ٹرانس جیندڑ ایکٹ 2018 سے نافذ العمل ہے۔
اور
نہ جانے ایسے ہی کتنے غیراسلامی قوانین بڑی خاموشی سے بنائے جا چکے ہوں گے۔
اس قانون کا بھی عوام کو تب پتا چلا جب ایک “مذہبی سیاسی جماعت” کے ایک مشہور “مولوی” نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ اور اب بھی اس ایکٹ کے خلاف سب سے زیادہ آواز اٹھانے والے “مولوی” ہی ہیں ۔
ذیل میں سندھ اسمبلی میں اس ایکٹ کے خلاف پیش کی جانے والی قرار داد کرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے مولانا قاسم فخری صاحب ہیں ۔ ان “مولویوں” کے علاوہ کوئی ایک بھی شخص اس ایکٹ کے خلاف نہیں بولا ۔
اس کے باوجود
بعض لبرل سیاسی جماعتوں کے کارکنان مولا جٹ بنتے ہوئے “مولویوں” کو ہی للکارتے دکھائی دیتے ہیں کہ اس غیراسلامی قانون کے خلاف آپ آواز کیوں نہیں اٹھاتے۔۔۔ اپنے اپنے سیاسی بت کی ذہنی غلامی میں مبتلاء یہ لوگ یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ یہ قانون اسمبلی میں کس نے پیش کیا اور بھاری اکثریت سے کس نے پاس کروایا اور آج تک کون کون اس غیراسلامی قانون کے حق میں اپنے تئیں دلائل دے رہا ہے ؟؟؟
ان سب کاموں میں ان کے ممدوح ملوث ہیں جن کو ووٹ دیکر یہ لوگ اسمبلیوں میں اس مقام تک پہنچاتے ہیں کہ وہ ملک میں کسی بھی قسم کا غیراسلامی قانون پاس کروا سکیں !
یہ ذہنی غلامی اور ذاتی مفادات کے پجاری کبھی بھی اپنے سیاسی بت سے سوال نہیں کریں گے کہ اس نے اس غیر اسلامی قانون کی حمایت کیوں کی اسے پاس کیوں ہونے دیا ۔۔۔ہاں لٹھ لیکر مولویوں کے پیچھے ضرور پڑیں گے کہ تم نے اس کی مخالفت کیوں نہیں کی ۔۔۔۔ !!!
واللہ اعلم یہ لوگ سوچتے کون سے مقام سے ہیں ۔۔۔!!!

محمد إسحٰق قریشی ألسلطاني