بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِذۡ وٰعَدۡنَا مُوۡسٰٓى اَرۡبَعِيۡنَ لَيۡلَةً ثُمَّ اتَّخَذۡتُمُ الۡعِجۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِهٖ وَاَنۡـتُمۡ ظٰلِمُوۡنَ

اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا ‘ پھر اس کے بعد تم نے بچھڑے کو معبود بنا لیا اور تم ظالم تھے

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا ‘ پھر اس کے بعد تم نے بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ (البقرہ : ٥١)
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے نام ونسب کا بیان :
امام رازی لکھتے ہیں :
لفظ موسیٰ عبرانی زبان کا لفظ ہے ‘ اور دو کلموں سے مل کر بنا ہے ‘ مو کا معنی ہے پانی اور سا کا معنی ہے : درخت ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی ماں نے فرعون کے خوف سے تابوت میں رکھ دیا تھا اور اس تابوت کو سمندر میں ڈال دیا ‘ سمندر کی موجیں اس تابوت کو فرعون کے گھر کے قریب درختوں کے جھنڈ میں لے آئیں ‘ فرعون کی بیوی آسیہ کو وہ تابوت ملا ‘ اس نے اس تابوت سے بچہ نکال لیا اور چونکہ یہ بچہ اسے پانی اور درختوں میں ملا تھا تو اس جگہ کی مناسبت سے اس کا نام موسیٰ رکھ دیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا نام و نسب یہ ہے : موسیٰ بن عمران بن یصھر بن قاعث بن لاوی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (علیہ السلام) ۔ (تفسیر کبیر ج ١ ص ٣٤٣ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)
تورات کا نزول اور بنواسرائیل کی گؤسالہ پرستی :
امام ابن جریر طبری (رح) اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
امام ابن اسحاق (رح) نے بیان کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کو ہلاک کردیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنواسرائیل کو اس سے نجات دے دی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تیس راتوں کا وعدہ فرمایا ‘ پھر ان کو دس مزید راتوں سے پورا کیا۔ ان راتوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے ملاقات کی ‘ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو بنواسرائیل پر خلیفہ بنایا اور کہا : میں اپنے رب کے پاس جلدی میں جارہا ہوں ‘ تم میرے خلیفہ بنو اور مفسدوں کی پیروی نہ کرنا ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے سے ملاقات کے شوق میں جلدی چلے گئے ‘ حضرت ہارون (علیہ السلام) قائم مقام ہوئے اور سامری بھی ان کے ساتھ رہا۔
ابوالعالیہ نے بیان کیا ہے : یہ مدت ایک ماہ ذوالعقدہ اور دس دن ذوالحجہ کے تھے ‘ اس مدت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے اصحاب کو چھوڑ کر چلے گئے اور حضرت ہارون کو ان پر خلیفہ بنایا اور طور پر چالیس راتیں ٹھہرے اور ان پر زمرد کی الواح میں تورات نازل کی گئی ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو قریب کر کے سرگوشی کی اور ان سے ہم کلام ہوا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قلم کے چلنے کی آواز سنی ‘ اور ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ ان چالیس میں وہ بےوضو نہیں ہوئے حتی کہ طور سے واپس آئے۔ (جامع البیان ج ١ ص ‘ ٢٢٢ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)
امام رازی لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے جب فرعون کو غرق کردیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تورات کے نازل کرنے کا وعدہ فرمایا تو موسیٰ (علیہ السلام) ‘ حضرت ہارون (علیہ السلام) کو خلیفہ بنا کر طور پر چلے گئے ‘ بنو اسرائیل کے پاس قبطیوں کے وہ کپڑے اور زیورات تھے جو آنے سے پہلے قبطیوں سے انہوں نے عاریۃ لیے تھے ‘ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا : یہ کپڑے اور زیورات تمہارے لیے جائز نہیں ہیں ان کو جلا دو ‘ انہوں نے ان کو جمع کرکے آگ لگا دی ‘ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سمندر میں جارہے تھے تو سامری نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو ایک گھوڑی پر جاتے ہوئے دیکھا تھا ‘ اس نے اس گھوڑی کے سم کے نیچے سے خاک کی ایک مٹھی اٹھالی تھی ‘ سامری کے پاس جو سونا اور چاندی تھی اس نے اس کو پگھلا کر اس کا ایک بچھڑا بنا لیا اور اس میں وہ مٹی ڈال دی ‘ اس کے اثر سے اس مجسمہ سے بچھڑے کی سی آواز نکلنے لگی ‘ پھر سامری نے بنواسرائیل سے کہا : یہ تمہارا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا خدا ہے اور وہ قوم اس گؤ سالہ کی پرستش کرنے لگی ‘ حضرت ہارون (علیہ السلام) اور بارہ ہزار دیگر افراد کے علاوہ سب نے گؤ سالہ پرستی کی۔ (تفسیر کبیر ج ١ ص ٣٤٤ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)

[Tibyan-ul-Quran 2:51]