بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِذِ اسۡتَسۡقَىٰ مُوۡسٰى لِقَوۡمِهٖ فَقُلۡنَا اضۡرِب بِّعَصَاكَ الۡحَجَرَ‌ؕ فَانۡفَجَرَتۡ مِنۡهُ اثۡنَتَا عَشۡرَةَ عَيۡنًا‌ؕ قَدۡ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشۡرَبَهُمۡ‌ؕ کُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا مِنۡ رِّزۡقِ اللّٰهِ وَلَا تَعۡثَوۡا فِىۡ الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِيۡنَ

اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لیے پانی طلب کیا تو ہم نے فرمایا : اپنا عصا اس پتھر پر مارو تو اس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے بیشک ہر گروہ نے اپنے پانی پینے کی جگہ کو جان لیا ‘ اللہ کے رزق سے کھاؤ اور پیو اور زمین میں فساد کرتے ہوئے نہ پھرو

زمین سے پانی نکالنے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ اور اس کے مقابلہ میں ہمارے نبی کا معجزہ :
میدان تیہ میں جب بنواسرائیل کو پیاس لگی تو انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے پانی کے لیے دعا کریں ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فلاں چٹان پر اپنا عصامارو ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس چٹان پر عصا مارا تو اس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے ‘ وہ چٹان اب بھی جزیرہ نمائے سینا میں موجود ہے ‘ ایک عیسائی محقق نے انیسویں صدی کے وسط میں بائبل کے مقامات مقدسہ کی جغرافیائی تحقیق کے لیے فلسطین کا سفر کیا اور اس چٹان کے متعلق لکھا ہے کہ یہ چٹان دس اور پندرہ فٹ کے درمیان بلند ہے اور آگے کی طرف جھکی ہوئی ہے۔
ایک پتھر پر عصا مارنا اور اس سے پانی کے چشموں کا پھوٹ پڑنا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ ہے۔ اس پتھر نے زمین کی اندرونی تہوں سے پانی کھینچ لیا تھا ‘ یا اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اس پتھر میں پانی پیدا کردیا ‘ چٹان پر لاٹھی مار کر پانی نکالنا خلاف عادت کام ہے لیکن بہت زیادہ بعید نہیں ہے کیونکہ زمین کے نیچے پانی ہوتا ہے اور آلات کے ذریعہ زمین کو کھود کر پانی نکالا جاسکتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ یہ تھا کہ انہوں نے آلات کے بغیر لاٹھی کی ایک ضرب سے بارہ چشمے جاری کردیئے لیکن ہمارے نبی حضرت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ اس سے بڑھ کر ہے کیونکہ آپ نے ہاتھ کی انگلیوں سے پانی کو جاری کردیا اور وہاں سے پانی نکالا عادتا پانی ہوتا نہیں ہے۔
امام بخاری (رح) روایت کرتے ہیں :
حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے چمڑے کا ایک چھوٹا سا برتن تھا ‘ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو کیا تو سب لوگ ٹوٹ پڑے ‘ آپ نے پوچھا ‘ تمہیں کیا ہوا ؟ انہوں نے کہا : ہمارے پاس وضوء کے لیے پانی ہے اور نہ پینے کے لیے ‘ صرف یہی پانی ہے جو آپ کے پاس ہے ‘ آپ نے اس برتن پر اپنا ہاتھ رکھا تو آپ کی انگلیوں کے درمیان سے چشموں کی طرح پانی ابلنے لگا ‘ ہم سب نے اس سے پانی پیا اور ہم سب نے وضوء کیا ‘ راوی نے پوچھا : حدیبیہ کے دن آپ لوگوں کی کتنی تعداد تھی ؟ حضرت جابر نے کہا : ہم لوگ پندرہ سو تھے لیکن اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو ہمیں وہ پانی کافی ہوجاتا۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ‘ ٥٠٥ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)
حضرت جابر (رض) نے پندرہ سو صحابہ (رض) کے وضو کرنے کا ذکر کیا ہے ‘ یہ حدیبیہ کا واقعہ ہے ‘ قتادہ نے حضرت انس (رض) سے تین سو صحابہ کے وضوء کرنے کو روایت کیا ہے ‘ یہ مدینہ منورہ میں مقام زوراء کا واقعہ ہے۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ‘ ٥٠٤)
حسن بصری (رح) نے حضرت انس (رض) سے ستر صحابہ کرام (رض) کے وضو کا واقعہ روایت کیا ہے ‘ یہ کسی سفر کا واقعہ ہے۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ‘ ٥٠٥) حمید نے حضرت انس (رض) سے اسی صحابہ کرام (رض) کے وضو کرنے کو روایت کیا ہے ‘ یہ مدینہ منورہ میں مسجد کے قریب کسی جگہ کا واقعہ ہے (صحیح بخاری ج ٢ ص ٥٠٥)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حضرت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مبارک انگلیوں کے درمیان سے چشمے پھوٹنے کا معجزہ متعدد بار سفر اور حضر میں رونما ہوا اور یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ سے کئی درجے افضل ہے۔
یہودیوں کے نبیوں کو قتل کرنے تورایت کی شہادت :
جب بنواسرائیل نے من اور سلوی کی بجائے زمین کی پیدوار میں سے گندم اور مسور کی دال وغیرہ کو طلب کیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو تعجب اور سرزنش کرتے ہوئے فرمایا : تم اس کامل اور لذیذ غذا کے بدلہ میں ادنی درجہ کی چیزیں مانگ رہے ہو ‘ تم کسی بھی زرعی زمین میں چلے جاؤ ‘ وہاں تم کو مطلوبہ اجناس مل جائیں گی ‘ لیکن بنواسرائیل نے جو کفران نعمت کیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واضح معجزات کا مذاق اڑایا اور انبیاء (علیہم السلام) کو قتل کیا ‘ کیونکہ انہوں نے اشعیا ‘ زکریا اور یحییٰ (علیہم السلام) وغیرھم کو بلاوجہ قتل کیا تھا ‘ اس کی سزا میں ان پر دنیا میں ذلت اور خواری مسلط کردی گئی اور وہ اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کی لعنت کے مستحق ہوئے اور اخروی عذاب دائم اس کے علاوہ ہے۔
بنواسرائیل نے انبیاء (علیہم السلام) کو جو ایذا پہنچائی اور قتل کیا اس کی شہادت تورات سے حسب ذیل ہے :
اور اخی اب نے سب کچھ کیا جو انبیاء نے کیا تھا اور یہ بھی کہ اس نے سب نبیوں کو تلوار سے قتل کردیا۔ (١۔ سلاطین ‘ باب : ١٩ آیت ١ پرانا عہد نامہ ص ٣٥٣‘ مطبوعہ لاہور)
اور شاہ اسرائیل نے کہا : میکایا (یہ نبی تھے۔ سعیدی غفرلہ) کو لے کر اسے شہر کے ناظم امون اور یوآس کے پاس لوٹا لے جاؤ اور کہنا : بادشاہ یوں فرماتا ہے کہ اس شخص کو قید خانہ میں ڈال دو اور اسے مصیبت کی روٹی کھلانا اور مصیبت کا پانی پلانا جب تک میں سلامت نہ آؤں۔ (١۔ سلاطین ‘ باب : ٢٢ آیت ٢٧۔ ٢٦ پرانا عہد نامہ ص ٣٥٧‘ مطبوعہ لاہور)
تب خدا کی روح یہویدع کاہن کے بیٹے زکریا پر نازل ہوئی سو وہ لوگوں سے بلند جگہ پر کھڑا ہو کر کہنے لگا : خدا یوں فرماتا ہے کہ تم کیوں خداوند کے حکموں سے باہر جاتے ہو کہ یوں خوش حال نہیں رہ سکتے ؟ چونکہ تم نے خداوند کو چھوڑا ہے اس نے بھی تم کو چھوڑا دیا۔ تب انہوں نے اس کے خلاف سازش کی اور بادشاہ کے حکم سے خداوند کے گھر کے صحن میں اسے سنگسار کردیا (٢۔ تورایخ ‘ باب : ٢٤ آیت ٢١۔ ٢٢ پرانا عہد نامہ ص ٤٤٦‘ مطبوعہ لاہور)
یرمیاہ نبی کے متعلق لکھا ہے۔
اور جب یرمیاہ قید خانہ کے صحن میں بند تھا خداوند کا یہ کلام اس پر نازل ہوا یرمیاہ باب ٣٩ آیت : ١٦۔
وہ کلام جو خداوند کی طرف سے یرمیاہ پر نازل ہوا ‘ اس کے بعد کہ جلو داروں کے سردار بنو زرادان نے اس کو رامہ سے روانہ کردیا ‘ جب اس نے اسے ہتھکڑیوں سے جکڑا ہوا ان سب اسیروں کے درمیان پایا جو یروشلم اور یہوداہ کے تھے جن کو اسیر کرکے بابل کو لے جارہے تھے۔ (یرمیہ باب ‘ : ٤٠ آیت : ١ پرانا عہد نامہ ص ٣٥٣‘ مطبوعہ لاہور)
حضرت یحییٰ کے متعلق لکھا ہے :
وہ فی الفور بادشاہ کے پاس جلدی سے اندر آئی اور اس سے عرض کی کہ میں چاہتی ہوں کہ یوحنا بپتسما دینے والے کا سر ایک تھال میں ابھی مجھے منگوا دے۔ بادشاہ بہت غمگین ہوا مگر اپنی قسموں اور مہمانوں کے سبب سے اس سے انکار نہ کرنا چاہا۔ پس بادشاہ نے فی الفور ایک سپاہی کو حکم دے کر بھیجا کہ اس کا سرلائے ‘ اس نے قید خانہ میں جا کر اس کا سرکاٹا اور ایک تھال میں لا کر لڑکی کو دیا اور لڑکی نے اپنی ماں کو دیا۔ (مرقس باب : ٦ آیت : ٢٩۔ ٢٦ نیا عہد نامہ ص ٣٥٣‘ مطبوعہ لاہور)
یہودیوں پر ذلت مسلط کیے جانے کے باوجود اسرائیل کی حکومت کی توجیہ :
یہودیوں پر ذلت اور مسکنت جو ڈالی گئی ہے ‘ اس سے مراد یہ ہے کہ ان کو ذلیل اور غیروں کا محتاج رکھا گیا ہے اگرچہ یہودی مال دار ہیں لیکن یہ بہت خسیس اور بخیل ہیں ‘ یہ مال جمع کرنے کی حرص میں ہمیشہ ذلت ‘ خواری اور بدحالی کی زندگی سیاست اور فوجی قوت میں بڑی طاقتوں خصوصا امریکہ کے محتاج ہیں ‘ قرآن مجید میں ہے :
(آیت) ” ضربت علیہم الذلۃ این ماثقفوا الا بحبل من اللہ وحبل من الناس : (آل عمران : ١١٢)
ترجمہ : یہ جہاں کہیں بھی رہیں ان پر خوار ہونا لازم کردیا گیا ہے بجز اس کے کہ یہ (کبھی) اللہ کی رسی اور (کبھی) لوگوں کی رسی کا سہارا لیں۔
اور آج کل جو ان کی حکومت قائم ہے وہ برطانیہ اور امریکہ کی رسی کے سہارے ہے۔

[Tibyan-ul-Quran 2:60]