عورت اور مرد کی اسلامی تفریق

تحریر: محمد ریاض القادری، دہلی

انسانوں کو بنانے والے رب نے مرد کو عورت نہیں بنایا اور عورت کو مرد نہیں بنایا ۔۔ بلکہ ہر ایک کو الگ خوبیاں اور خامیاں ،کمزوریاں دیں۔ اسی لیے عورت مرد کے برابر نہیں ہو سکتی اسی طرح مرد بھی عورت کے برابر نہیں ہو سکتا ۔

برابر ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ دونوں زندگی گزارنے میں ایک دوسرے کے محتاج و ضرورت مند نہ ہوں۔

یعنی اگر مرد چاہیں تو اپنی دنیا الگ بسا لیں جس میں زندگی بسر کرنے کے لئے انہیں عورت کی بالکل ضرورت ہی نہ پڑے ۔۔

اسی طرح اگر عورت چاہیں اپنی دنیا الگ بسا لیں اور مردوں سے بے نیاز ہو جائیں۔۔

اگر ایسا ہو سکے۔۔ اور یہ دونوں مرد و عورت اپنی دنیا سو سال سے زیادہ چلا سکیں۔۔ بلکہ پچاس سال ہی بسر کرکے دکھا دیں تو میں مانوں کہ ہاں عورت ،مرد کے برابر ہے اور مرد ،عورت کے ہم پلہ !!! برابری کا مطلب ہوتا ہے اپنے آپ میں مستقل اور کامل ہونا۔۔ دوسرے کا محتاج نہ ہونا۔
کیوں کہ یقینا دونوں کو اللہ تعالیٰ نے الگ الگ کام کے لیے پیدا کیا ہے۔

کہاں ہیں برابری کا دعویٰ کرنے والے آؤ چیلنچ قبول کرکے دکھاؤ۔

اب آپ پوچھیں گے اور جاننے کی کوشش ضرور کریں گے۔۔ اس میں اسلامی نظریہ کیا ہے۔ تو سنیں۔

۔ اللہ جل مجدہ الکریم نے مرد کو الگ طاقت دی۔۔ اور عورت کو مختلف قوت۔۔ ایسا نہیں ہے دنیا صرف مردوں کے لیے بنائی اور عورتوں کو مرد کی خدمت کے واسطے پیدا کیا۔۔ حاشا وکلا ایسا بالکل نہیں۔۔ بلکہ حق یہ ہے کہ و ما خلقت الانس والجن الا لیعبدون ای لیعرفون۔۔ انسان اور جنات کے تمام افراد کو عبادت و معرفت خالق حقیقی کے لیے پیدا کیا۔۔

پھر یہ تفریق اور مرد ، عورت کا بٹوارہ کیوں ؟

اس کا قرآنی جواب وہی ہے جو سورہ بقرہ آیت ۱۸۷ میں ارشاد ہوا۔۔ ھن لباس لکم وأنتم لباس لھن
چونکہ انسان کی فطرت میں وحشت اور اکیلے پن سے ڈر ہے ۔۔ لہذا مرد عورت کی تسکین و سکون کا سبب ہے۔ وہیں عورت بھی بیکار اور لغو نہیں بلکہ وہ بھی مرد کے لیے راحت و آرام کا ذریعہ ہے۔۔ اور یہ دونوں اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے اس رب کی عبادت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔۔۔

اسلام برابری کا قائل نہیں بلکہ عدل و انصاف کا حامی و داعی ہے۔ چور نے دس ہزار روپے کی چوری کی تو برابری کا تقاضا تو بس یہی ہے نہ کہ وہ دس ہزار واپس کر دے۔۔ مگر اسلام ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا ہے۔۔ اسی طرح تمام مملکت جہان الگ سے جرمانہ لیتی، سزا دیتی، نظر آتی ہیں یہ برابری نہیں بلکہ عادلانہ نظام کا حصہ ہے۔۔۔

اسلام کہتا ہے کہ جس طرح مرد ہر ایک سے نوکری ، تجارت ، ہنر حاصل کرنے کے لیے دوسروں کے آگے جھکتا ہے۔۔ یہ عورت اس لائق نہیں۔۔ ورنہ اس کی مجبوریوں کا فائدہ ہوس پوری کرکے اٹھایا جائے گا۔۔ جیسا کہ آج کے مہذب معاشرے میں ظاہری طور پر موجود ہے۔۔

اس طرح یہ مرد گھر میں بچے پالنے لگے گا تو ہر چھوٹی بڑی بات پر غصہ کریگا اور بچوں کو پگاڑ دیگا۔۔ یہ اس کا میدان نہیں۔۔

عدل و انصاف یہ ہے کہ مرد اپنی ضروریات زندگی صحیح طور پر پوری کرنے کے لیے عورت کا محتاج ہو۔۔ اور عورت کے احسان کو اٹھائے۔ اور اسی طرح عورت اپنی زندگی بسر کرنے کے لیے ۔۔ مرد کے آگے چھکے۔
دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے اور نامکمل ہیں۔۔ اگر برابر مانا جاتا اور کسی کو کسی کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔۔ صرف مرد ہی نہیں عورت بھی مردوں کی محتاج ہیں۔

جب بات اس قدر طول و طویل کردی گئی ہے جبھی ہم نے بھی یہ تار کھینچ دئے ہیں۔۔۔

ورنہ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف ایک محبت و انسیت ، لگاؤ attachment کا معاملہ ہے اور کچھ نہیں۔

اچھا تو یہ بتائیں مرد ہی حاکم کیوں؟
حاکم کا مطلب ہے محکوم کی خدمت کرنے والا۔۔ اپنی رعایا کی تمام ضروریات کو پورا کرنے والا۔۔ چھوٹی سے چھوٹی بات کو سمجھنے اور اپنے تجربات کی روشنی میں درست کرنے والا۔۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سب جھمیلوں سے عورتوں کو آزادی بخشی اور مرد پر دباؤ ڈالا ، حکم دیا کہ ان کی ضروریات کو پورا کرو۔۔

اور دوسری بات یہ کہ عورت گھر کی ملکہ ہے اور مرد گھر سے باہر کا راجہ۔۔ ہاں باہر رہنے کے سبب مرد کے تجربات زیادہ ہوتے ہیں۔۔ جس کے جتنے مشاہدہ اتنے تجربات۔۔

مکان کہاں بنانا ہے کہاں نہیں۔۔
کاروبار کیا کرنا ہے کیا نہیں۔۔
بچے کی شادی کہاں کرنی ہے کہاں نہیں۔۔

اس طرح کی اور دوسری چیزیں تجربات پر منحصر ہیں۔
اور ہاں ایسا نہیں ہے کہ مرد ہی عقل کل ہے۔۔ وہی سب کچھ جانتا ہے عورت کچھ سمجھ ہی نہیں سکتی!!! مشورہ لیا جائے گا۔۔ سنت ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مشورہ فرماتے تھے۔۔۔ اگر عورت کوئی بات کہنا ۔۔ بتانا چاہے۔۔ تو بالکل کہ سکتی ہیں۔۔ مگر جس طرح ایک جنگل میں دو شیر نہیں ہو سکتے۔ ایک ملک میں دو قانون نہیں چل سکتے۔۔ ایک کورٹ میں دو جج الگ الگ فیصلہ نہیں دی سکتے۔۔ اسی طرح عورت اپنی بات مرد کو سمجھانے میں کامیاب ہو جائے یا مرد عورت کو ۔۔ مگر محبت و شفقت سے۔۔ یہی زندگی کی خوبصورتی ہے۔۔ کیوںکہ نقصان ہوگا تو دونوں کا ہوگا۔۔ فائدہ ہوگا تو بھی دونوں کا ہوگا۔

۔۔حاکم بنا دینے کا مطلب یہ نہیں کہ اسکی جان اور عزت کا مالک شوہر ہو گیا ہے ۔۔ اس کے احساسات و جذبات پر قابو کرنے کا اسے حق نہیں۔ اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو وہ دنیا اور آخرت کے خسارے میں ہے۔۔
الامان و الحفیظ
بس بات یہی ہے کہ رشتۂ نکاح محبت و شفقت کا شفاف آیینہ ہے۔ بلکہ احترام و احتیاط کا حسین استعارہ ہے۔۔ کہ کہیں میرا رفیق سفر میری اس ادا سے ناراض نہ ہو اٹھے۔۔

او مردو! یاد رکھو اس رب کو ۔۔ جس نے تمہیں حاکم بنایا قوت بخشی۔۔ وہ ایک ایک لمحے کا حساب لیگا اور یقناً لیگا۔۔ ہر نا انصافی۔ ہر ظلم و زیادتی اس دن تم اپنے منہ سے اگلو گے۔۔ اللہ سے ڈرو۔۔ اپنی عورتوں، بیویوں کے حقوق کے سلسلے میں۔۔ اس رب سے ڈرو۔۔ یہ رسول اللہ کی آخری وصیت تھی۔۔ اپنے ماتحتوں کے سلسلے میں اللہ کا خوف دل میں رکھو۔۔

او عورتوں!! میری بہنو!! ڈرو اس دن سے جب ایک ایک ادنی سی نعمت جسے تم خاطر میں نہیں لاتی۔۔ اس کا بھی حساب ہوگا۔۔ جو شکر کرتا ہے اللہ اسکی نعمت بڑھا دیتا ہے۔۔ اور ناشکری پر نعمت گھٹا بھی دیتا ہے۔

شوہر بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ایک ہے۔۔ جس طرح نیک بیوی اللہ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔۔

اللہم ربنا ۔۔ ھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرة أعين واجعلنا للمتقين إماماً