۳- باب من رفع صوته بالعلم

بلند آواز سے علمی بات بتانا

اس باب کی باب سابق کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ باب سابق میں علمی سوال کا ذکر تھا اور عالم کو کبھی بلند آواز سے علمی جواب دینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔

60- حدثنا أبو النعمان عارم بن الفضل قال حدثنا ابو عوانة ، عن أبي بشر، عن يوسف بن ماھك، عن عبدالله بن عمرو قال تخلّف عنّا النبي صلى الله عليه وسلم في سفرة سافرناها،فأدركنا ، وقد ارهقتنا الصلوة. ونحن نتوضا فجعلنا نمسح علی ارجلنا فنادى بأعلى صوته ويل للاعقاب من النار مرتين أو ثلاثا. [ اطراف الحدیث:96۔ 163]

امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ ہمیں ابو النعمان عارم بن الفضل نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں ابوعوانہ نے حدیث بیان کی، از ابی بشر از یوسف بن ماهک از عبدالله بن عمرو انہوں نے بیان کیا: ہم نے ایک سفر کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سفر میں ہم سے پیچھے رہ گئے تھے، پھر آپ ہم سے مل گئے، اس وقت نماز ہم سے مؤخر ہوگئی تھی اور ہم وضو کر رہے تھے، ہم اپنے پیروں پر مسح کرنے لگے تو آپ نے بلند آواز سے دو یا تین بار فرمایا: ( بے دھلی ) ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے ۔

(صحیح مسلم : ۲۴۲، سنن ابن ماجه :۴۵۵ صیح ابن حبان :۱۰۵۹۔ ۱۰۵۳ سنن بیہقی ج ۱ ص ۷۰ المستدرک ج ۱ ص ۱۶۲ المعجم الکبیر ۸۱۰۹ مصنف عبدالرزاق : ۶۴ مسند احمد ج ۲ ص ۱۹۳ طبع قدیم، مسند احمد : 6809 – ج۱۱ ص ۴۱۲ )

اس حدیث کی باب کے عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ جن مسلمانوں نے پیروں کو دھونے میں تقصیر کی اور پیروں کو دھونے کے بجاۓ ان کے مسح پر اکتفاء کرلیا آپ نے ان کو آگ کے عذاب کی وعید بلند آواز سے سنائی، اور یہی اس باب کا عنوان ہے ۔

حدیث مذکور کے رجال کا تعارف

(۱)ابوالنعمان محمد بن الفضل السدوی، ان کا تعارف ہو چکا ہے.

(۲) ابوعوانہ الیشکری، ان کا تعارف بھی ہو چکا ہے.

(۳) ابو بشر جعفر بن ایاس الیشکری، امام احمد، یحیی اور ابوحاتم نے کہا: یہ ثقہ ہیں، ابن سعد نے کہا: یہ ثقہ اور کثیر الحدیث ہیں یہ۱۲۴ھ میں فوت ہوگئے تھے ان سے بہت بڑی جماعت نے روایت کی ہے.

( ۴ ) یوسف بن ماھک بن بہزاد الفارسی المکی، یحیی نے کہا: یہ ثقہ ہیں 113ھ میں فوت ہو گئے تھے، ان سے بہت بڑی جماعت نے روایت کی ہے ۔لفظ ماھک عجمہ اور علمیت کی بناء پر غیر منصرف ہے ماھک کا معنی ہے: کسی چیز کو خوب کوشش سے پیسنا یا چڑھتی ہوئی جوانی یا زوجین کا جماع میں خوب کوشش کرنا۔

(۵) حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہما ان کا تعارف ہوچکا ہے ۔ (عمدۃ القاری ج ۲ ص۱۱)

اس حدیث کی باب کے عنوان سے مناسبت یہ ہے کہ آپ نے بلند آواز سے مسئلہ بتایا ۔

پیروں کو دھونے کی فرضیت، جسم اور روح دونوں کے عذاب کا ثبوت، اور عالم پر غلط بات کوٹوکنے کی ذمہ داری

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وضو میں پیروں کا دھونا فرض ہے، کیونکہ اگر پیروں پر مسح کر لینا کافی ہوتا تو آپ ان کو دوزخ کی آگ کی وعید نہ سناتے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فقط روح کو عذاب نہیں ہو گا بلکہ جسم کو بھی عذاب ہوگا اور یہی اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے، اور جب عالم کسی شخص کو کوئی غلط کام کرتے ہوۓ دیکھے تو اس کو بلند آواز سے منع کرے اور سختی کرے اور کسی اہم بات کا بار بار ذکر کرے کیونکہ آپ نے دو یا تین بارفرمایا تھا: ( بے دھلی ) ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہو ۔

حدیث مذکور کی مؤید دیگر روایات جن میں اس سفر اور اس نماز کا بیان ہے

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ سے مدینہ آ رہے تھے، حتی کہ جب ہم راستہ میں پانی کے پاس سے گزرے تو بعض مسلمانوں نے عصر کی نماز کے لیے عجلت کی اور انہوں نے جلدی جلدی وضو کیا، حتی کہ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو ان کی ایڑیاں خشک تھیں، جن کو پانی نے نہیں چھوا تھا تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (بے دھلی ) ایڑیوں کےلیے آگ کا عذاب ہو، وضو مکمل کیا کرو ۔

( صحیح مسلم :۱ ۲۴ کتاب الطہارۃ باب فضل الوضوء:26، سنن ابوداود: ۹۷ سنن نسائی :111 سنن ابن ماجه : ۴۵۰)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں ہم سے پیچھے رہ گئے تھے، پھر آپ ہم سے آ ملے، اس وقت عصر کی نماز کھڑی ہوچکی تھی، ہم اپنے پاؤں پر مسح کر رہے تھے تو آپ نے فرمایا: ( بے دھلی ) ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہو ۔ ( صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب فضل الوضوء: ۲۷)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جس نے اپنی ایڑیوں کونہیں دھویا تھا آپ نے فرمایا: ( بے دھلی ) ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہو ۔ (صحیح مسلم:۲۴۲)

اگر یہ اعتراض کیا جاۓ کہ صحابہ نے نماز کو افضل وقت سے کیوں مؤخر کر دیا تھا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے اس حرص میں نماز کو مؤخر کیا تھا کہ وہ اس نماز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر پڑھ لیں گے، لیکن جب دیر زیادہ ہوگئی اور ان کو نماز کے فوت ہو جانے کا خوف ہوا تو پھر انہوں نے جلدی کی اور عجلت سے وضو کرنے لگے ۔

شرح صحیح مسلم میں حدیث مذکور کی شرح

یہ حدیث شرح صحیح مسلم: ۴۷۸۔ ج۱ ص۸۸۶ پر مذکور ہے اور اس کے حسب ذیل عنوانات ہیں :

(1) وضو میں پیر دھونے کے متعلق اہل قبلہ کے مذاہب

(۲) وضو میں پیروں پر مسح کرنے کے متعلق علماءشیعہ کے دلائل

(۳) آیت وضو میں قراءت جر سے علماء شیعہ کے دلائل کے جوابات

(۴) علماء شیعہ کی پیش کردہ روایات کے جوابات

(۵) پیروں کے دھونے کے ثبوت میں احادیث اور آثار کا بیان

(۶) علماء شیعہ کی عقلی دلیل کا جواب ۔