غوثِ پاک رضی اللہ عنہ کی ایک کرامت پر اعتراض کا جواب

اصلاح وہی اچھی ہوتی ہے جو اعتدال پر مبنی ہو، افراط و تفریط نقصان کا باعث ہوتی ہے۔

ایک مضمون ہماری نظر سے گزرا جس میں حضور پُرنور سیدنا غوث پاک قدس سرہ کی ایک کرامت کی تردید کی گئی، مضمون نگار کا لہجہ درشت تھا اور طرزِ استدلال میں خارجی فکر غالب تھی جس نے ہمیں یہ تحریر لکھنے پر مجبور کیا۔
اگر معاملہ صرف موقف دینے تک محدود ہوتا تو ہم صرفِ نظر کرلیتے کہ آئے روز ذہنی آوارگی میں مبتلا لوگ کوئی نہ کوئی موضوع اٹھاکر اصلاحِ امت پر لکھنا بولنا شروع کردیتے ہیں، ایسے خبط الفہم مُصلحین کا علاج نظر انداز ہی ہے۔
ہم نے مضمون نگار کے چند اقتباسات لیے ہیں جن کا جواب حاضر ہے، اکثر باتیں جو جہالت، تعصب اور مسلکِ اہلسنت کے معمولات پر بیوہ عورتوں کے رونے دھونے کی طرح ہیں، انہیں چھوڑ دیا ہے۔

اقتباس 1:
شمس و قمر کی حرکات خالص اللہ وحدہ لاشریک ہی کا اختیار ہیں اس میں کسی فرد کی مداخلت کسی طور بھی تسلیم کرنا عقیدہ توحید کے خلاف ہے۔ فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ۚ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْـبَانًا ۭذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ ۔

اقتباس 2:
غوث پاک تو کُجا، افضل البشر بعد الانبیاء بالتحقیق سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کا بھی یہ اختیار نہیں۔ ہاں، رسول اعظم ﷺ اللہ کی عطا سے مختارِ کُل ہیں، وہ چاہیں تو یہ بالکل ممکنات میں سے ہے۔

اقتباس 3:
آپ غوث پاک کو مختار کل ثابت کرنے کے لیے اپنے مسلک کے کسی امام، کسی شیخ طریقت کے مشاہدات اور اور کسی بزرگ کے خواب اور بشارتیں لے آئیں۔۔۔۔۔ لیکن محترم حضرات محققین، آپ کے یہ تمام دلائل ابھی سے رد کیے جاتے ہیں۔ یہ توحید خدواندی کا معاملہ ہے اور ہم اس رب وحدہ لاشریک کو سب سے بہتر جاننے والے نبیِ غیبِ دان ﷺ نے یہی بتایا ہے کہ چاند اور سورج پر اختیار اللہ ہی کا ہے۔

اقتباس 5:
اہل اللہ کے تصرف اور اللہ کی عطا سے ان کی مدد اور وسیلہ کی برکات سے انکار ممکن نہیں لیکن اب چاند تک کو گھسیٹ کا غوث پاک کے اختیار میں دے دینا شرک سے خاہو سکتا ہے۔

ان سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ
1۔ چاند، سورج کی حرکات پر خالص اللہ عزوجل کا اختیار ہے۔
2۔ رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی فرد کو اس میں مداخلت کا اختیار نہیں ہے۔
3۔ یہ توحید کا معاملہ ہے اور اولیائے کرام کے لئے اس میں تصرف کا قول شرک ہے۔
4۔ نبی کریم ﷺ نے بیان فرمایا ہے کہ چاند اور سورج پر اللہ ہی کا اختیار ہے۔
5۔ غوث پاک رضی اللہ عنہ کو مختارِ کل ثابت کرنے کے جتنے دلائل اماموں، پیروں، بزرگوں کے لائیں گے سب سننے دیکھنے سے پہلے ہی رد ہیں۔
————————————

اختلافی مسائل کا مطالعہ رکھنے والے احباب جانتے ہیں یہ بولی کس کتاب کی ہے۔ بہر حال جواب لیجئے:

جواب 1:
ہم اہلسنت کے نزدیک جو معاملہ اللہ عزوجل کے ساتھ خاص ہواُس میں ولی یا رسول کی تخصیص نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کے لئے بھی اُسے ثابت ماننا شرک ہوتا ہے۔

جواب 2:
اگر آپ کہیں کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے خصائص سے ہے تو خصوصیت کی دلیل دینا لازم ہے، لیکن خصوصیت کی دلیل پیش کرنے کے بعد حرکاتِ شمس و قمر کا اختیار کسی ولی کے لئے ثابت کرنا کم از کم شرک نہیں رہے گا۔

جواب 3:
اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
فَٱلْمُدَبِّرَٰتِ أَمْرًا (النازعات: 5) یعنی قسم ہے کائنات کا نظام چلانے والوں کی۔

امام بغوی (متوفی: 510 ھ) لکھتے ہیں:
فالمدبرات أمرا، قال ابن عباس: هم الملائكة وكلوا بأمور ۔
یعنی اللہ عزوجل کے مذکورہ فرمان سے متعلق حضرت ابن عباس فرماتے ہیں: وہ ملائکہ ہیں جنہیں امور پر موکل بنادیا گیا ہے۔
(معالم التنزیل المعروف تفسیر بغوی، جلد 5، صفحہ 205، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

امام فخر الدین رازی (متوفی: 606 ھ) لکھتے ہیں:
وأما قوله تعالى: فالمدبرات أمرا ففيه وجهان أحدهما: أن بسبب سيرها وحركتها يتميز بعض الأوقات عن بعض، فتظهر أوقات العبادات على ما قال تعالى: فسبحان الله حين تمسون وحين تصبحون وله الحمد [الروم: 17، 18] وقال: يسئلونك عن الأهلة قل هي مواقيت للناس والحج [البقرة: 189] وقال: لتعلموا عدد السنين والحساب [يونس: 5] ولأن بسبب حركة الشمس تختلف الفصول الأربعة، ويخلف بسبب اختلافها أحوال الناس في المعاش، فلا جرم أضيفت إليها هذه التدبيرات۔
یعنی اللہ عزوجل کے مذکورہ فرمان کی دو توجیہات ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے چاند، سورج اور تاروں کی سیر اور حرکت کے سبب بعض اوقات کی بعض اوقات سے تمییز ہوتی ہے، جس سے عبادات کے اوقات ظاہر ہوتے ہیں۔ اللہ عزوجل نے فرمایا: تو اللہ کی پاکی بیان کرو جب شام کرو اور جب صبح کرو اور اسی کے لئے حمد ہے۔ اور فرمایا: اے حبیب تم سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں، تم فرمادو، یہ لوگوں اور حج کے لئے وقت کی علامتیں ہیں۔ اور فرمایا: تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب جان لو۔ اور یہ تدبیرات اسلئے ہیں کہ حرکتِ شمس کے سبب چار موسم کا اختلاف پیدا ہوتا ہے اور اس اختلاف کے سبب معاشیات کے سلسلے میں لوگوں کے احوال بھی مختلف ہوتے ہیں۔ تو بلاشبہ ان تدبیرات کو سیر و حرکت شمس و قمر و نجوم کی طرف نسبت دے دی گئی۔
(مفاتیح الغیب المعروف تفسیر کبیر، جلد 31، صفحہ 31، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

امام رازی نے یہاں بیان کیا ہے کہ حرکتِ شمس و قمر و نجوم مدبرات یعنی فرشتے انجام دیتے ہیں جس میں کئی حکمتیں ہیں۔

علامہ عماد الدین ابن کثیر (متوفی: 774 ھ) لکھتے ہیں:
تدبر الأمر من السماء إلى الأرض۔
یعنی فرشتے آسمان سے لیکر زمین تک تدبیری امور سرانجام دیتے ہیں۔
(تفسیر ابن کثیر، جلد 8، صفحہ 315، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

مدبرات سے مراد فرشتے ہیں یہ جمہور کا قول ہے۔ لیکن تفسیر بیضاوی نے مضمون نگار کی بیان کردہ خالص توحید کا قلع قمع کردیا اور مدبرات کا ایک معنی ارواحِ اولیائے کرام کی طرف منتقل کیا ہے۔

علامہ ناصر الدین شیرازی بیضاوی (متوفی: 685 ھ) لکھتے ہیں:
أو صفات النفوس الفاضلة حال المفارقة فإنها تنزع عن الأبدان غرقاً أي نزعاً شديداً من إغراق النازع في القوس، وتنشط إلى عالم الملكوت وتسبح فيها فتسبق إلى حظائر القدس فتصير لشرفها وقوتها من المدبرات۔
یعنی یا یہ صفات (تدبیرِ امور) ارواح اولیاء کرام کی ہیں جب وہ اپنے پاک مبارک بدنوں سے انتقال فرماتی ہیں کہ جسم سے بقوت تمام جدا ہوکر عالم بالا کی طرف سبک خرامی اور دریائے ملکوت میں شناوری کرتیں اور حظیر ہائے حضرت قدس تک جلد رسائی پاتی ہیں پس اپنی بزرگی وطاقت کے باعث کاروبار عالم کے تدبیر کرنے والوں سے ہوجاتی ہیں۔
(نوار التنزیل المعروف تفسیر بیضاوی، جلد 5، صفحہ 282، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

حوالوں کی کثرت مطلوب نہیں اور نظر والوں کے لئے اتنے واضح ارشادات خالص توحید کا بھرم توڑنے کے لئے کافی ہیں۔ جمہور کے قول پر فرشتے چاند، سورج، تاروں کی حرکات پر موکل ہیں اور ان کے ذریعے یہ امور انجام پاتے ہیں اور ایک معنی ارواحِ اولیائے کرام لیا جائے تو بھی درست ہے۔

جواب 4:
ایک اور صاف شفاف تصریح ملاحظہ کیجئے۔
بعض مفسرین نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی نمازِ عصر یا عصر کے وقت میں ذکرِ الہی قضا ہوجانے پر لکھا ہے کہ انہوں نے مؤکلینِ شمس (سورج پر مقرر فرشتے) کو سورج لوٹانے کا حکم دیا۔ گو کہ اس میں مختلف اقوال ہیں مگر ایک تفسیر یہ بھی ہے۔
امام محی السنۃ البغوی (متوفی: 510 ھ) لکھتے ہیں:
وحكي عن علي أنه قال في معنى قوله: “ردوها علي” يقول سليمان بأمر الله عز وجل للملائكة الموكلين بالشمس: “ردوها علي” يعني: الشمس، فردوها عليه حتى صلى العصر في وقتها۔
یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حکایت منقول ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے اللہ عزوجل کے حکم سے سورج پر مقرر فرشتوں کو حکم دیا کہ سورج کو واپس لے آؤ تو ان فرشتوں نے سورج کو پلٹادیا یہاں تک کہ آپ نےوقت میں نمازِ عصر ادا کی۔
(معالم التنزیل المعروف تفسیر بغوی، جلد 7، صفحہ 90، دار طیبہ، ریاض)

دیکھئے سورج کی حرکات پر فرشتوں کا تصرف موجود ہے اور سلیمان علیہ السلام نے براہِ راست مؤکلینِ شمس کو حکم دیا کہ سورج پلٹا دو اور انہوں نے حکم کی تعمیل کی۔

جواب 5:
اب رہا یہ سوال کہ کیا ممکن ہے کہ چاند سورج دن و رات حضور غوث الثقلین قدس سرہ کی بارگاہ میں حاضری دیں اور طلوع و غروب کی اجازت چاہیں۔
تو جواباً عرض ہے کہ یہ بلکل ممکن ہے کیونکہ یہ کرامات کی قبیل سے ہے اور جب کرامت کا عموم ثابت ہو ، کتابوں میں روایات موجود ہوں تو اپنی من مانی اور ذہنی آوارگی کو ایک طرف رکھتے ہوئے اسے قبول کرلینا چاہئے۔
نیز سیدنا غوثِ پاک رضی اللہ عنہ قطب الاقطاب ہیں جو ولایتِ تکوینی کا سب سے بڑا منصب ہےاور قطبِ وقت کے ہاتھ میں عالم کے تمام امور ہوتے ہیں، یہ ایک الگ عنوان ہے جس پر کسی اور وقت گفتگو ہوگی۔
ہم نے یہاں کسی مسلکی امام یا پیر کے حوالے پیش نہیں کئے اور جن لوگوں کے ماتھے پر ایسی کرامات سن کر بَل آجاتے ہیں ان کے لئے ایک حوالہ پیش ہے۔
مولوی اشرف علی تھانوی (متوفی: 1362 ھ) نے بیان کیا ہے:
بعض علما نے کرامت کی قوت ایک خاص حد تک معین کی ہے اور جو امور نہایت عظیم ہیں جیسے بدون والد کے اولاد پیدا ہونا ، یا کسی جماد کا حیوان بن جانا، یا ملائکہ کا باتیں کرنا ، اس کا صدور کرامت سے ممتنع قرار دیا ہے مگر محققین کے نزدیک (کرامت) کی کوئی حد نہیں کیونکہ وہ فعل پیدا کیا ہوا اللہ تعالی کا ہے، صرف ولی کے ہاتھ پر اس کا ظہور ہوگیا ہے واسطے اظہار ِ کرامت و قرب و مقبولیت اس ولی کے۔ سو اللہ تعالی کی قدرت کی جب کوئی حد نہیں پھر کرامت محدود کیسے ہوسکتی ہے۔۔۔۔ البتہ جس خرقِ عادت کی نسبت نبی علیہ السلام کا ارشاد ہو کہ اس کا صدور مطلقا محال ہے وہ بطور کرامت کے سرزد نہیں ہوسکتے جیسے قرآن مجید کا مثل لانا۔
(اشرف الطریقہ فی الشریعۃ و الحقیقۃ المعروف شریعت و طریقت، صفحہ 379، قرآن گھر، دہلی)

یہاں تک کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ
سورج، چاند، ستاروں کی حرکات و سکنات اور سفری منازل کو صرف اللہ عزوجل کے اختیار میں کہہ کر عقیدۂ توحید کے خلاف کہنا غلط نظریہ ہے، بلکہ حق یہ ہے کہ اللہ عزوجل کے اختیار کو ان معمولی چیزوں میں محدود کردینا اللہ عزوجل کی معرفت سے کوسوں دور ہونے کی علامت ہے۔
ان امور کا انتظام نہ صرف فرشتے چلاتے ہیں بلکہ اللہ عزوجل کی عطا سے اولیائے کرام کے لئے یہ چیزیں مسخر ہونا کچھ بعید نہیں ہے۔

نیز ہمیں تلاش کرنے پر یہ حدیث شریف نہیں ملی جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ”چاند اور سورج پر اختیار اللہ ہی کا ہے۔“ حوالہ مطلوب ہے اور اگر محض جذبات میں رسول اللہ ﷺ کی جانب یہ قول منسوب کیا ہے تو ہم مضمون نگار کے لئے توبہ اور ہدایت کی دعا کرتے ہیں۔
—————————-
اقتباس 6:
برا ہو ان کذاب راویوں کا جنہوں نے غوث پاک سے متعلق روایات میں صراحتاً ایسے الفاظ کا انتخاب کیا جس سے تاثر ملتا ہے کہ یہ غوث پاک اپنی ذاتی اختیار اور قدرت سے سب کچھ کر رہے ہیں۔

اقتباس 7:
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لے کر سیدی شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمہ تک درمیانی مدت میں ایسے کوئی دعوے اور کرامات کسی صحابی تک سے نہ ثابت ہیں نہ ان سے متعلق ایسی کوئی روایات کہ کسی نے قم باذنی کہہ کر مردہ اٹھا دیا ہو، ہوا روک دی ہو، دریا بہا دیا ہو وغیرہ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی کرامات میں بھی اللہ ہی کا حکم اور اختیار نظر آتا ہے۔

اقتباس 8:
اس پوسٹ سے اہل سنت سے متعلق شکوک میں مبتلا طبقے کو بھی مناسب جواب مل جائے گا۔ اور پاکستان میں غوث پاک کی گستاخی کے چکر میں جاری فتنے کو روک لگانے میں مدد مل سکے گی۔ ان شاء اللہ عزوجل

مضمون نگار کے بقیہ تین اقتباسات کا جواب بشرطِ فرصت عرض کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ عزوجل

ابو محمد عارفین القادری
24 اپریل 2023 ء
عروس البلاد کراچی