أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ ۞

ترجمہ:

سو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے

پھر فرمایا : (الرحمن 16) یعنی اے انسانو ! اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا اور جنات ! تم کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک نفس سے پیدا کیا، پس تم دونوں اس نعمت کا کیسے انکار کرسکتے ہو کہ یہ نعمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے اور ان دونوں کا ایک ایک نفس سے پیدا کرنا اس لئے نعمت ہے کہ اس میں یہ بتایا ہے کہ انسانوں اور جنات کی اتنی عظیم کثرت وحدت کی طرف رجوع کرتی ہے، اسی طرح ہر کثرت کی انتہائی وحد پر ہوتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی ودانیت پر بہت واضح دلیل ہے اور یہ تمام مکفلین پر اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدت پر ایمان لا کر دوزخ کے خلود سے نجات حاصل کریں اور جنت کی دائمی نعمتوں کے امیدوار بنیں۔

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ مقصود توبہ تھا کہ انسان کے اوپر نعمتوں کو گنوایا جائے پھر جنات کی تخلیق کے ذکر کی کیا ضرورت تھی ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ” فبای الاء ربکما تکذبان “ میں انسانوں اور جنات دونوں سے خطاب ہے اور اس میں دونوں پر اپنی نعمتیں گنوانا مطلوب ہے دوسرا جواب یہ ہے کہ ان آیتوں میں یہ بتایا ہے کہ انسان کی اصل میلی اور کثیف ہے یعنی مٹی اور جن کی اصل صاف اور لطیف ہے، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جنات پر فضلیت دی تو یہ فضلیت انسان کی کسی ذاتی خصوصیت کی بناء پر نہیں ہے، محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کی وجہ سے ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 55 الرحمن آیت نمبر 16