٤- باب قول المحدث حدثنا أو أخبرنا وانبانا

محدث کا یہ کہنا:’’ حدثنا‘‘ یا ’’اخبرنا ‘‘اور’ انبانا‘‘

 

اس باب کو’’ کتاب العلم‘‘ میں وارد کرنے کی وجہ یہ ہے کہ امام بخاری یہ تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی کتاب میں ان احادیث کو روایت کیا ہے جو مسندہ یعنی متصل ہیں جن کو انہوں نے بغور اپنے اساتذہ سے سنا ہے کیونکہ ان ہی کو’حدثنا‘’ اخبرنا ‘‘ یا ’’انبانا‘‘ کے صیغہ سے ذکر کیا جاتا ہے اور اس وجہ سے بھی کہ محدث کے لیے ان الفاظ کے لغوی اور اصطلاحی معنی جاننا ضروری ہے اور باب سابق کے ساتھ اس کی مناسبت یہ ہے کہ باب سابق میں عالم کا بلند آواز سے مسئلہ بتانے کا ذکر تھا تا کہ حاضرین اس مسئلہ کو خود سیکھیں اور دوسروں کو سکھائیں اور جب وہ اس مسئلہ کو روایت بانقل کر یں گے تو کہیں گے کہ ہم کو فلاں نے حدیث بیان کی یا فلاں نے اس مسئلہ کی خبر دی، اس لیے ضروری ہے کہ یہ جانا جاۓ کہ فلاں نے حدیث بیان کی یا فلاں نے خبر دی ان الفاظ کا لغوی اور اصطلاحی معنی کیا ہے ۔

امام بخاری فرماتے ہیں : ہم سے حمیدی نے کہا: وہ اس وقت ابن عیینہ کے پاس تھے انہوں نے کہا کہ محدث کے الفاظ “ہم سے حدیث بیان کی، ہمیں خبر دی، ہم کو روایت حدیث کی اجازت دی اور میں نے فلاں سے حدیث سنی‘‘ ان سب سے مراد واحد ہے ۔

حدثنا، اخبرنا ‘‘اور’’ انبانا ‘‘ کے لغوی اور اصطلاحی معانی

قاضی عیاض بن موسی مالکی متوفی ۵۴۴ ھ لکھتے ہیں :

جب کوئی شخص اپنے شیخ سے کوئی حدیث سنے تو سننے وال،ا اس حدیث کو نقل کرتے وقت یہ کہہ سکتا ہے: ’’حدثنا‘ اخبرنا، انبانا ‘‘ اور’’سمعته يقول‘‘ اور یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ مجھ سے فلاں نے کہا اور مجھ سے فلاں نے ذکر کیا، امام طحاوی کا بھی اسی طرف میلان ہے

اور ابن حاجب نے بھی اسی کو صحیح کہا ہے اور امام حاکم سے منقول ہے کہ یہی ائمہ اربعہ کا مذہب ہے اور یہی زہری، یحیی، قطان اور جماعت محدثین کا مذہب ہے اور حجازیین اور کوفیین کا بھی یہی مختار ہے، اسی وجہ سے امام بخاری نے اس کو حمیدی اور سفیان بن عیینہ سے نقل کیا ہے ۔

دوسرے ائمہ حدیث نے یہ کہا ہے کہ جب شیخ کے سامنے حدیث پڑھی جاۓ تو یوں کہا جاۓ: حـدثـنا فلان قراءة عليه واخبرنا فلان قراءة علیہ‘‘ اور یہ متکلمین کا مذہب ہے۔

ان کے علاوہ دوسروں نے کہا:’’ حدثنا ‘‘ میں اس طرح نہ کہے اور” اخبرنا ‘‘ میں اس طرح کہہ سکتا ہے اور یہی امام شافعی، ان کے اصحاب، امام مسلم اور جمہور اہل مشرق کا مذہب ہے اور ابن جریج، اوزاعی، امام نسائی، ابن وہب اور اکثر محدثین کا مذہب ہے ایک قول یہ ہے کہ عبد اللہ بن وہب ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے مصر میں یہ فرق بیان کیا کہ استاذ حدیث پڑھے تو

’’ حدثنا ‘‘ کیے اور شاگرد استاذ کے سامنے حدیث پڑھے تو اخبرنا ‘‘ کہے، پھر یہی مذہب اکثر محدثین میں شائع ہوگیا زیادہ بہتر یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ یہ ان کی اصطلاح ہے، تاکہ ’حدثنا ‘‘اور اخبرنا ‘‘ میں فرق کیا جا سکے اگر تنہا سنے یا پڑھے تو ’’ حدثنی ‘‘اور’’اخبرنی‘‘ کہے اور اگر اس کے ساتھ دوسرا بھی شریک ہو تو’’ حدثنا ‘‘اور’ اخبرنا‘‘ کہے۔(اکمال معلم بفوائد مسلم ج۱ ص186، دارالوفاء بیروت ۱۹ ۱۴ ھ )

علامہ بدرالد بن عینی متوفی ۸۵۵ ھ لکھتے ہیں:

بعض محدثین نے کہا: حدثنا، اخبرنا ‘‘اور’’ انبانا ‘‘میں کوئی فرق نہیں ہے، کیونکہ لغوی اعتبار سے اہل علم کے نزدیک ان میں کوئی فرق نہیں ہے، لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ ہماری گفتگو اصطلاح میں ہے ۔

(عمدۃ القاری ج۱ ص ۱۷-۱۶ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ ۱۴۲ ھ فتح الباری ج۱ ص 604 دار المعرفة بیروت ۱۴۲۶ھ )

علامہ ابن بطال مالکی متوفی ۴۴۹ھ نے بھی اسی طرح لکھا ہے اور کہا ہے کہ ابن وہب نے کہا ہے کہ جب استاذ حدیث پڑھے تو ’’ حدثنا ‘‘ کہے اور جب استاذ کے سامنے شاگرد حدیث پڑھے تو’’ اخبرنا ‘‘ یا ’ انبانا ‘‘ کہے۔( شرح ابن بطال ج۱ ص۱۴۰ مکتبة الرشد ریاض ۱۴۲۰ھ) .

حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی ۸۵۲ ھ فرماتے ہیں: اسی طرح’’ انبانا‘‘ اس وقت کہا جا تا ہے جب استاذ پڑھے نہ شاگرد استاذ کے سامنے پڑھے بلکہ استاذ نے اس حدیث کی روایت کرنے کی شاگرد کو اجازت دی ہو ۔ ( فتح الباری ج۱ ص 604 دار المعرفة بیروت 1426ھ )

میرے نزدیک یہ اصطلاح بہت عمدہ ہے، کیونکہ اس سے اداء حدیث کے تینوں صیغوں کا فرق آ گیا۔ دراصل یہ فرق بھی پہلے قاضی عیاض بن موسی مالکی متوفی ۵۴۴ھ نے بیان کیا ہے وہ لکھتے ہیں :

جمہور کا اس پر اتفاق ہے کہ جب محدث اپنے شیخ یا استاذ سے حدیث سنے تو کہے:’’ حدثنا ‘‘اور’’ اخبرنا ‘‘اور’سمعت ‘‘ اور

’’ قال لنا ‘‘اور’’ ذکر لنا‘‘ اور القاضی ابوبکر اور دیگر محققین کا مختار یہ ہے کہ اس میں بھی فرق کرے جب شیخ سے حدیث سنے تو کہے: ” حدثنا‘‘ اور جب شیخ کے سامنے حدیث پڑھے تو کہے:” اخبرنا قرأة‘‘ يا قراءت عليه‘‘ سمعت يقرء عليه” تاکہ حصول حدیث کی انواع میں اختلاط سے ابہام زائل ہو جاۓ، اس فرق کی اصطلاح متاخرین محدثین نے وضع کی ہے، سو امام حاکم ابوعبداللہ نیشاپوری نے کہا کہ روایت حدیث میں میرا مختار یہ ہے اور میرے زمانہ کے اکثر ائمہ اور مشائخ کا مختار بھی یہی ہے کہ جب تنہا اپنے شیخ سے حدیث سنے تو کہے:’’ حدثنی ‘‘ اور جب دوسروں کے سامنے سنے تو کہے:’’ حدثنا ‘‘اور جب تنہا اپنے شیخ کے سامنے حدیث پڑھے تو کہے:’’ اخبـرنی‘‘اور جب دوسروں کے سامنے پڑھے تو کہے: اخبرنا ‘‘اور جب تنہا اس کے سامنے شیخ پر حدیث پیش کی جاۓ اور وہ اس کی روایت کی اجازت دے دے تو کہے:’’ انسانی‘‘ اور شیخ اس کی طرف جوحدیث لکھ کر بھیجے اور سا منے نہ پیش کی جاۓ تو کہے:’’ کتب الی‘‘ ۔ ( معرفیہ علوم الحدیث ۲۶۰)

امام اوزاعی نے بھی اس طرح کہا، جس طرح حاکم نے لکھا ہے کہ جب شیخ سے حدیث سنے تو کہے:’’ حدثنا‘ اور جب شیخ کے سامنے حدیث پڑھے تو کہے: اخبرنا ‘‘ اور جب شیخ کے سامنے کوئی حدیث پیش کی جائے اور وہ اس کی روایت کی اجازت دے تو کہے: ’’ انبانا ‘‘ ۔ (اکمال لمعلم بفوائد مسلم ج ۱ ص ۱۸۹ ۱۸۸ دارالوفاء بیروت ۱۹ ۱۴ ھ )

امام بخاری فرماتے ہیں:

وقال لنا الحميدي كان عند ابن عيينة حدثنا واخبـرنـا وانبانا وسمعت واحداً. وقال ابن مسعود حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو الصادق المصدوق. وقال شقيق عن عبدالله سمعت النبی صلى الله عليه وسلم كلمة. وقال حذيفة حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثين۔

اور ہم نے حمیدی نے کہا، وہ اس وقت ابن عیینہ کے پاس تھے کہ حدثنا ‘‘اور’’ اخبرنا ‘‘اور’ انبانا ‘‘اور’’سمعت ‘‘ کا اصطلاحی معنی ایک ہے اور حضرت ابن مسعود نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حدیث بیان فرمائی اور آپ صادق اور مصدوق ہیں اور شقیق نے حضرت عبداللہ سے روایت کی: میں نے نبی . صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات سنی اور حضرت حذیفہ نے کہا: ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو حدیثیں بیان فرمائیں ۔

امام بخاری نے یہ تین تعلیقات اس لیے وارد کی ہیں کہ صحابی روایت حدیث کے وقت بھی’’حدثنا‘‘ ہم سے حدیث فرمائی کہتے ہیں اور کبھی’’ سمعت ‘‘ ( میں نے سنا) کہتے ہیں ۔

امام بخاری فرماتے ہیں:

. وقال ابـو الـعـالـيـة عـن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم فيما يروى عن ربه. وقال أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم يرويه عن ربه عز وجل. وقال أبو هريرة عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم يرويه عن ربكم عزوجل۔

اور ابوالعالیہ نے کہا: از حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما از نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنے رب سے روایت کرتے ہیں اور حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: از نبی صلی اللہ علیہ وسلم، آپ اپنے رب عزوجل سے روایت کرتے ہیں اور حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) نے کہا: از نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ تمہارے رب عز وجل سے روایت کرتے ہیں ۔

یہ دوسری تین تعلیقات ہیں، جن کو امام بخاری نے اس لیے وارد کیا ہے کہ’’ عنعنہ ‘‘( وہ حدیث جوعن فلاں یا از فلاں از فلاں سے مروی ہو ) سے جو حدیث مروی ہو تو وہ بھی حدیث مسند اور متصل کے حکم میں ہوتی ہے بہ شرطیکہ راوی اور مروی عنہ کی ملاقات ثابت ہو اور یہی امام بخاری کا مذہب ہے، اس کے برخلاف امام مسلم اس حدیث کے مسند ہونے کے لیے راوی اور مروی عنہ کا ہم عصر ہونا بھی کافی سمجھتے ہیں ۔

61- حدثنا قتيبة، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم إن من الشجر شجرة لا يسقط ورقها، وإنهـا مثـل الـمسلم ، فحدثونی ما هي؟ فوقع الناس في شجر البوادي ، قال عبداللہ ووقع في نفسي انها النخلة ، فاستحييت ، ثم قالوا حدثنا ما ھي يارسول الله قال هي النخلة ۔ اطراف الحدیث: 62 ۔ ۷۲ ۔ ۱۳۱ – ۲۲۰۹- 4698۔ ۵۴۴۴۔5448-6144

 

امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ ہمیں قتیبہ نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں: ہمیں اسماعیل بن جعفر نے حدیث بیان کی، از عبداللہ بن دینار از حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک درختوں میں سے ایک ایسا درخت ہے، جس کے پتے نہیں گرتے اور بے شک وہ مسلمان کی مثل ہے’ فحدثونی‘‘ (پس مجھے بتاؤ) وہ کون سا درخت ہے؟ لوگوں کا ذہن جنگل کے درختوں میں چلا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے کہا: میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے لیکن مجھے ( بتانے سے ) حیاء آئی پھر صحابہ نے کہا: یارسول اللہ ” حدثنا‘‘ ( ہمیں بتائے ) وہ کون سا درخت ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ کھجور کا درخت ہے ۔

(صحیح مسلم:۲۸۱۱، سنن ترمذی:3119، صحیح ابن حبان: 245، المعجم الکبیر: 13513، حلیہ اولیاء ج 8 ص 129، مسند البزار 43، سن الکبری للنسائی: 112262،مسند احمد ج ۲ ص ۱۲ طبع قدیم، مسند احمد :۴۵۹۹۔ ج۸ ص ۲۰۵ مؤسسة الرسالة بیروت )

 

عنوان باب کے ساتھ اس حدیث کی مطابقت اس طرح ہے کہ باب کا عنوان ہے : محدث کا کہنا:’’ حدثنا ‘‘اور اس حدیث میں مذکور ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’حدثونی ‘‘ اور صحابہ نے کہا: ’’حدثنا ‘‘۔

اس حدیث کے پانچ رجال ہیں اور ان سب کا تعارف پہلے ہوچکا ہے ۔

حضرت ابن عمر نے پہیلی کا جواب دینے سے کیوں حیاء کی؟

 

اس حدیث میں’’ البوادی ‘‘ کا لفظ ہے ۔’’ بادیۃ‘‘ کی جمع ہے اس کا معنی ہے: گاؤں دیہات ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے کہا: میرے دل میں آیا وہ کھجور کا درخت ہے لیکن مجھے بتانے سے حیا آئی، اس کی وجہ تھی کہ اس وقت حضرت عبداللہ بن عمر کی عمر صرف دس سال تھی اور وہ حاضرین میں سب سے چھوٹے تھے، اور حیاء کرنا اس وقت مستحب ہے، جب اس سے کوئی مصلحت فوت نہ ہو، اس وجہ سے بعد میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان سے کہا: اگر تم اس وقت بتا دیتے تو مجھے سرخ اونٹوں کے ملنے سے زیادہ خوشی ہوتی ۔۔

اس اعتراض کا جواب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بجھارت ڈالنے سے منع فرمایا ہے اور اس حدیث میں مذکور ہے: آپ نے خود پہیلی ڈالی ہے

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی پہیلی یا بجھارت ڈالنے سے منع فرمایا ہے ۔ ( سنن ابوداؤد:3656)

اس حدیث کی بناء پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کو پہیلی ڈالنے سے منع فرمایا اور خود آپ نے صحابہ پر پہیلی ڈالی کہ ایک درخت مومن کی مثل ہے بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پہیلی ڈالنا’ اس صورت میں ممنوع ہے جب اس سے مقصود کسی کی لاعلمی ظاہر کرنا ہو یا اس کو لاجواب کرنا ہو یا اس کو لوگوں کے سامنے شرمندہ کرنا ہو، لیکن جب استاذ اپنے شاگردوں میں سے کسی کی ذہانت اور زکاوت کو ظاہر کرنا چاہتا ہو یا ان کو ذہنی مشق کرانا چاہتا ہو تو پھر جائز ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پہیلی ڈالی تھی، وہ ایسی ہی تھی ۔

مومن کی کھجور کے درخت سے تشبیہ کی وجوہ

کھجور کے درخت کو جو مؤمن کے ساتھ تشبیہ دی ہے، اس کی حسب ذیل وجوہ ہیں :

(۱) کھجور کے درخت میں بہت خیر ہے ،اس کا سایا ہمیشہ رہتا ہے ، اس کا پھل میٹھا ہوتا ہے، اور یہ پھل اکثر دستیاب ہوتا ہے، اس کا تازہ پھل کھایا جاتا ہے، سوکھنے کے بعد چھوارا بن جاتا ہے، وہ بھی مختلف طریقوں سے کھایا جاتا ہے اس کے تنے سے شہتیر کا کام لیا جاتا ہے اس کے پتوں سے چٹائیاں، رسیاں، برتن اور پنکھے بناۓ جاتے ہیں، حتی کہ اس کی گٹھلیاں بھی کام آتی ہیں ان سے تسبیح بنائی جاتی ہے اسی طرح مومن میں بھی بہت خیر ہے، نماز’ روزہ، زکوۃ اور حج سے اس کو بہت ثواب ملتا ہے اپنے اہل وعیال کے رزق کی طلب کے لیے وہ جو کسب معاش کرتا ہے وہ بھی کار ثواب ہے، دوستوں اور عزیزوں سے جو نیک سلوک کرتا ہے، اس میں بھی اس کو ثواب ملتا ہے حصول سنت کی نیت سے اس کا کھانا پینا’ سونا جاگنا اور اہل وعیال اور ماں باپ کے حقوق ادا کر نے سے بھی اس کو ثواب ملتا ہے غرض اس کے ہر نیک عمل میں ثواب ہے۔

(۲) جس طرح کھجور کے درخت کی جڑیں زمین میں پیوست ہوتی ہیں اور اس کی شاخیں اوپر آسمان کی طرف جاتی ہیں، اسی طرح مومن کے ایمان کی جڑیں اس کے سینہ میں پیوست ہوتی ہیں، اور اس کے نیک اعمال کی شاخیں آسمان کی طرف چڑھتی ہیں ۔

(۳) نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں کھجور کے تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے، جب آپ کے لیے منبر بنا کر مسجد میں رکھ دیا گیا اور آپ نے اس تنے کو چھوڑدیا تو وہ آپ کی محبت کی وجہ سے آپ کے فراق میں اس طرح دھاڑیں مارکر رونے لگا، جس طرح اونٹنی اپنے گم شدہ بچے کے فراق میں روتی ہے، اسی طرح مومن کے دل میں آپ کی شدید محبت ہوتی ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کا تمام مال، اولاد حتی کی اس کی جان بھی چلی جاۓ اور اس کو ایک دفعہ آپ کی زیارت ہو جاۓ، زائرین مدینہ جب مدینہ سے الوداع ہوتے ہیں تو دھاڑیں مار مار کر روتے ہیں کہ وہ اب آپ کے روضہ کی زیارت سے محروم ہورہے ہیں ۔