بھارت کا بدلتا منظرنامہ!!

غلام مصطفےٰ نعیمی

روشن مستقبل دہلی

پرنسپل دارالعلوم صدرالافاضل مرادآباد

 

ان دنوں وطن عزیز میں ہندو قوم پرستی کا آندھیاں زوروں پر ہیں۔طلاق ثلاثہ پر پابندی، بابری مسجد کو قبضانے اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کرنے کے بعد ہندتوا تنظیموں کا جوش اپنی انتہا پر ہے۔مسئلہ حجاب کے بعد مسلم تہذیب وآثار پر ہندوانہ تسلط کی کوششوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔حجاب کے بعد حلال گوشت پر ہنگامہ، شوبھا یاتراؤں کے بہانے مساجد پر حملے، مسلم آبادیوں میں فساد، گھروں کی مسماری اور اب تازہ تازہ تاریخی مساجد کو مندر قرار دے کر انہیں ختم کرنے کا کھلے عام اعلان کیا جارہا ہے۔پورے ملک میں ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے جہاں اسلام اور مسلمانوں سے وابستہ کسی بھی چیز کا وجود برداشت نہیں ہے۔

 

کھیل پرانا ہے_________

 

________یوں تو آزادی کے بعد ہی ہندو قوم پرستی کے احیا اور مسلم آثار وتہذیب پر ہندوانہ غلبے کی کوششیں شروع ہوگئی تھیں۔دفعہ 341 پر مذہبی قید لگا کر مسلمانوں کے کمزور طبقات کا ریزرویشن ختم کرنا اور بابری مسجد میں مورتیاں رکھ کر نماز پر پابندی اور پوجا شروع کرانا اس کی واضح مثالیں ہیں، لیکن یہ ساری کوششیں ایک تو حکومتی سطح پر خاموشی سے ہوئیں دوسرے اس دور کے لیڈران مسلم دشمنی کے باوجود بہ کمال عیاری خود کو مسلم خیر خواہ دکھانے میں کامیاب رہے، جس کی بنا پر حکومتی بدنیتی پر پردہ پڑا رہا اور عوام کا بڑا طبقہ ان ناانصافیوں کے خلاف اُنہیں کو مددگار سمجھتا رہا۔مسلم دشمنی کے یہ کارنامے اس وقت انجام دئے گیے جب سیکولرزم کے بابائے اعظم جواہر لعل نہرو ملک کے سیاہ وسفید کے مالک تھے۔اب جس شخص کے سیکولرزم پر مولانا آزاد، مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی جیسے پڑھے لکھے لوگ ایمان لائے ہوئے تھے اور جمیعۃ جیسی تنظیم ان کے اشارہ ابرو کی منتظر رہتی تھی وہاں عام مسلمان کے لیے نہرو کی پالیسیوں پر سوال اٹھانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔جو طبقہ سوال اٹھا سکتا تھا وہ یا تو یہاں سے ہجرت کر چکا تھا جو رہ گیے تھے وہ بکھرے ہوئے کل پرزوں کو سمیٹنے کی کوشش میں گوشہ نشین ہوچکے تھے۔اس لیے مسلمانان ہند بہ خوشی لٹتے رہے اور لوٹنے والوں کی درازی عمر کی دعا بھی کرتے رہے۔

 

______خطرے کی زد پر تاریخی مساجد

 

گذشتہ کئی ماہ سے ہندو شر پسند بھارت کی تاریخی مساجد اور مسلمانوں کے تعمیر کردہ اہم سیاحتی مقامات پر تنازع پیدا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔اس تنازع کی ابتدا بنارس میں واقع شاہی عالم گیری مسجد محلہ گیان واپی سے ہوئی۔مسجد کے متصل ہی ہندوؤں کے بھگوان وشوناتھ کا مندر ہے، اس لیے ہندو تنظیموں کا الزام ہے کہ مذکورہ مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی ہے۔اس معاملے کو لیکر کچھ لوگ بنارس سِوِل کورٹ میں گئے جہاں سے مسجد کے سروے کا حکم جاری ہوا۔دوران سروے مسجد کے وضو خانے میں بنے حوض کے فوارے کو “شِو لِنگ” قرار دے کر وضو خانہ پر پابندی لگا دی گئی۔مسلم فریق نے سپریم کورٹ میں عرضی لگا کر بنارس سول کورٹ میں دایر مقدمے کو خارج کرنے کی مانگ کی لیکن سپریم کورٹ نے کیس خارج کرنے کی بجائے بنارس ضلع جج کی کورٹ میں ریفر کردیا۔اس پورے ہنگامے میں یہ بات سب سے زیادہ قابل غور ہے کہ بھارت میں عبادت گاہ قانون 1991(Places of Worship (Special Provisions) Act, 1991) نافذ ہے جس میں اس بات کا التزام ہے کہ 15 اگست 1947 کو جس مذہبی جگہ کی جو حیثیت قائم تھی اسے کسی طور پر تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کسی عدالت میں انہیں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔قانون کی اتنی واضح ہدایت کے باوجود بھی ضلعی کچہریوں نے مذکورہ مساجد کے خلاف دایر عرضیوں کو قبول بھی کیا اور سروے کا حکم دے کر شرپسندوں کو نئی ہمت بھی عطا کی، کچہریوں کی اس روش نے شرپسندوں کو اتنا بے لگام کردیا ہے کہ اب وہ تاج محل، جمع مسجد دہلی اور خواجہ غریب نواز کے مزار پر بھی ہندو مندر ہونے کا دعوی کرنے لگے ہیں۔

 

_______مسجد کے نام کی وضاحت

 

ہندو فریق کا ایک بڑا پروپیگنڈہ یہ بھی ہے کہ مسجد کا نام گیان واپی مسجد ہے۔اسلام میں کسی مسجد کا نام سنسکرت میں نہیں رکھا گیا جس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مسجد اصلاً ایک مندر تھا۔

اس الزام کا جواب یہ ہے کہ مسجد کا اصل نام گیان واپی ہے ہی نہیں، مسجد کا اصل نام شاہی عالم گیری مسجد ہے۔گیان واپی محلے کا نام ہے، مفتی عبد الباطن نعمانی لکھتے ہیں:

“عام تاثر یہ ہے گیان واپی مسجد ہی کا نام ہے لیکن یہ تاثر غلط ہے۔”

(جامع مسجد گیان واپی تاریخ کے آئینے میں ص3)

 

اس طرح کے کئی حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد کا نام گیان واپی نہیں ہے اس لیے اہل اسلام کو چاہیے کہ وہ اپنی تحریر وگفتگو میں مسجد کا نام شاہی مسجد محلہ گیان واپی لکھیں اور بولیں تاکہ اغیار کے اس الزام کا جواب بھی ہوجائے اور مسجد کے اصل نام کی تشہیر بھی۔

 

__________آگے کیا ہوگا؟

 

مستقبل کا حال تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے لیکن اس وقت جو حالات بنے ہوئے ہیں اور حکومت کی شہ پر جس طرح کے داؤں پیچ کھیلے جارہے ہیں اس سے اس بات کا خدشہ بڑھ گیا ہے کہ بابری مسجد کی طرح شاہی عالم گیری مسجد محلہ گیان واپی بھی شہادت کی زد پر ہے۔جو کھیل بابری مسجد کے ساتھ کھیلا گیا تقریباً وہی کھیل شاہی مسجد کے ساتھ بھی کھیلا جارہا ہے۔بابری مسجد میں پہلے پہل مورتیاں رکھی گئی، اسی کی آڑ لیکر ضلع جج نے نماز پڑھنے پر پابندی لگا دی تھی، ٹھیک اسی طرح شاہی مسجد کے فوارے کو شو لنگ کہہ مسجد کے وضو خانے پر فوری پابندی لگا دی گئی۔وضو خانہ پر پابندی نمازوں پر پابندی کی پیش قدمی ہے، کیوں کہ جیسے ہی سول جج نے وضو خانہ سیل کرنے کا حکم دیا کہ ہندو فریق نے مفروضہ شولنگ پر پوجا کی اجازت دینے کے لیے عرضی دایر کردی۔بنارس میں فی الحال تو نماز جاری ہے لیکن کب تک جاری رہے گی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔فی الحال مسجد کا انتظام وانصرام دیکھنے والی انجمن انتظامیہ کمیٹی قانونی شاہی مسجد کی جانب سے پیروی کر رہی ہے،لیکن یہ معاملہ صرف بنارس یا انجمن انتظامیہ کمیٹی کا نہیں ہے بلکہ اس کے دور رس اثرات ہوں گے۔شدت پسند ملک کی دیگر مساجد ومدارس، مقبروں اور خانقاہوں پر بھی ایسے ہی جھوٹے پروپیگنڈے کرنے سے نہیں چوکیں گے۔اس لیے ملت اسلامیہ کو انجمن کمیٹی کی ہر طرح مدد کرنا چاہیے تاکہ شاہی مسجد ہی بلکہ دیگر مساجد ومقابر کو بھی ایسے فتنوں سے بچایا جاسکے۔

ایک اور بات اچھی طرح سمجھ لیں، بابری مسجد کی طرح اس معاملے پر سیاسی جماعتوں کا آلہ کار نہ بنیں اور نہ ہی انہیں اس مدعے کا سیاسی فائدہ اٹھانے دیں۔یہ معاملہ مومنانہ عزیمت کے ساتھ حل کرنے کی جد وجہد کریں۔کسی بھی فرد وادارے کے ساتھ بے جا وفاداری کے اظہار سے گریز کریں، عزت وحقوق خود داری وعزیمت سے ملتے ہیں اطاعت بے جا اور بزدلی سے نہیں۔

 

٢٥ شوال المکرم ١٤٤٣ھ

27 مئی 2022 بروز جمعہ