مریدینِ امیر اہلسنت اور مبلغینِ دعوت اسلامی کے نام اہم پیغام!

جب سے دینی ماحول میسر ہوا تو نمک حلالی کرتے ہوئے کبھی بھی محسنین کے خلاف بات گوارا نہ کی بلکہ جب بھی کوئی دعوت اسلامی کے خلاف بولتا تو ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ جایا کرتا.

اگلا لاکھ کہتا رہے کہ جناب میں اختلاف رکھتا ہوں مخالفت نہیں….

چند سالوں بعد ہم نے سوشل میڈیا کے ایک پلیٹ فارم ٹیلی گرام کو اپنایا وہاں الگ دنیا آباد تھی پاک و ہند کے علماء کے گروپس صبح وشام علمی مباحثےاور بعض گروپس میں مختلف فنون کا باقاعدہ طور پر درس و تدریس کا سلسلہ رہتا تھا ،
انہی گروپس میں سنیوں کی آپس میں اختلافی بحثیں بھی جاری رہتی تھیں
جس میں بارہا موضوع سخن دعوت اسلامی ہوا کرتی.

میں ان أبحاث میں کف ثوب کر کے چھلانگ لگا دیا کرتا تھا.
وہیں ہمارے ایک استاد محترم صوفی باصفا عالم باعمل مولانا سجاد مدنی گجراتی حفظہ اللہ بھی موجود ہوا کرتے تھے استاد صاحب کسی بھی نقد و تنقید بلکہ سخت بات کا جواب انتہائی خوش اخلاقی اور خوش اسلوبی سے چند لفظوں میں دے دیا کرتے تھے.

میں حیران رہ جاتا کہ یہ بھی ایک انداز ہے جس سے ہم نا آشنا ہیں استاد صاحب سے پرسنل میں گفتگو ہوتی تو اخلاق و آداب کا دامن تھامے رکھنے کا ہی درس دیتے نیز یہ بھی ارشاد فرماتے تھے کہ

بحث و مباحثے کا نتیجہ نکلے یہ ضروری نہیں اور اگلا مان جائے اس کو تو بھول ہی جائیں (مفہوما)

ہم نے یہی انداز اپنایا تو ایسے بہت سے سنی ہیروں سے دوستی ہوئی جو دعوت اسلامی سے شدید اختلاف رکھتے تھے لیکن تھے تو سنی…..

بارہا ایسا بھی ہوتا وہی اختلاف کرنے والے احباب قدم بہ قدم ساتھ مل کر صلح کلیت، بد مذہبیت کا رد کرتے تھے.

ایک بار علماء سے بھرے ایک گروپ میں ایک مفتی صاحب نے آنکھ میں ڈراپس ڈالنے سے روزہ ٹوتتا ہے یا نہیں کے متعلق دعوت اسلامی سے سخت اختلاف کیا تو میرے ایک مدنی دوست نے جوابا سخت لہجہ اپنایا وہیں پر قبلہ مفتی علی اصغر عطاری حفظہ اللہ بھی موجود تھے آپ نے بھری محفل میں ان بھائی کو نہ صرف ڈانٹا بلکہ ان مفتی صاحب سے معافی مانگنے کا کہا جس پر انہوں نے فورا عمل کیا

قبلہ مفتی صاحب نے فرمایا :حضرت آپ اپنا فتوی ارسال فرما دیجیے ہم اس کو بغور دیکھیں گے اگر ہماری غلطی ہوئی تو رجوع بھی کر لیں گے..
(میں نے وہ فتوی دیکھا تو چند جزئیات کے سوا کچھ نہ تھا یعنی یہ بھی کوئی تحقیق ہے؟ لیکن ہمارے بڑے تو بڑی سوچ اور ذہنیت والے ہیں…. ہم ٹھہرے ……… )

اسی عرصے کے دوران میری دوستی ہند کے کرناٹک شہر کے ایک راسخ فی العلوم مفتی صاحب سے ہوئی قبلہ مفتی صاحب علم میں جتنےپختہ تھے، مذہب میں اتنی ہی شدت تھی.

دعوت اسلامی کا تصویر کے مسئلہ میں خوب رد کرتے.

میں نے پرسنل میں ان سے پوچھا حضور جو علماء تصویر کو جائز کہتے ہیں ان پر کیا حکم شرعی ہو گا؟ خود فرمانے لگے کہ جب اختلاف آجائے تو حکم میں نرمی آجاتی ہے.
میرے دل نے کہا یہ صرف اختلاف رائے کا مسئلہ ہے داتی عناد نہیں اگر ہوتا تو نرمی کا نہ کہتے.

قبلہ مفتی صاحب سے میں نے عطاری اختری اختلافات، بحث و مباحثے اور سنیوں کے دعوت اسلامی پر اعتراض کے متعلق پوچھا کہ آخر مسئلہ کیا ہے جو لٹھ جوڑ کر سب شروع ہو جاتے پھر جب عطاری جواب دیتے تو انہیں برا بھلا کہا جاتا..

تو انہوں ایک بات مجھے کہی جو میرے دل میں تیر کی طرح پیوست ہو گئی

فرمانے لگے :

فرحان میاں آپ صرف مرید نہیں مبلغ بھی ہیں اگر تو مرید ہیں تو یہ راستہ وسیع ہے کوئی آپ کے پیر سے اختلاف کرے آپ اس سے ڈبل اختلاف کرے کوئی گالی دے آپ دگنی گالیاں دیں..
البتہ جب آپ خودکومبلغ کہتے ہیں تو مبلغ کے تقاضے اور ہوتے ہیں مبلغ میں تحمل، برداشت، خوش اخلاقی عاجزی کا پایا جانا ضروری ہے. اگرچہ کوئی جومرضی کہے یہی اس کا امتحان ہے.

میں نے جو باتیں سیکھی وہ درج ذیل ہیں:

سنی آپ سے اختلاف کریں تو دل کو بڑا کرتے ہوئے ان کا موقف سنا جائے اور ان کی تشفی کا سامان کیا جائے.

اگر کوئی سنی آپ کے دلائل سے مطمئن نہیں ہو رہا تو مزید بحث و مباحثے سے تعلق خراب کرنے کی بجائے خوش اسلوبی سے خاموشی اختیار کر لیجیے.

فقہی مسائل جن کا تعلق حرام حلال سے ہے ان میں اتحاد نہ ہو سکا؛ پھر تبلیغی آرا طور طریقوں اورمعاملات یا دیگر فنی بحثوں میں اختلاف کیسے ختم ہو سکتا ہے؟
کیونکہ آپ کی نظر سے وہ نہیں دیکھ پاتا اور اس کی نظر سے آپ نہیں دیکھ پاتے…

جیسے 6 اور 9 کا معاملہ ہوتا ہے تیسرے بندے کو تو پتا چل رہا ہوتا البتہ اپنی طرف والے کا دوسری طرف جا کر دیکھنا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا ہم سمجھتے ہیں.

اگر آپ کو لگتا کہ کوئی اختلاف کی بجائے بے جا مخالفت کر رہا تو یاد رکھیے آپ مبلغ ہیں اسی وجہ سے امیرِ اہلسنت بارہا ایک ہی بات ارشاد فرما چکے آپ جواب در جواب کی بجائے صرف اپنے کام میں مشغول رہیں اور حسن ظن بھی کسی چیز کا نام ہے جو مسلمان کے لیے انتہائی ضروری..

اسلامی بھائی پھر کس حکم کے تحت اختلاف یا مخالفت کرنے والے کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں. نہ امیر اہلسنت کی تربیت، نہ شوری کا حکم نہ ذمہ داران کو اجازت تو جناب کس کے اشارے پر ناچ رہے ہیں، اگر کسی کے اشارے پر نہیں تو یقیناً علم و فہم تربیت اور ظرف کی کمی ہے اس کی طرف توجہ دینی چاہیے.

میں نے جب یہ بات پلے باندھی تو مجھے اپنے سوہنے سنیوں میں سونے کے سوا کچھ نہ نظر آیا کہ ہمیں سونے سے غرض ہے اس کی میل نہیں….
میل کی وجہ سے سونے کو ترک کرنے والا احمق و بیوقوف ہوسکتا ہے.

کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ جناب یہاں اختلاف کی آڑ میں مخالفت موجود ہوتی ہے.

تو میں کہتا ہوں ایسا ممکن نہیں بلکہ واقع ہے اور بارہا ایسا ہی دیکھنے کو ملا ہے جتنا سمجھایا جائے سلجھایا جائے بعضوں کی نفرت اور حقارت ختم نہیں ہوتی تو اس کا سب سے بہتر حل ان کو ان کے حال پر چھوڑ کر اپنے کام میں مشغول ہونا ہی ہے. جب سوشل میڈیا وغیرہ پر ان کو بھاو دیا جاتا ہے تو بلاوجہ مشہوری کرائی جاتی ہے کہ بدنام ہو کر نام کمایا…

یاد رکھیے! آپ سچے مخلص ہوں البتہ آپ کا رویہ اور طریقہ جارحانہ ہو تو مقدمہ ماند پڑ جاتا ہے کہ جھوٹا بندہ جھوٹا رونا رو کر بھی خود سچا منوا لیتا ہے.

ہم سچے ہو کر میٹھے نہیں بن پاتے کیوں؟ سچ کڑوے کا مطلب بد اخلاق ہونا نہیں ہے..

مختصر یہی کہ اگر آپ مرید ہونے ساتھ مبلغ بھی ہیں تو سوہنے مرشد و یکتا رہنما کے تحت رہ کر کام کیجیے اختلاف رکھنے والوں سے محبت کیجیے اور مخالفت والوں کو چھوڑ دیجیے.

فرحان رفیق قادری عفی عنہ

12/7/2022