وَلِمَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ ۞- سورۃ نمبر 55 الرحمن آیت نمبر 46
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلِمَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ ۞
ترجمہ:
اور جو اپنے رب کے سامنے حاضر ہونے سے ڈرتا ہو اس کے لئے دو جنتیں ہیں
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جو اپنے رب کے سامنے حاضر ہونے سے ڈرتا ہو اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔ سو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گی۔ جو سرسبز شاخوں والی دو جنتیں ہیں۔ سو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گی۔ ان جنتوں میں دو چشمے بہہ رہے ہیں۔ سو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گی۔ ان جنتوں میں ہر پھل کی دو قسمیں ہیں۔ سو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گی۔ متقین ایسے بستروں پر تکیے لگائے ہوئے ہوں گے جن پر استرنفیس دبیز ریشم کے ہوں گے اور دونوں جنتوں کے پھل جھکے ہوئے قریب ہوں گے۔ سو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گی۔ ان جنتوں میں نیچی نظر رکھنے والی بیویاں ہوں گی جن کو ان متقین سے پہلے کسی انسان نے ہاتھ نہیں لگا اور نہ کسی جن نے۔ سو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گی۔ گویا کہ وہ یاقوت اور مونگا ہیں۔ سو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گی۔ نیکی کا بدلہ صرف نیکی ہے۔ سو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گی۔ (الرحمن 46-61)
” ولمن خاف مقام ربہ “ کا شان نزول اور اس بشارت کا ہر مومن کے لئے عام ہونا
اس سے پہلی آیات میں فساق، فجار اور کفار کو قیامت کی ہولناکیوں اور دوزخ کا عذاب سے ڈرایا تھا اور اس رکوع کی آیات مومنین اور صالحین کے لئے آخرت میں جو جنت کی نعمتیں تیار کی ہوئی ہیں ان کا تذکرہ فرمایا ہے۔
الرحمن :46 کا معنی یہ ہے کہ جو شخص اپنے رب کے سامنے پیش ہونے سے ڈرا اور ڈر کر اس نے گناہ ترک کردیا تو اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔
مجاہد اور ابراہیم نخعی نے کہا : اس سے مراد وہ شخص ہے جس نے خواہش نفس سے مغلوب ہو کر گناہ کا ارادہ کیا، پھر اس کو اللہ تعالیٰ یاد آیا اور اس نے اس کے خوف سے گناہ ترک کردیا۔
اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا : اگر میں جنتی نہ ہوں تو تجھ کو طلاق ہے، تو اگر اس نے اس سے پہلے کبھی زندگی میں گناہ کا ارادہ کیا تھا، پھر اس کو حیا آئی اور اس نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے اس گناہ کو ترک کردیا تھا تو اس کی بیوی کو طلاق نہیں ہوگی۔
اس کو جو دو جنتیں ملیں گی تو ایک جنگ اپنے رب سے ڈرنے کی وجہ سے ملے گی اور ایک جنت اپنی شہوت کے تقاضے سے گناہ کو ترک کرنے کی وجہ سے ملے گی۔
ضحاک نے کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق کے متعلق نازل ہوئی ہے، ایک دن انہوں نے سخت پیاس میں دودھ پیا، جو ان کو بہت اچھا لگا، انہوں نے اس کے متعلق سوال کیا تو معلوم ہوا کہ وہ دودھ حلال نہیں تھا، تو پھر انہوں نے اس دودھ کی قے کردی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو دیکھ رہے تھے، آپ نے فرمایا : اللہ تم پر رحم فرمائے، تمہارے متعلق یہ آیت نازل ہوئی، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی (النکت و العیون ج 5 ص 437، دارالکتب العلمیہ، بیروت، الجامع الاحکام القران جز 27 ص 161 دارالفکر، بیروت)
حضرت ابو الدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منبر پر فرمایا : (الرحمن :46) میں نے کہا : یا رسول اللہ ! خواہ اس نے زنا کیا ہو، خواہ چوری کی ہو ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ولمن خاف مقام ربہ جنتان “ (جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا اس کے لئے دو جنتیں ہیں) میں نے کہا : یا رسول اللہ خواہ اس نے زنا کیا ہو، خواہ چوری کی ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیسری بار فرمایا : ولمن خاف مقام ربہ جنتان “ میں نے کہا : یا رسول اللہ خواہ اس نے زنا کیا ہو، خواہ چوری کی ہو ؟ آپ نے فرمایا : ہاں : ابوالدرداء کی ناک کو خاک آلودہ کرتے ہوئے (اس حدیث کی سند صحیح ہے، شعیب الا رئوط، حاشیہ مسند احمد رقم الحدیث 8683) مسند احمد ج 2 ص 375، طبع قدیم، مسند احمد ج 14 ص 311-312، رقم الحدیث 8683، موسستہ الرسالۃ بیروت 1417 ھ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث 11560، شرح السنۃ رقم الحدیث 4189 النستہ لابن ابی عاصم رقم الحدیث 975 مشکل الاآثار رقم الحدیث 4000 مجمع الزوائد ج 7 ص 117 جامع البیان رقم الحدیث 25613، الکشف و البیان ج 9 ص 189، الدرا المعغورج 7 ص 623، روح المعانی جز 27 ص 178، تفسیر امام ابن ابنی حاتم رقم الحدیث 18742، تفسیر ابن کثیرج 4 ص 304)
دوجنتوں کے مصداق میں احادیث اور آثار
حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دو جنتیں چاندی کی ہیں، ان کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے چاندی کا ہے اور دو جنتیں سونے کی ہیں ان کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے سونے کا ہے ان کے اور ان کے رب کے دکھنے کے درمیان جنت عدن میں صرف اس کے چہرے پر کبریا کی چادر حائل ہے۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث :4878، صحیح مسلم رقم الحدیث 180 سنن ترمذی رقم الحدیث 2528، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 186 سنن کبریٰ للنسائی رقم الحدیث 7765، سنن دارمی رقم الحدیث 2525)
امام مقاتل بن سلیمان بلخی متوفی 150 ھ لکھتے ہیں۔
ان دو جنتوں سے مراد جنت عدن اور جنت نعیم ہے اور یہ صدیقین، شہداء، مقربین، سابقین کے لئے ہیں اور اس شخص کے لئے ہیں جس نے گناہ کا ارادہ کیا پھر اس نے اللہ عزوجل کے سامنے پیش ہونے کو یاد کیا پھر اللہ سے ڈرا اور گناہ کو ترک کردیا۔ سو اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ یہ دو جنتیں کیا ہیں ؟ صحابہ کہا : اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں کہ دو دو جنتیں کیا ہیں، آپ نے فرمایا، وہ جنت کے وسط میں دو باغ ہیں، ہر باغ نور کے گھروں میں سے ایک گھر میں ہے، ان میں سے ہر باغ نعمت سے معمور ہے اس کے درخت اگے ہوئے ہیں، اس کے پتے سرسبز ہیں۔ ( تفسیر مقاتل بن سلیمان ج 3 ص 308، دارالکتب العلمیہ، بیروت 1424 ھ)
علامہ علی بن محمد الماوردی المتوفی 450 ھ لکھتے ہیں۔ ان دو جنتوں کے متعلق حسب ذیل اقوال ہیں۔
1 مجاہد نے کہا : ایک جنت انسانی کی ہے اور ایک جنت جنات کی ہے۔
2 مقاتل نے کہا : ایک جنت عدن ہے اور ایک جنت نعیم ہے۔
3 عیاض بن تمیم نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، وہ جنت کے باغات میں سے دو باغ ہیں۔
4 ایک جنت میں اس کا گھر ہے اور دوسری جنت میں اس کی ازدواج اور اس کے خدام کا گھر ہے۔
5 ایک جنت اس کا مسکن ہے اور دوسری جنت اس کا باغ ہے۔ (الکنت و العیون ج 5 ص 438 دارالکتب العلمیہ، بیروت)
ان دو جنتوں کے مصداق میں صحیح وہ قول ہے جس کو ہم نے ” صحیح بخاری “ اور صحیح مسلم “ کے حوالے سے ارشاد رسالت بیان کیا ہے۔
زیر تفسیر آیت کے شان نزول میں ایک ضعیف روایت
علامہ سید محمود آلوسی متوفی 1270 ھ لکھتے ہیں
امام ابن ابی حاتم اور امام ابو الشیخ نے عطاء سے روایت کی کیا ہے کہ ایک دن حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے قیامت، میزان، جنت، دوزخ، صفوف ملائکہ، آسمانوں کے لپیٹے جانے، روئی کے گالوں کی طرح پہاڑوں کے اڑنے، سورج کے لپیٹے جانے اور ستاروں کے بنے نور ہونے کے متعلق غور و فکر کیا تو کہا : کاش : میں سرسبز چارہ ہوتا اور کوئی جانور مجھے کھا لیتا اور میں پیدا نہ کیا جاتا تو یہ آیت نازل ہوگئی :
(روح المعانی جز 27 ص 179، دارالفکر بیروت 1417 ھ الدرالمعثور ج 7 ص 622)
مطبوعہ ” تفسیر امام ابن ابی حاتم “ میں یہ حدیث مذکور نہیں ہے، البتہ امام ابو الشیخ الاصبہانی المتوفی 396 ھ نے اس کو روایت کیا ہے۔
کتاب العظمۃ ص 35 رقم الحدیث 54، دارالکتب العلمیہ بیروت 1414 ھ لیکن اس حدیث کی سند بہت ضعیف ہے، اس کا ایک راوی ہے : کنانہ بن جبلہ، ابن معین نے کہا : وہ کاذب ہے : السعدی نے کہا : شدید ضعیف ہے، (میزان الاعتدال ج 3 ص 415) دراصل علامہ آلوسی نے ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ کے حوالے ” الدرالمثور “ سے اٹھائے اور اپنی عادت کے مطابق حافظ سیوطی کا نام لئے بغیر ان کو نقل کردیا اور اصل کتابوں کی طرف مراجعت نہیں کی اور ہمارے زمانے کے علماء ان کو خاتم المحققین کے لقب سے ذکر کرتے ہیں۔
اللہ سے نہ ڈرنے والوں کے لئے لمحہ فکریہ
اور یہ بھی سوچنا چاہیے کہ انسان اپنے بچوں، اپنے شاگردوں، مریدوں اور اپنے ماتحت لوگوں کے سامنے بےحیائی کے اور برے کام نہیں کرتا اور جب تنہا ہو اور صرف اللہ دیکھ رہا ہو تو وہ بےحیائی اور برائی کے کاموں سے باز نہیں آتا تو کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوگا کہ اس کے دل میں اللہ کا اتنا خوف بھی نہیں ہے جتنا اپنے ماتحت لوگوں اور چھوٹوں کا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
تم لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ہی ڈرو۔ (المائدۃ :44)
اور یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ اگر اس نے لوگوں کے ڈر سے برے کام چھوڑ بھی دیئے تو وہ اس کو کوئی انعام نہیں دیں گے، جبکہ اللہ کے ڈر سے اس نے گناہ اور برے کام چھوڑ دیئے تو اللہ نے اس سے بہت بڑے انعام کا وعدہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا، اور اس نے اپنے نفس (امارہ) کو (اس کی) خواہش سے روکا۔ تو بیشک جنت ہی اس کا ٹھکانہ ہی۔ (النازعات :40-41)
نیز فرمایا :
اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔ (الرحمن 46)
خوفِ خدا سے مرنے والے نوجوان کو دو جنتیں عطا فرمانا
امام ابو القاسم علی بن الحسن بن عسا کر متوفی 571 ھ روایت کرتے ہیں
یحییٰ بن ایوب الخزاعی بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا کہ حضرت عمر بن الخطاب کے زمانہ میں ایک عبادت گزار نوجوان تھا، جس نے مسجد کو لازم کرلیا تھا، حضرت عمر اس سے بہت خوش تھے، اس کا ایک بوڑھا باپ تھا، وہ عشاء کی نماز پڑھ کر اپنے باپ کی طرف لوٹ آتا تھا، اس کے راستہ میں ایک عورت کا دروازہ تھا، وہ اس پر فریقہ ہوگئی تھی، وہ اس کے راستہ میں کھڑی ہوجاتی تھی ایک رات وہ اس کے پاس سے گزارا تو وہ اس کو مسلسل بہکاتی رہی حتی کہ وہ اس کے ساتھ چلا گیا، جب وہ اس کے گھر کے دروازہ پر پہنچا تو وہ بھی داخل ہوگئی، اس نوجوان نے اللہ کو یاد کرنا شروع کردیا اور اس کی زبان پر یہ آیت جاری ہوگئی۔
بے شک جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں انہیں اگر شیطان کی طرف سے کوئی خیال چھو بھی جاتا ہے تو وہ خبردار ہوجاتے ہیں اور اسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔
پھر وہ نوجوان بےہوش کر گرگیا ، اس عورت نے اپنی باندی کو بلایا اور دونوں نے مل کر اس نوجوان کو اٹھایا اور اسے اس کے گھر کے دروازے پر چھوڑ آئیں اس کے گھر والے اسے اٹھا کر گھر میں لے گئے کافی رات گزرنے کے بعد وہ نوجوان ہوش میں آیا، اس کے باپ نے پوچھا : اے بیٹے تمہیں کیا ہوا تھا ؟ اس نے کہا : خیر ہے، باپ نے پھر پوچھا تو اس نے پورا واقعہ سنایا۔ باپ نے پوچھا، اے بیٹے ! تم نے کون سی آیت پڑھی تھی ؟ تو اس نے اس آیت کو دہرایا جو اس نے پڑھی تھی اور پھر بےہوش ہو کر گرگیا ، گھر والوں نے اس کو ہلایا جلایا لیکن وہ مرچکا تھا، انہوں نے اس کو غسل دیا اور لے جا کر دفن کردیا، صبح ہوئی تو اس بات کی خبر حضرت عمر (رض) تک پہنچی۔ صبح کو حضرت عمر اس کے والد کے پاس تعزیت کے لئے آئے اور فرمایا : تم نے مجھے خبر کیوں نہیں دی ؟ اس کے باپ نے کہا : رات کا وقت تھا، حضرت عمر نے فرمایا : ہمیں اس کی قبر کی طرف لے چلو، پھر حضرت عمر اور ان کے اصحاب اس کی قبر پر گئے، حضرت عمر نے کہا : اے نوجون ! جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں ؟ تو اس نوجوان نے قبر کے اندر سے جواب دیا : اے عمر ! مجھے میرے رب عزوجل نے جنت میں دو بار دو جنتیں عطا فرمائی ہیں۔ (مختصر تاریخ دمشق ترجمہ عمرو بن جامع رقم الحدیث :114، ج 19 ص 191-190، مطبوعہ دارالفکر، بیروت)
حافظ ابن عسا کر کے حوالہ سے اس حدیث کو حافظ ابن کثیر متوفی 774 ھ، حافظ جلال الدین سیوطی متوفی 911 ھ اور امام علی متقی ہندی متوفی 975 ھ نے بھی ذکر کیا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر الاعراف رقم الحدیث 201 ۔ ج 3 ص 269، طبع دارالاندلس، بیروت شرح الصدورص 13، طبع دارالکتب العلمیہ بیروت 1404 ھ کنزالعمال رقم الحدیث 4634)
حافظ ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی 458 ھ نے اپنی سند کے ساتھ اس حدیث کو اختصاراً روایت کیا ہے۔
حسن بصری بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب کے زمانہ میں ایک نوجوان نے عبادت اور مسجد کو لازم کرلیا تھا، ایک عورت اس پر عاشق ہوگئی، وہ اس کے پاس خلوت میں آئی اور اس سے باتیں کیں، اس کے دل میں بھی اس کے متعلق خیال آیا پھر اس نے ایک چیخ ماری اور بےہوش ہوگیا اس کا چچا آیا اور اس کو اٹھا کرلے گیا جب اس کو ہوش آیا تو اس نے کہا : اے چچا : حضرت عمر کے پاس جائیں، ان سے میرا سلام کہیں اور پوچھیں کہ جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرے اس کی کیا جزا ہے ؟ اس کا چچا حضرت عمر کے پاس گیا، اس نے نوجوان نے پھر چیخ ماری اور جاں بحق ہوگیا۔ حضرت عمر (رض) اس کے پاس کھڑے ہوئے اور کہا : تمہارے لئے دو جنتیں ہیں، تمہارے لئے دو جنتیں ہیں۔
(شعب الایمان ج 1 ص 468-469، رقم الحدیث 736، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت 1410 ھ)
امام بیہقی کے حوالے سے اس حدیث کو حافظ سیوطی متوفی 911 ھ امام علی متقی ہندی متوفی 975 ھ اور علامہ آلوسی متوفی 1270 ھ نے بھی ذکر کیا ہے۔
(الدرالمثورج 6 ص 147 طبع قدیم، ج 7 ص 708 طبع جدید دارالفکر کنز العمال رقم الحدیث 4635، روح المعانی ج 27 ص 116)
حافظ ابن عسا کرنے جو حدیث تفصیلاً روایت کی ہے اس پر حافظ ابن کثیر نے بھی اعتماد کیا ہے اور اس کو اپنی تفسیر میں درج کیا ہے اور اس حدیث سے حسب ذیل امور ثابت ہوتے ہیں۔
1 گناہ کی ترغیب کے موقع پر اللہ کو یاد کر کے اس کے خوف سے گناہ کو ترک کردینا دو جنتوں کے حصول کا سبب ہے۔
2 نیک مسلمان اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں سے بہرہ اندوز ہوتے ہیں۔
3 نیک مسلمانوں اور اولیاء اللہ کی قبروں کی زیارت کے لئے جانا حضرت عمر (رض) کی سنت ہے
4 کسی فوت شدہ مسلمان کی تعزیت کے لئے اس کے والدین اور اعزہ کے پاس جانا حضرت عمر کا طریقہ ہے۔
5 صاحب قبر سے کلام کرنا اور صاحب قبر کا جواب دینا، اس حدیث سے یہ دونوں امر ثابت ہیں۔
6 جن احادیث میں ہے کہ قبر والے ایسا جواب نہیں دیتے جن کو تم سن سکو، ان کا معنی یہ ہے کہ تم ان کا جواب عاۃ نہیں سن سکتے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 55 الرحمن آیت نمبر 46