حضرت عمر بن خطابؓ کا عمل ترک رفع الیدین پر تھا

 

امام طحاوی علیہ مشکل الاثار میںروایت کرتے ہیں :

 

حدثنا ابن أبي داود , قال: ثنا الحماني , قال: ثنا يحيى بن آدم , عن الحسن بن عياش , عن عبد الملك بن أبجر , عن الزبير بن عدي , عن إبراهيم , عن الأسود , قال: رأيت عمر بن الخطاب رضي الله عنه يرفع يديه في أول تكبيرة , ثم لا يعود , قال: ورأيت إبراهيم , والشعبي يفعلان ذلك ” قال أبو جعفر: فهذا عمر رضي الله عنه لم يكن يرفع يديه أيضا إلا في التكبيرة الأولى في هذا الحديث , وهو حديث صحيح لأن الحسن بن عياش , وإن كان هذا الحديث إنما دار عليه , فإنه ثقة حجة

امام ابراہیم نخعی اپنے شیخ اسود سے روایت کرتے ہیں :

وہ فرماتے ہیں میں نے حضرت عمر بن خطابؓ کو دیکھا کہ وہ شروع میں پہلی تکبیر میں رفع الیدین کرتے اسکے بعد پھر نہ کرتے، اور راوی کہتا ہے میں نے حضرت ابراہیم النخعی ، اور امام شعبی کو دیکھا وبھی ایسا عمل کرتےتھے (یعنی ترک رفع الیدین پر عمل)،

امام ابو جعفر الطحاوی علیہ رحمہ فرماتے ہیں : اور یہ حضرت عمرؓ ہیں اور یہ بھی سوائے شروع کے پھر رفع الیدین نہیں کرتےتھے اس حدیث کے مطابق ، اور یہ حدیث صحیح ہے حسن بن عیاش کے سبب ، اور اس حدیث کا مدار انہی پر ہے اور وہ ثقہ و حجت درجہ کے ہیں ۔

[مشکل الاثار للطحاوی ، برقم:1364]

 

امام اسود کا مختصر تعارف!

الأسود بن يزيد بن قيس أبو عمرو النخعي

الإمام، القدوة، أبو عمرو النخعي، الكوفي.

وقيل: يكنى: أبا عبد الرحمن.

وهو أخو عبد الرحمن بن يزيد، ووالد عبد الرحمن بن الأسود، وابن أخي علقمة بن قيس، وخال إبراهيم النخعي.

فهؤلاء أهل بيت من رؤوس العلم والعمل.

وكان الأسود مخضرما، أدرك الجاهلية والإسلام.

 

اسود بن یزید النخعی یہ عظیم القدر کوفی امام ہیں ،

اور کہا جاتا ہے انکی کنیت ابو عبد الرحمٰن تھی ، یہ امام عبد الرحمٰن بن یزید کے بھائی ہیں ، اور امام عبد الرحمٰن بن اسود کے والد ہیں ، اور یہ امام علقمہ کے چچا زاد بھائی ہیں ، اور امام حضرت ابراہیم النخعی کے ماموں ہیں ،

اور یہ سب گھرانہ سردار ہے علم ، عمل کا

اور یہ امام اسود قدیم الزمانہ تھے انہوں نے دور جہالت اور اسلام کا ادراق کیا ہے (یعنی نبی اکرمﷺ کی زندگی میں پیدا ہوئے تھے)

 

پھر آگے فرماتے ہیں :

وحدث عن: معاذ بن جبل، وبلال، وابن مسعود، وعائشة، وحذيفة بن اليمان، وطائفة سواهم.

انہوں ںے حضرت معاذ، حضرت بلال، حضرت ابن مسعود ، حضرت عائشہ ، حجعر ذیفہ اور جماعت صحابہؓ سے روایت کیا ہے

 

وروى عن: الصديق،عمر، وعلي،

انہوں نے حضرت ابو بکر، حضرت عمر و حضرت علی سے روایت کیا ہے

[سیر اعلام النبلاء برقم:13]

 

نیز انکے ساتھ امام ابراہیم النخعی، امام شعبی ، امام علقمہ ، امام اسماعیل بن عیاش اور انکے بھائی امام ابو بکر بن عیاش ، امام ابو اسحاق سبیعی ، اور انکے بقول حضرت ابن مسعود و حضرت علی اور انکے تمام اصحاب اور امام ابو اسحاق سبیعی ان سب کا بھی ترک رفع الیدین کا موقف تھا ۔

 

اور ان سے نچلے والے طبقات میں

 

امام ابو حنیفہ ،امام محمد بن جابر یمامی ، امام ابو یوسف ، امام سفیان ثوری ، امام سفیان بن عیینہ ، امام وکیع بن جراح ، امام محمد بن حسن وغیرہم کا عمل ترک پر تھا

البتہ امام ابن عیینہ کبھی کرتے کبھی نہ کرتے ،

 

ان سے نچلے طبقہ میں امام ابو اسحاق سبیعی کے پوتے امام اسحاق بن اسرائیل، امام ابن ابی عمران ، امام اسد بن عمرو، امام ابن ابی عمران امام ابو جعفر الطحاوی و امام ابو یعلی صاحب مسندکا بھی یہی مذہب تھا

 

اسکے علاوہ اس روایت کا شاہد بھی لا باس بہ سند سے امام ابی یعلی نے اپنی مسند میں بھی بیان کیا ہے حضرت عمر بن خطابؓ کے حوالےسے :

 

حدثنا إسحاق بن أبي إسرائيل، حدثنا محمد بن جابر، عن حماد، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله قال: «صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر فلم يرفعوا أيديهم إلا عند افتتاح الصلاة» وقد قال محمد: فلم يرفعوا أيديهم بعد التكبيرة الأولى

حضرت علقمہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ، حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر بن خطابؓ کے ساتھ نماز پڑھی وہ سوائے شروع کے پھر رفع الیدین نہیں کرتے تھے،

اور اسکے بعد امام محمد بن جابر کہتے ہیں تکبیر اولیٰ کے بعد رفع الیدین نہیں ہے (نماز میں )

[مسند ابی یعلی ، برقم: 5039]

 

(نوٹ: امام محمد بن جابر اس روایت کے مرکزی راوی ہیں اور وہ اس روایت کو بیان کرنے کے بعد خود اس روایت سے استدلال کرتے ترک رفع الیدین پر )

 

نیز اس روایت کو امام درقطنی جب روایت کرتے ہیں

حدثنا أبو عثمان سعيد بن محمد بن أحمد الحناط , وعبد الوهاب بن عيسى بن أبي حية قالا: نا إسحاق بن أبي إسرائيل , نا محمد بن جابر , عن حماد , عن إبراهيم , عن علقمة , عن عبد الله , قال: صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم ومع أبي بكر ومع عمر رضي الله عنهما فلم يرفعوا أيديهم إلا عند التكبيرة الأولى في افتتاح الصلاة “

 

اس روایت کو امام اسحاق بن اسرائیل (امام ابو اسحاق سبیعی کے پوتے) اپنے شیخ امام محمد بن جابر سے روایت کرنے کے بعد کہتے ہین اور ہم اس حدیث سے اپنی تمام نمازوں پر عمل کرتے ہیں

. قال إسحاق: به نأخذ في الصلاة كلها

[سنن دراقطنی ،برقم:1133 ]

 

یہی وجہ ہے کہ امام ابن ترکمانی فرماتے ہیں :

هذا شاهد جيد وهو ما اخرجه البيهقى من حديث محمد بن جابر (عن حماد بن ابى سليمان عن ابراهيم عن علقمة عن ابن مسعود صليت خلف النبي صلى الله عليه وسلم وابى بكر وعمر فلم يرفعوا ايديهم الا عند افتتاح الصلوة

[الجوهر النقي على سنن البيهقي]

اسد الطحاوی✍️