میرٹ کی دھجیاں اڑانے والوں کے نام:

‏کیا آپ کو کینیا کا رنر ایبل مطائی یاد ہے جو فنش لائن سے صرف چند فٹ کی دوری پر تھا لیکن سمجھ نہ پایا کہ وہ لائن کراس کر چکا یا نہیں، اور یہ سوچ کر رک گیا کہ اس نے ریس مکمل کر لی ہے۔ایک ہسپانوی رنر، ایوان فرنانڈیز، اس کے بالکل پیچھے تھا اور اسے احساس ہوا کہ کیا ہو رہا ہے۔ اس نے دوڑتے رہنے کے لیے کینیا کے رنر پر چیخنا شروع کر دیا، لیکن مطائی کو سمجھ نہیں آیا کیونکہ وہ ہسپانوی زبان نہیں جانتا تھا۔ فرنانڈیز نےپیچھے پہنچتے ہی مطائی کو فتح کی لائن سے آگے کی طرف دھکیل دیا اور یوں مطائی ریس جیت گیا

‏جب فرنانڈیز سے پوچھا گیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا، تو اس نے جواب دیا، “میرا خواب ہے کہ کسی دن ہم اسطرح کی اجتماعی زندگی گزاریں جہاں ہم جیتنے میں ایک دوسرے کا ساتھ دین اور مدد کریں۔” صحافی نے پھر پوچھا کہ فرنانڈیز نے کینیا کے رنر کو کیوں جیتنے دیا جس پر ایوان نے جواب دیا، “میں نے اسے جیتنے نہیں دیا، وہ جیتنے والا تھا، ریس اس کی تھی۔”

‏صحافی نے اصرار کیا، “لیکن آپ جیت سکتے تھے!” ایوان نے جواب دیا، “لیکن میری جیت کا کیا میرٹ ہوتا؟ اس تمغے میں کیا اعزاز ہوتا؟ میری ماں اس کے بارے میں کیا سوچتی؟”

‏اقدار نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں، تو ہم اپنے بچوں کو کیا اقدار سکھا رہے ہیں؟ آئیے ہم انہیں جیتنے کے غلط طریقے اور ذرائع نہ سکھائیں۔ اس کے بجائے، آئیے ہم مدد کرنے والے ہاتھ کی خوبصورتی اور انسانیت کو آگے بڑھائیں کیونکہ ایمانداری اور اخلاقیات وہی ہیں جو واقعی فتح کا باعث بنتے ہیں!