أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَۙ‏ ۞

ترجمہ:

پھر تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑا۔

المدثر : ٢٢ میں فرمایا : پھر تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑا۔

اس آ زیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دل سے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو پہچانتا تھا لیکن عناد اً آپ کا انکار کرتا تھا اور اس کے حسب ذیل دلائل ہیں :

(١) اس نے کافی غور و خوص کے بعد سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے خلاف ایک شبہ تیار کیا، لیکن چونکہ وہ دل سے آپ کی نبوت کے صدق کا معترف تھا، اس لیے اپنے تیار کیے ہوئے شبہ پر خوش نہیں ہوا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس شبہ کی جڑیں کھوکھلی ہیں، اس لیے اس نے تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑا۔

(٢) روایت ہے کہ ولید بن مغیرہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے گزرا، آپ اس وقت اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے :

فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ ۔ (حم السجدہ : ١٣)

اگر یہ ( کفار) اب بھی روگردانی کریں تو کہیے : میں تم کو اس کڑک ( آسمانی عذاب) سے ڈراتا ہوں جو عاد اور ثمود کی کڑک کی مثل ہے۔

اس وقت ولید نے قسم کھائی کہ وہ آپ کے معاملہ میں خاموش رہے گا، اس سے معلوم ہوا کہ ولید جانتا تھا کہ آپ صادق ہیں اور آپ مستجاب الدعوات ہیں، اور جب ولید کفار کے پاس گیا تو ان سے کہا : میں نے ابھی ( سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام سنا ہے، وہ کسی انسان یا جن کا کلام نہیں ہے، اس کلام میں انتہائی خوب صورتی اور مٹھاس ہے، وہ کلام غالب ہوگا، مغلوب نہیں ہوگا۔ ( اسباب النزول ص ٤٦٨، المستدرک ج ٢ ص ٥٠٦) قریش کہنے لگے : ولید نے دین بدل لیا اور اگر اس نے دین بدل لیا تو سارے قریش اپنے دین بدل لیں گے، ابوجہل نے کہا : اس مہم کو میں سر کروں گا، پھر وہ غمگین صورت بنا کر ولید کے پاس گیا، ولید نے پوچھا : اے بھتیجے ! کیا ہوا ؟ ابو جہل نے کہا : تم نے دین بدل لیا تاکہ ( سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کے دستر خوان سے کھا سکو اور یہ قریش تمہارے لیے مال جمع کررہے ہیں تاکہ اصحاب محمد سے جو کچھ تم حاصل کرتے ہو، اس کے مساوی معاوضہ تمہیں دے سکیں، ولید نے کہا : وہ تو خود سیر ہو کر کھانا نہیں کھاتے، وہ مجھے مال کیسے دے سکتے ہیں، لیکن میں ان کے متعلق بہت غور و فکر کرتا رہا، بالآخر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ وہ جادوگر ہیں، پس میں قرآن کو عظیم کلام گمان کرتا ہوں اور یہ اعتراف کرتا ہوں کہ وہ کسی جن یام انسان کا کلام نہیں ہے، ولید بن مغیرہ کا یہ کلام اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس نے قرآن مجید کے متعلق جو سحرکا دعویٰ کیا تھا وہ محض عناد تھا۔

(٣) ولید بن مغیرہ یہ جانتا تھا کہ سحر کا تعلق اللہ تعالیٰ کے کفر کے ساتھ ہے اور وہ برے کاموں پر مبنی ہوتا ہے اور یہ بالکل ظاہر تھا کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی دعوت دیتے تھے تو جادو کرنا آپ کی شان کے کب لائق تھا، اور ان تمام وجوہ سے یہ ثابت ہوا کہ اس نے اس لیے ماتھے پر بل ڈالے اور منہ بنایا تھا کہ وہ جانتا تھا کہ وہ جو کچھ قرآن مجید کے متعلق کہہ رہا ہے وہ محض افتراء اور بہتان ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 74 المدثر آیت نمبر 22