*علامہ منشاء تابش قصوری … چند تعارفی کلمات*

اہلسنت کے مایہ ناز ادیب ‘ خطیب’ مصنف ‘ مترجم ‘ فارسی زبان و ادب کے نامور اساتذہ اور مصنف گُر شخصیت علامہ منشاء تابش قصوری بھی چل بسے.
انا للہ وانا الیہ راجعون…
آپ کی ولادت 1944ء میں ہری ہر ضلع قصور میں
میاں اللہ دین کے ہاں ہوئی۔ قرآن کریم گھر میں پڑھا، پرائمری تک تعلیم گاؤں کے سکول سے حاصل کی، گورنمنٹ ہائی اسکول گنڈا سنگھ والا سے 1956ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا. جمعہ کی نماز قصور کی مساجد میں جا کر ادا کرے تھے وہاں مولانا عمر اچھروی اور علامہ شریف نوری قصوری رحمۃ اللہ علیہما کے تقریریں سن کر دینی علوم حاصل کرنے کی طرف راغب ہوئے. میٹرک کے بعد
دارالعلوم حنفیہ فریدیہ بصیر پور اوکاڑہ میں چلے گئے اور علوم دینیہ پر دسترس حاصل کر کے 1963ء میں فارغ ہوئے. علم سے لگن کا یہ عالم تھا کے پورے تعلیمی عرصے میں صرف 17 چھٹیاں کیں. آپ فقیہ اعظم مولانا محمد نور اللہ نعیمی بصیر پوری رحمۃ اللہ علیہ کے لاڈلے شاگرد تھے. اپنے استاد محترم کے ساتھ 1971ء میں حج کے لیے گئے تو وہاں گنبد خضریٰ شریف کے سامنے بیٹھ کر دوبارہ آپ سے دورہ حدیث شریف پڑھا ‘ اور دستار فضیلت حاصل کی. شاعری میں مولانا ضیاءالقادری رحمۃ اللہ علیہ کی شاگردی اختیار کی .
1971ء میں شیخ الاسلام حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ اقدس پر سلسلہ چشتیہ میں بیعت ہوئے.
ایک لمبے عرصے تک آپ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور میں فارسی کی تدریس اور مریدکے کی جامع میں مسجد میں خطابت کے فرائض سر انجام دیتے رہے… وصال سے چند سال پہلے تدریس سے مستعفی ہوگئے. جامعہ حنفیہ فریدیہ بصیرپور کی انجمن حزب الرحمٰن کے ناظم اعلٰی کے منصب پر فائز رہے. جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور کے
شعبہ نشرو اشاعت کے ناظم بھی رہے. مرید کے میں مکتبہ اشرفیہ قائم کیا جس نے دینی و مسلکی لٹریچر کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا.
زمانہ طالب علمی سے ہی پاک و ہند کی مشہور شخصیات کے ساتھ آپ کی خط و کتابت جاری رہی. دارالعلوم فیض الرسول براؤن شریف انڈیا کو آپ نے ہی تجویز دی کہ یہاں سے “ماہانہ فیض الرسول” جاری ہونا چاہیے ‘ جسے انتظامیہ نے قبول کیا اور آج بھی یہ ماہانہ دین و مسلک کی
گراں قدر خدمات سرانجام دے رہا ہے.
آپ پاکستانی مطبوعات ہندوستانی دوستوں کو بھجوا کر وہاں ان کی اشاعت کی ترغیب دیتےتھے اور ہندوستانی مطبوعات منگوا کر پاکستانی اداروں کو اشاعت کے لیے فراہم کرتے تھے. رئیس التحریر علامہ ارشد القادری رحمۃ اللہ علیہ کی معرکۃ الآراء کتاب “زلزلہ” آپ کے ذریعے ہی پاکستان پہنچ کر شائع ہوئی. مرکزی مجلس رضا لاہور اور رضا اکیڈمی لاہور کے ساتھ آپ کا تصنیفی تعاون جاری رہا.
1974 میں مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی عبدالقیوم ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ ناظم اعلیٰ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ‘ علامہ عبدالحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ ‘ مولانا جعفر قادری اور آپ نے مل کر مکتبہ قادریہ لاہور کا آغاز کیا. یہ چاروں افراد ماہانہ پچاس روپے فنڈ دیتےاور جو رقم جمع ہوتی اس سے کوئی رسالہ یا کتاب شائع کر دیتے. باہمی اشتراک و تعاون کا یہ سلسلہ سالہا سال تک جاری رہا اور متعدد اہم کتب منظر عام پر آئیں جن میں
باغئ ہندوستان ‘ یاد اعلٰی حضرت ‘ اغثنی یارسول اللہ ‘ تذکرہ اکابر اہلسنت ‘ تعارف علماء اہل سنت ‘ مرأۃ التصانیف ‘ نغمہ توحید اور تاریخ تناولیاں شامل ہیں .
رضا فائڈیشن لاہور سے جب مفتی عبدالقیوم ہزاروی صاحب نے اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے فتاوٰی رضویہ شریف کو نئے انداز میں
تحقیق و تخریج کے ساتھ شائع کرنے کا منصوبہ بنایا تو اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے جس انتظامیہ کمیٹی نے کام کیا اس میں آپ کی محنت بھی غیرمعمولی اہمیت کی حامل تھی.
آپ کئی بلند پایہ کتب کے مصنف و مترجم بھی تھے جن میں محمد نور ‘ انوار امام اعظم ‘ تذکرۃ الصدیق ‘راہ عمل ‘انوار الصیام’ گنج شکر ‘اظہار حقیقت ‘دعوت فکر ‘اغثنی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘ سیدنا ابو طالب ‘ گلزار رحمانی وغیرہ شامل ہیں .
بطور خاص آپ کی کتاب “دعوت فکر ” برصغیر میں سنی دیوبندی اختلاف کو سمجھنے میں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں ‘ اس کا اسلوب اتنا پُرکشش ہے کہ جب بھی اٹھائی مکمل کئے بغیر چھوڑنے کو جی نہیں چاہا. درجنوں
فارسی و عربی کتب کی تراجم اور رسائل و جرائد میں شائع شدہ سینکڑوں مضامین بھی آپ کی طرف سے امت کے لیے قیمتی تحفہ ہیں.
تحریری میدان میں آپ کا ایک اہم اور دلچسپ کام
“نشان منزل” کے نام سے وہ تعارفی پیش لفظ ہیں جو پاک و ہند کے سینکڑوں مصنفین کی کتب کے شروع میں کتاب و صاحبِ کتاب کے تعارف اور حوصلہ افزائی کے لئےآپ نے لکھا. آپ کی یہی حوصلہ افزائی نئے قلمکار کو آگے بڑھنے کا جذبہ فراہم کرتی تھی.حقیقت یہ ہے کہ آپ کی کاوشںوں سے سینکڑوں نئے مصنفین و مترجمین تیار ہوئے اور پاک و ہند میں تصنیفی و اشاعتی میدان میں ایک انقلاب بپا ہو گیا.
جوانی کی عمر میں ہی آپ میں دینی خدمت کا ولولہ دیکھ کر پیرزادہ اقبال احمد فاروقی صاحب نے لکھا تھا :
“آپ نوجوان علماء میں بڑے مخلص ‘ مستعد ‘ باعمل اور روشن دماغ عالمِ دین ہیں”.
(فاروقی ‘ اقبال احمد ‘ پیرزادہ’ تذکرہ علماء اہل سنت لاہور ‘ مکتبہ نبویہ لاہور ‘ 1988ء’ صفحہ 409)
آپ کے ہم مشن و ہم راز دوست علامہ عبدالحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ نے 1996 ء میں آپ کے متعلق لکھا تھا:
“علامہ محمد منشاء تابش قصوری زید لطفہ اپنی گوناگوں صفات کی بناء پر جواں سال علماء و فضلاء میں یکتا حیثیت کے حامل ہیں. وہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور میں شعبہ فارسی کے متخصص مدرس بھی ہیں اور مقبول عام خطیب بھی ہیں ‘ وہ صاحب طرز ادیب بھی ہیں اور شاعر بھی ہیں. قدرت نے انہیں حاضر دماغی اور
لطیف حسِ مزاح کا وافر حصہ عطا کیا ہے. جس محفل میں موجود ہوں اسے کشتِ زعفران بنا دینے کا ملکہ رکھتے ہیں. جب سے انہوں نے فارسی کلاس کو پڑھانا شروع کیا اس وقت سے طلباء کی تعداد میں سال بسال اضافہ ہے ہوا ہے ‘ یہاں تک کہ ان کی کلاس اسّی نوّے تک پہنچ جاتی ہے. وہ جامعہ کے واحد استاد ہیں جن کے شاگرد فارسی کے شعبے سے لے کر دورۂ حدیث تک ہر کلاس میں موجود ہوتے ہیں. طلباء ‘ احباب ‘ اساتذہ اور منتظمین سب کے ہاں مقبول بلکہ محبوب ہیں….تقریبًا چوتھائی صدی کے عرصۂ رفاقت میں میں نے انہیں سراپا اخلاص و للّٰہیت ‘ جفا کش ‘ وفا کیش ‘ پاک نظر اور پیکر استغناء پایا. اللہ تعالٰی اور اس کے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ان کے رگ و پے میں سرایت کئے ہوئے ہے. ملک و ملت کا گہرا درد رکھتے ہیں. بیدار مغز اور زبردست قوتِ فیصلہ کے مالک ہیں “.
(قادری ‘ عبدالحکیم شرف ‘ علامہ ‘ عظمتوں کے پاسباں ‘ الممتاز پبلی کیشنز لاہور ‘2000ء صفحہ 274)
آپ انتہائی خوش مزاج اور پاکیزہ اخلاق و کردار کے حامل اور مہمان نواز شخصیت تھے.کئی مرتبہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر تصنیفی رہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا. چند دنوں سے آپ کی بیماری کی خبریں آ رہی تھیں ‘ آج وصال کی خبر ملی تو آپ سے ملاقاتوں اور شفقتوں کے قیمتی لمحات یاد آ گئے. آپ کے دو صاحبزادے علامہ محمد مسعود اشرف اور محمد محمود احمد خدمتِ دین میں مصروف آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں. اللہ پاک آپ کی خدمات قبول فرمائے’ آپ کی کتب و تلامذہ کو آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنائے اور خطاؤں سے درگزر فرمائے.آمین .
تحریر : حافظ محمد تنویر قادری وٹالوی
خطیب: آستانہ عالیہ قادریہ قاسمیہ ڈھوڈا شریف گجرات
مہتمم : جامعہ صراط الاسلام پیرمولا وٹالہ آزاد کشمیر
فاضل دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف
..24.09.2022.