررہے ہیں :

علامہ اسماعیل حقی فرماتے ہیں : ” برھان القرآن “ میں مذکور ہے کہ اس آیت کا 31 مرتبہ ذکر فرمایا ہے، ان میں سے آٹھ آیات وہ ہیں جو ان آیات کے بعد ذکر کی گئی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی عجیب و غریب مخلوق اور بغیر سابقہ مثال کے اس کی تخلیق اور اس کی مخحلوق کی ابتداء اور انتہا کو بیان کیا گیا ہے، پھر سات آیات کو ان آیتوں کے بعد بیان فرمایا ہے، جن میں دوزخ کے عذاب اور اس کی ہولناکیوں کا بیان ہے کیونکہ دوزخ کے دروازے بھی سات ہیں اور ان آیتوں کے بعد ” الائ “ کا ذکر اس لئے مستحسن ہے کیونکہ دوزخ کے خوف میں بھی نعمت ہے کیونکہ انسان دوزخ کے خوف سے گناہوں کو ترک کرتا ہے اور دوزخ اس لئے بھی نعمت ہے کہ دوزخ سے مسلمانوں کے دشمنوں کو عذاب دیا جائے گا اور اس کو بہت بڑی نعمت میں شمار کیا جاتا ہے اور ان سات آیات کے بعد آٹھ مرتبہ اس آیت کو ان آیات کے بعد ذکر فرمایا جن آیات میں جنت کی صفات کا ذکر ہے، کیونکہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں اس کے بعد اس آیت کا مزید آٹھ بار ذکر فرمایا ہے کہ دو جنتیں اور ہیں پس جو شخص پہلی آٹھ آیتوں پر ایمان لائے اور ان میں مذکور نعمتوں کا شکر ادا کرے اور پھر دوسری بار ان آیات کے تقاضوں پر عمل کرے جو جنت کی صفات میں ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کو دو جنتیں عطا فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ اس کو ان سات آیات میں ذکر کئے ہوئے دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھے گا (روح البیان ج 9 ص 346-347، داراحیاء التراث العربی بیروت 1421 ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 55 الرحمن آیت نمبر 13