امام المجتہد احمد بن حنبل علیہ رحمہ کا امام ابو حنیفہ رضی اللہ و امام محمد علیہ رحمہ کی کتب سے استفادہ اور منصب مجتہد مطلق پر فائز ہونا
تحقیق:اسد الطحاوی

امام احمد بن حنبل علیہ رحمہ پہلے ادوار میں امام ابو حنیفہ علیہ رحمہ و احناف سے متنفر تھے لیکن وہ بعد میں امام ابوحنیفہ اور امام محمد کی کتب کو جب باقائدہ مطالعہ میں لائے تو نہ صرف کتب فقہ سے استفادہ کیا بلکہ مسائل فقہ کے باب میں انکو حدیث کی طرح حفظ بھی کیا

جب امام احمد بن حنبل علیہ رحمہ شروعاتی دور میں فقہ و اجتہاد یعنی قیاس کو مطلق مکرہ سمجھتے تھے تو اس بنیاد پر انہوں نے بڑے بڑے ائمہ
جیسا کہ
▪︎امام مالک
▪︎امام شافعی
▪︎امام ابو حنیفہ و صاحبین
▪︎امام ابو ثور
▪︎امام سفیان ثوری پر نہ صرف نقد کرتے اجتہاد و قیاس کے حوالے سے بلکہ ان کو بدعتیوں میں شمار کرتے تھے جسکی تفصیل آگے آئے گی۔

ایسے ہی احناف کے ساتھ ساتھ انہوں نے دیگر مجتہدین جنکا اجتہاد و قیاس میں ایک مقام تھا انکا شدو مد سے رد کرتے تھے

سب سے پہلے احناف اور اسکے بعد دیگر فقھاء پر امام احمد کا نقد پیش کرتے ہیں اور امام احمد کے اقوال کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں :

●》سمعت أبي يقول أهل الرأي لا يروي عنهم الحديث
▪︎امام عبداللہ کہتےہیں کہ میں نے اپنے والد احمد بن حنبل سے سنا کہ اھل رائے سے حدیث بیان نہ کرو
[العلل ومعرفة الرجال: 1707]

اور ایک راوی جو انکے نزدیک حافظہ کے اعتبار سے بے غبار تھا لیکن اسکا مجلس ابی حنیفہ میں جانے کو معیوب سمجھتے تھے جیسا کہ انکا بیٹا روایت کرتا ہے :
●》وسألته عن إسحاق قال ما أرى به بأسا ولكنه جالس أصحاب الرأي كان جالس أبا حنيفة
▪︎میں نے (امام احمد) سے سوال کیا شعیب بن اسحاق کے بارے تو کہا میری رائے میں اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ اصحاب الرائے کی مجلس میں بیٹھتا تھا یہ ابو حنیفہ کے ساتھ بیٹھتا
[العلل ومعرفة الرجال: 3127]

اسی طرح ایک اور حنفی راوی کے بارے کہتے تھے :
●》قلت لِأَحْمَد أَبُو بكر الْحَنَفِيّ قَالَ مَا أرى كَانَ بِهِ بَأْس كتبنَا عَنهُ وَلَكِن نظر فِي الرَّأْي
▪︎میں نے امام احمد سے ابو بکر حنفی کے بارے پوچھا تو کہا میری نظر میں اس میں کوئی حرج نہیں لیکن یہ رائے کی طرف نظر کرتا تھا
[ایضا : 524]

سید الفقاء امام محمد الشیبانی کے بارے امام محدث ابن حنبل یہ موقف رکھتے تھے:
●》سألت أبي عن محمد بن الحسن صاحب أبي حنيفة صاحب الرأي قال لا أروي عنه شيئا
▪︎عبداللہ کہتا ہے میں نے سوال کیا (امام احمد) سے محمد بن حسن صاحب ابی حنیفہ صاحب رائے کے بارے تو کہا اس سے کچھ روایت نہ کرو (کیونکہ یہ اہل رائے ہیں)
[العلل ومعرفة الرجال: 5329]

یہ رویہ امام احمد کا صرف امام ابوحنیفہ یا صاحبین سے نہیں تھا بلکہ وہ تمام اس وقت کے مجتہدین کے اجتہاد کے خلاف تھے

جیسا کہ انکے شاگرد امام ابو داود سے اسکی تصریح ملتی ہے :
●》سمعت أحمد، يقول: لا يعجبني راي أحد
▪︎امام ابو داود کہتے ہیں میں نے احمد کو کہتے سنا کہ میں کسی کی رائے کو پسند نہیں کرتا
[مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني: 1778]

امام ابن عبدالبر اپنی مشہور تصنیف جامع بیان العلم میں ایک روایت نقل کرتے ہیں :
●》حدثنا عبد الرحمن بن عبد الله بن خالد، ثنا يوسف بن يعقوب النجيرمي بالبصرة ثنا العباس بن الفضل قال: سمعت سلمة بن شبيب يقول: سمعت أحمد بن حنبل يقول: «رأي الأوزاعي، ورأي مالك، ورأي سفيان كله رأي، وهو عندي سواء وإنما الحجة في الآثار
▪︎امام سلمہ بن شبیب کہتے ہیں میں نے امام احمد بن حنبل سے سنا وہ فرماتے ہیں :
اوزاعی کی رائے ، مالک کی رائے اورسفیان الثوری کی رائے ان سب کی صرف رائے ہی ہے (اس سے زیادہ کچھ نہیں )لیکن میرے نزدیک جو حجت ہے وہ اثار (صحابہ ) ہیں
[جامع بیان العلم ، ابن عبدالبر ، برقم: 2107، الناشر: دار ابن الجوزي، وسند حسن]

معلوم ہوا کہ یہ مجتہد مطلق فقھاء جیسا کہ امام مالک ، امام سفیان اور علامہ اوزاعی کی اجتہادی اراء کو فقط قیاس و رائے کہہ کر رد کر دیتے تھے

امام ابو داودؒ نے جو مسائل امام احمد سے بیان کیے ہیں انہوں نے ایک باب قائم کیا ہے

”باب: في الرأي” یعنی رائے کے بارے امام احمد کا موقف
اس پر جو چند روایات لائے ہیں امام ابو داود وہ ہم نقل کرتے ہیں

●》سمعت أحمد، يقول: قال ابن عيينة: ” أصحاب الرأي ثلاثة: عثمان بالبصرة، وربيعة بالمدينة، وأبو حنيفة بالكوفة
▪︎امام احمد فرماتے ہیں کہ امام ابن عیینہ نے کہا کہ اصحاب رائے تین ہیں
عثمان بتی بصرہ میں
ربیعہ الرائ مدینہ میں
اور
امام ابو حنیفہؓ کوفہ میں

●》سمعت أحمد، يقول: لا يعجبني راي مالك، ولا راي أحد
▪︎امام احمد سے سنا وہ کہتے ہیں مجھے امام مالک کی رائے پسند نہیں ہے اور نہ ہی کسی اور کی

●》سمعت أحمد، وقال له رجل ” جامع سفيان نعمل به؟ قال: عليك بالآثار “
▪︎امام احمد سے سنا کہ ایک شخص نے ان سے کہا کہ جامع سفیان (فقہ پر مبنی کتاب) پر عمل کیا جا ئے ؟ تو امام احمد نے کہا بلکہ اثار (صحابہؓ) پر عمل کیا جائے

اب چونکہ احمد بن حنبلؒ نے خود کو قرآن و حدیث اور اثار صحابہؓ تک محدود کر لیا تھا تو وہ نئے مسائل جو انکے دور میں رونما ہو رہے تھے کیونکہ وہ اپنے منہج پر سخت تھے تو انکو حل کرنے کی بجائے ان سے مکمل دوری رکھتے تھے جیسا کہ امام ابی داودؒ ان سے روایت کرتے ہیں :

●》سمعت أحمد، وسأله رجل عن مسألة، فقال: دعنا من هذه المسائل المحدثة.
▪︎میں نے احمد بن حنبل سے سنا انکو ایک شخص نے ایک مسلے کے بارے دریافت کیا تو انہوں نے کہا ہم کو ان جدید مسائل سے دور رکھو (کہ جنکی تصریح قرآن و حدیث میں نہیں )

●》وما أحصي ما سمعت أحمد، يسأل عن كثير مما فيه اختلاف من العلم، فيقول لا أدري.
▪︎میں یہ گن ہی نہیں سکتا کہ ان سے میں نے سنا کہ جب ان سے کثیر مسائل کے بارے پوچھا جاتا جن میں اختلاف تھا اہل علم کا تو احمد بن حنبل کہہ دیتے میں اسکو نہیں جانتا

●》سمعت أحمد، يقول: أنا أكره أن يكتب عني راي
▪︎میں نے امام احمد کو کہتے سنا : کہ مجھے یہ ناپسند ہے کہ مجھ سے میری رائے لکھی جائے

●》سمعت أحمد، ” ذكر الحيل من أمر أصحاب الرأي، فقال: يحتالون لنقض سنن رسول الله صلى الله عليه وسلم
▪︎میں نے احمد بن حنبل سے سنا کہ جب ان سے اصحاب الحدیث کے حیلہ کے امر کو بیان کیا گیا تو انہوں نے کہا یہ دھوکے سے سنت رسولﷺ (میں نقص نکالتے ہیں ) کو توڑتے ہیں

●》سمعت أحمد، سئل عن حديث» السنة قاضية على الكتاب ” ما تفسيره؟ قال: أجبن أن أقول فيه، ولكن السنة تفسر القرآن، ولا ينسخ القرآن إلا القرآن.
▪︎میں نے احمد بن حنبل کو سنا ان سے حدیث السنہ قاضیہ علی کتاب کی تفسیر کے بارے سوال ہوا تو انہوں نے کہا میں اسکی تفسیر کرنے سے ڈرتا ہوں ۔ لیکن سنت (یعنی حدیث) قرآن کی تفسیر ہے اور قرآن کو صرف قرآن منسوخ کرتا ہے

●》سمعت أحمد، يقول: ” الاتباع: أن يتبع الرجل ما جاء عن النبي صلى الله عليه وسلم وعن أصحابه، ثم هو من بعد في التابعين مخير “.
▪︎میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا کہ اتباع یہ ہے کہ جو نبی کریم ﷺ سے مروی ہے اورجو صحابہ کرامؓ سے مروی ہے پھر اسکے بعد جو تابعین سے مروی ہے اس میں اختیار ہے

●》قلت لأحمد: أليس الأوزاعي هو أتبع من مالك؟ قال لا تقلد دينك أحدا من هؤلاء، ما جاء عن النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه فخذ به، ثم التابعين بعد الرجل فيه مخير
▪︎میں نے احمد سےکہا اوزاعی کیا مالک سے زیادہ (سنت) کی اتباع کرنے والے نہیں تھے ؟ تو انہوں نے کہا دین میں کسی کی بھی تقلید نہ کی جائے ان میں سے لیکن جو نبی اکرمﷺ سے مروی ہے اسکی اور پھر صحابہ کرامؓ سے اخذ کیا جائے اسکے بعد والے تابعین اور انکے بعد والے لوگوں میں اختیار ہے

یہاں تک یہ معلوم بھی ہوا کہ امام احمد کے نزدیک خود قیاس و اجتہاد کرنا جائز نہ تھا یہاں تک کہ تابعین کے مقابل بھی وہ رائے و اجتہاد کے قائل نہ تھے۔

مزید مسائل میں انکا رائے سے اجتناب کی تصریحات

جیسا کہ امام ابی داودؒ ان سے بیان کرتے ہیں :
●》سمعت أحمد، يقول: مالك أتبع من سفيان.
▪︎میں امام احمد کو کہتے ہوئے سنا کہ امام مالک امام سفیان ثوری کی بانسبت (حدیث کی زیادہ) اتباع کرتے تھے

●》قلت لأحمد ” الغرقى يورث بعضهم من بعض؟ قال: أكثر الأحاديث عليه , ولا نعلم بين أهل الكوفة فيه اختلافا حتى جاء أبو حنيفة، فقاله، وتباعه على ذلك سفيان .
▪︎میں نے احمد سے پوچھا کیا غرقی شخص اپنے بعض لوگوں سے بعض کو وصیت کر سکتا ہے؟؟تو کہا اس پر اکثر روایات موجود ہیں میں نہیں جانتا اہل کوفہ میں کس نے اس مسلے پر اختلاف کیا ہو حتی کہ ابو حنیفہ آئے انہوں نے اس پرکلام کیا اور انکی اتباع کر لی سفیان الثوری نے
[مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني، باب: في الرأي]

اس طرح امام احمد ہر قسم کے اجتہاد و قیاس کو مطلق کوئی غیر ضروری چیز سمجھتے تھے اسکی تصریحات درج ذیل ہیں
جیسا کہ امام احمد سے انکا بیٹے امام عبد اللہ روایت کرتے ہیں :
عبداللہ بن احمد ایک باب قائم کرتے ہیں :
《”ما نهى عنه من وضع الكتب والفتيا وغيره”》
یعنی
جو (احمد ) نے کتابیں وضع کرنے اور فتاوے لکھنے سے منع کیا ہے (اسکا باب)

پھر اس میں عبداللہ اپنے والد احمد بن حنبل سے انکا قول روایت کرتے ہیں :

●》سمعت ابي وذكر وضع كتب
فقال اكرهها هذا ابو حنيفة وضع كتابا فجاء ابو يوسف ووضع كتابا وجاء محمد بن الحسن فوضع كتابا فهذا لا انقضاء له كلما جاء رجل وضع كتاباوهذا مالك وضع كتاباوجاء الشافعي ايضا وجاء هذا يعني ابا ثور وهذه الكتب وضعها بدعة كلما جاء رجل وضع كتابا ويترك حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه او كما قال ابي هذا ونحوهوعاب وضع الكتب وكرهه كراهية شديدة وكان ابي يكره جامع سفيان وينكره ويكرهه كراهية شديدة
▪︎عبداللہ کہتے ہیں میں نے اپنے والد سے سنا انہوں نے (فقہی) کتابوں کے لکھنے کو بیان کیا :
تو کہا میں اس (امر) کو ناپسند کرتا ہوں یہ دیکھو ابو حنیفہ نے بھی (فقہی) کتاب لکھی ہیں
پھر ابو یوسف آئے انہوں نے بھی (فقہی) کتابیں لکھیں پھر محمد بن حسن شیبانی آئے انہوں نے بھی (فقہی) کتابیں لکھیں ۔
تو کتابی وضع کرنے کا ایسے تو کوئی انتہا نہیں ہے کہ ہر بندہ آئیں اور وہ (فقہی طرز پر ) کتاب لکھے
یہ دیکھو مالک نے بھی (فقہی طرز پر )کتاب لکھی
اور ایسا ہی شافعی نے کیا (یعنی اس نے بھی (فقہی) کتاب لکھی )
اور پھر ابو ثور آئے انہوں نے بھی (فقہی)کتاب لکھی تو یہ (فقہی) کتابیں لکھنا ایک (بری) بدعت ہے یہ دیکھو کہ ہربندہ آیا اور اس نے (فقہ و اصول) پر کتاب لکھی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احادیث اور صحابہ کرام کے آثار کو ترک کر دیا (معاذاللہ) اور ایسا ہی والد صاحب نے بیان کیا ۔
کتابیں لکھنے کو انہوں (احمد بن حنبل) نے معیوب قرار دیا اور اس امر سے قراہت اختیار کی بہت ہی زیادہ (شدید) اسکو نا پسند کیا ۔اور میرے والد (احمد ) جامع سفیان (الثوری) کی (فقہی) کتاب کو سخت نا پسند کرتے اور اسکا انکار کرتے تھے اور اس (کتاب) پر بہت زیادہ نا پسندیدگی کا اظہار کرتے تھے
[مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله برقم: 1582]

لیکن یہ موقف امام احمد کا انکی زندگی کے ان ادوار سے تعلق رکھتا ہے جب امام احمد راویوں کی چھان پٹک و علم حدیث اور اسکی معرفت میں امامت کا درجہ پا چکے تھے۔ لیکن امام شافعی و امام ابو حنیفہ و صاحبین جیسے فقھاء کی شاگردی اور کتب کے زریعہ امام احمد میں قلت فقہ کی وجہ سے جو سخت موقف تھا فقہ اجتہاد و قیاس جسکو امام احمد صرف رائے کہہ کر رد کرتے تھے جب جام فقہ محو ہوئے تو اجتہاد مطلق کے درجہ پر فائض ہوئے جیسا کہ انکی شان تھی۔

ائمہ احناف سے امام احمد کے استفادہ کے دلائل درج ذیل ہیں

جیسا کہ امام خطیب نے بھی اپنی سند صحیح سے قول نقل کیا ہے انکے بیٹے سے :
●》حدثني الصوري، قال: أخبرني عبد الغني بن سعيد، قال: أخبرنا أبو طاهر محمد بن أحمد بن عبد الله بن نصر، قال: حدثني إبراهيم بن جابر، قال: حدثني عبد الله بن أحمد بن حنبل، قال: كتب أبي عن أبي يوسف، ومحمد، ثلاثة قماطر، فقلت له: كان ينظر فيها؟ قال: كان ربما نظر فيها
▪︎امام عبداللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں میرے والد (امام احمد) نے امام ابو یوسف اور امام محمد سے تین (بڑے تھیلے) علم (کتب) کے لکھے تھے ۔ راوی کہتا ہے میں نے پوچھا کہ کیا وہ انکا مطالعہ بھی کرتے تھے؟ تو امام عبداللہ نے کہا جی ہاں بسااوقات وہ انکا مطالعہ کرتےتھے
[تاریخ بغداد وسندہ صحیح]

اسی طرح امام ذھبی نے سیر اعلام میں نقل کیا ہے :

●》قال عبد الله: كتب أبي عن أبي يوسف ومحمد الكتب، وكان يحفظها، فقال لي مهنى: كنت أسأله فيقول: ليس ذا في كتبهم.
▪︎عبداللہ کہتاہے میرے والد (احمد) نے امام ابو یوسف اور امام محمد سے کتب لکھیں اور انکو یاد کیا اور مھنا نے مجھے کہا کہ ان سے سوال کرتا (کسی مسلے میں ) تو وہ کہتے کہ یہ اس کتاب میں نہیں
(یعنی جو مسئلہ ان کی کتابوں میں تھا وہ مجھے یاد تھا جو ان کی کتب میں نہیں تھا وہ یاد نہیں تھا)
[سیر اعلام النبلاء ج۱۱، ص ۳۰۶]

اور امام احمد فقہ کی دقیق مسائل اور پیچیدگیوں پر کس طرح مطلع ہوئے اسکی تصریح بھی امام احمد نے کر رکھی ہے

●》اخبرنا احمد بن محمد الصيرفي قال ثنا علي بن عمرو الحريري قال ثنا علي بن محمد القاضي النخعي قال ثنا أبو بكر القاطيسي قال ثنا إبراهيم الحربي قال سألت احمد بن حنبل قلت هذه المسائل الدقاق من أين لك قال من كتب محمد بن الحسن
▪︎امام ابراہیم الحربی کہتے ہیں میں نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا کہ اتنے دقیق اور بریک مسائل (کا حل) آپ کہا سے لیتے ہیں ؟
تو امام احمد بن حنبل نے فرمایا امام محمد بن حسن کی کتب سے
[اخبار ابی حنیفہ الصیمری و سند صحیح]

اس سے معلوم ہوا امام احمد کے پاس ہر علم کے موتی تھی لیکن کمی فقط اجتہاد و قیاس اور نئے مسائل میں فہم و تدبر کی تھی جو انکو امام ابو حنیفہ و صاحبین کی کتب اور امام شافعی کی رفاقت میں نصیب ہو چکی
جسکے بعد آنے والے وقت میں نہ صرف امام احمد درجہ اجتہاد کے منسب پر نا صرف فائز ہوئے بلکہ صاحب مذہب بنے اور اللہ نے انکو بھی تاریخ اسلام کی ان چار شخصیات میں شامل کرکے امر کر دیا کہ جنکے مذہب ان شاءاللہ تا قیامت تک قائم رہینگے اور انکے نام لیوا انکی فقہ میں پیروی کرنے والے انکئ مدون شدہ اصول و قوائد پر انکا مذہب زندہ رکھینگے ۔
جیسا کہ امام ابو حنیفہ، امام مالک و امام شافعی ان سے پہلے اس منصب فقاہت و اجتہاد پر فائض ہو چکے تھے۔

اللہ ان چار ائمہ فقھاء پر اپنی رحمت کی تجلیوں کی برسات تاقیامت جاری رکھے اور لوگ ان چار ائمہ سے علمی فیض حاصل کرتے رہیں۔ اور انکے زریعہ ہماری بخشش کا سامان بنے۔

امام یحییٰ بن معین حدیث کی معرفت اور رجال کے حوالے سے امام احمد بن حنبل پر مقدم تھے اور امام احمد امام یحییٰ بن معین پر فقہ کے اعتبار سے مقدم تھے ۔۔۔۔

●》أخبرني محمد بن علي المقرئ، أخبرنا أبو مسلم بن مهران، أخبرنا عبد المؤمن بن خلف النسفي قال: سألت أبا علي صالح بن محمد: من أعلم بالحديث؟ يحيى بن معين، أم أحمد بن حنبل؟ فقال: أما أحمد فأعلم بالفقه والاختلاف، وأما يحيى فأعلم بالرجال والكنى.
▪︎امام ابن خلف نسفی کہتے ہیں میں امام ابو علی صالح بن احمد سے پوچھا کہ علم حدیث کا بڑا عالم کون ہے ؟ امام یحییٰ بن معین یا امام احمد بن حنبل ؟
تو انہوں نے کہا : امام احمد بن حنبل فقہ اور اختلاف (علماء) کے بڑے عالم تھے اور امام یحییٰ بن معین رجال اور کنیت کے زیادہ بڑے عالم تھے
[تاریخ بغداد وسندہ صحیح]

امام احمد بن حنبل کی ابو حنیفہ کے متعلق کیا خیالات رکھتے تھے اسکا انداذہ مذکورہ روایت سے لگایا جا سکتا ہے:

اپنی تصنیف مناقب ابی حنیفہ میں امام ذھبیؒ امام ابن کاس کی کتاب سے نقل کرتے ہیں ایک روایت جسکی سند و متن درج ذیل ہے :
●》قال ابن كأس: ثنا أبو بكر المروزي، سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل، يقول: ” لم يصح عندنا أن أبا حنيفة رحمه الله، قال: القرآن مخلوق، فقلت: الحمد لله يا أبا عبد الله، هو من العلم بمنزلة! فقال: سبحان الله! هو من العلم، والورع، والزهد، وإيثار الدار الآخرة بمحل لا يدركه فيه أحمد، ولقد ضرب بالسياط على أن يلي القضاء لأبي جعفر فلم يفعل “
▪︎امام ابن کاس فرماتے ہیں مجھے بیان کیا ابو بکر المروزی نے وہ کہتے ہیں میں نے سنا امام احمد بن حنبل فرمایاکہ:
ہمارے نزدیک یہ بات پایہ صیحت کو نہیں پہنچی کہ امام ابو حنیفہؓ نے قرآن کو مخلوق کہا ہو ، امام ابو بکر المروزی کہتے ہیں میں نے کہا اے ابوعبداللہ وہ (ابو حنیفہ) الحمد للہ وہ بمنزلہ نشانی تھے تو امام احمد بن حنبل نے فرمایا :
سبحان اللہ! علم ، پرہیزگاری، ذھد اوار ایثار کے اس بلند مقام پر ابو حنیفہؓ فائز ہیں کہ احمد بن حنبل اسکو کبھی نہیں پا سکتا اور قاضی کا عہدہ قبول کرنے کے لیے انکو کوڑے لگائے گئے
[مناقب ابی حنیفہؓ امام ذھبی ، ص ۴۳]

سند کے رجال کی تحقیق!
امام القاضی ابن کاس النخعی الحنفی کا تعارف!
امام خطیب بغدادی اپنی تاریخ میں انکے مطلق فرماتے ہیں :
وكان ثقة فاضلا، عارفا بالفقه على مذهب أبي حنيفة،
[تاریخ بغداد، برقم: ۶۴۶۹]

امام ابو بکر المروزی کا تعارف !
یہ امام احمد بن حنبل کے تمام شاگردوں پر مقدم تھے
أبو بكر ثقة صدوق
[تاریخ بغداد]

نوٹ:
امام ابن کاس النخعی کی کتاب سے امام ذھبی نے نقل کیا ہے:

امام السخاوی نے اپنی مشہور تصنیف
الجواهر والدرر في ترجمة شيخ الإسلام ابن حجر
میں ایک باب قائم کیا :
[مناقب الأئمة الأربعة]
وغير واحد مناقب كلٍّ مِنْ أئمة المذاهب الأربعة رحمةُ اللَّه عليهم.
فأفردَ مناقبَ الإمام أبي حنيفة:
بے شمار لوگوں نے ائمہ اربعہ کے مناقب میں کتب لکھی ہیں اللہ کی ان پر رحمت ہو
وہ افراد جنہوں نے مناقب اما اعظم ابی حنیفہ پر تصانیف لکھی ہیں
پھر امام سخاوی ان محدثین کا نام لکھتے جس میں ساتویں نمبر پر امام ابن کاس کا نام لکھتے ہیں :
7. وأبو القاسم علي بن محمد بن كأس الفقيه القاضي، أفرد “فضائل الإمام” في جزءٍ لطيفٍ،
[الجواهر والدرر في ترجمة شيخ الإسلام ابن حجر]

امام ابو القاسم علی بن محمد بن کاس القاضی ہیں انکے بارے فرماتے ہیں کہ انہوں نے فضائل ابو حنیفہ کتاب لکھی تھی
( یہ کتاب آج کےدور میں مفقود لیکن امام ذھبی کے پاس موجود تھی اور امام سخاوی کے دور تک موجود تھی)

نوٹ:
برصغیر کے ان سلفی حضرات کا رد بھی اس میں مکمل ہو گیا جو وہ امام احمد علیہ رحمہ کے حوالے سے انکی باقی فقھاء پر پہلے ادوار کی جروحات کو چھپا کر صرف ائمہ احناف پر انکا کلام دکھا کر لوگوں کو ائمہ دین سے متنفر کرنے کی نادان کوشش میں لگے رہتے ہیں