بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنۡ يُّذۡكَرَ فِيۡهَا اسۡمُهٗ وَسَعٰـى فِىۡ خَرَابِهَا ‌ؕ اُولٰٓٮِٕكَ مَا كَانَ لَهُمۡ اَنۡ يَّدۡخُلُوۡهَآ اِلَّا خَآٮِٕفِيۡنَ ؕ لَهُمۡ فِى الدُّنۡيَا خِزۡىٌ وَّلَهُمۡ فِى الۡاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ

اور اس سے بڑا ظالم اور کون ہے جو اللہ کی مساجد میں اس کے نام کے ذکر سے منع کرے اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے ‘ یہ لوگ بغیر خوف کے مسجدوں میں داخل ہونے کے لائق نہیں ‘ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہے

آیت مذکورہ کے شان نزول کی تحقیق :

اس آیت کے شان نزول میں دو قول ہیں ‘ راجح قول یہ ہے :

امام ابن جریر (رح) اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : مجاہد نے بیان کیا ہے کہ اس سے مراد نصاری ہیں جو بیت المقدس میں گندگی پھینکتے تھے اور لوگوں کو اس میں نماز پڑھنے سے منع کرتے تھے۔ قتادہ (رح) نے کہا : اس سے مراد اللہ کے دشمن نصاری ہیں۔

جنہوں نے یہود کے بغض کی وجہ سے بخت نصر بابلی مجوسی کی بیت المقدس کو ویران کرنے میں مدد کی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد مشرکین ہیں ‘ ابن زید نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمرہ کرنے کے قصد سے (چودہ سو اصحاب کے ساتھ) مکہ مکرمہ روانہ ہوئے تو حدیبیہ کے مقام پر مشرکین نے آپ کو روک لیا اور عمرہ کرنے کے لیے مسجد حرام میں جانے نہیں دیا اور انہوں نے کہا : جن لوگوں نے ہمارے آباء و اجداد کو جنگ بدر میں قتل کیا تھا ہم ان کو مسجد حرام میں حج اور عمرہ کے لئے نہیں جانے دیں گے ‘ تب یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ کی مسجدوں میں اللہ کے نام کے ذکر سے روکنے والوں سے بڑھ کر اور کون ظالم ہوگا ‘ کیونکہ حج اور عمرہ سے روکنا ‘ مسجد حرام میں اللہ کے ذکر سے روکنا اور اس کو ویران کرنا ہے ‘ علامہ ابن جریر (رح) نے کہا ہے کہ اس آیت کے شان نزول میں پہلا قول راجح ہے کہ نصاری نے بخت نصر کی مدد سے بنو اسرائیل کے مومنوں کو بیت المقدس میں نماز پڑھنے سے منع کردیا تھا ‘ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس آیت کے سیاق اور سباق میں یہود اور نصاری کے برے افعال کا بیان کیا جارہا ہے ‘ مشرکین کی برائیوں کا بیان نہیں ہے ‘ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہرچند کہ مشرکین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوم حدیبیہ میں عمرہ کرنے سے روکا تھا ‘ لیکن ان کا مقصد مسجد حرام کو ویران اور برباد کرنا نہیں تھا ‘ بلکہ مسجد حرام کی تعمیر کرنے والے اور اس پر فخر کرنے والے تھے ‘ اس لئے آیت کا روئے سخن بخت مجوسی کی طرف ہی متوجہ ہے جو بیت المقدس کو ویران اور برباد کرنے کے لیے اس میں گندگی اور مردار ڈال دیتا تھا اور بنو اسرائیل کے مومنوں کو اس میں نماز پڑھنے سے منع کرتا تھا اور یہودیوں سے بغض کی وجہ سے نصاری اس کے شریک تھے۔ (جامع البیان ج ١ ص ‘ ٣٩٨۔ ٣٩٦‘ ملخصا ‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

ذکر بالجہر کی تحقیق :

اس آیت میں یہ دلیل بھی ہے کہ مسجدوں میں جہر متوسط کے ساتھ ذکر کرنا جائز ہے البتہ اس قدر گلا پھاڑ کر چلانا نہیں چاہیے جو مسجد کے احترام اور وقار کے بھی خلاف ہے اور اس سے دوسرے نمازیوں کی عبادت میں بھی خلل پڑتا ہے اور ان کا ذہن الجھتا ہے ‘ مسجد میں فرض نماز کے بعد ذکر بالجہر کے مشروع اور مسنون ہونے پر یہ دلیل ہے ‘ امام بخاری روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ فرض نماز سے فارغ ہونے کے بعد بلند آواز سے ذکر کرنا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں معروف تھا۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب اللہ اکبر کی آواز آتی تو میں جان لیتا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز سے فارغ ہوگئے ہیں۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ١١٦‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

امام مسلم (رح) روایت کرتے ہیں :

ابوالزبیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن الزبیر (رض) ہر نماز کے سلام پھیرنے کے بعدکہتے تھے : ” لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ “۔ (الی قولہ) اور حضرت ابن الزبیر (رض) بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ہر نماز کے بعد لا الہ الا اللہ “ آخرتک پڑھتے تھے۔ ١ (امام مسلم بن حجاج قشیری متوفی ٢٦١ ھ ‘ صحیح مسلم ج ١ ص ‘ ٢١٨ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ) حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کا یہ کہنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر نماز کے بعد لا الہ الا اللہ “ آخر تک پڑھتے تھے اس پر محمول ہے کہ آپ یہ ذکر بلند آواز کے ساتھ کرتے تھے ‘ جب ہی حضرت ابن الزبیر (رض) نے اس ذکر کو سنا اور یاد کرلیا ‘ اگر آپ یہ ذکر آہستہ کرتے تو حضرت ابن الزبیر (رض) کیسے سنتے ‘ اس وجہ سے امام ولی الدین تبریری متوفی ٧٤٢ ھ نے ” مشکوۃ “ میں اس حدیث کے الفاظ ” یقول بصوتہ الاعلی “ آپ بلند آواز سے ذکر فرماتے تھے “ لکھا ہے (مشکوۃ ص ٨٨) جب کہ ” صحیح مسلم “ میں یہ الفاظ نہیں ہیں لیکن حضرت ابن الزبیر کا ان الفاظ کو سننا اس وقت متصور ہوسکتا ہے جب آپ بلند آواز سے ذکر فرمائیں ‘ اس لحاظ سے اس کو روایت بالمعنی کہا جاسکتا ہے لیکن یہ امام تبریزی کا وہم نہیں ہے جیسا کہ ” حکم الذکر بالجہر “ کے مولف کو وہم ہوا ہے۔

ہم نے لکھا ہے کہ متوسط کے ساتھ ذکر کرنا صحیح ہے ‘ اور گلا پھاڑ کر اور چلا کر ذکر کرنا جس سے نمازیوں کی عبادت میں خلل ہو مکروہ ہے ‘ اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے ‘ امام بخاری (رح) روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوموسی ‘ عبداللہ بن قیس الاشعری المتوفی ٥٠ ھ بیان کرتے ہیں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ خیبر سے نکلے تو لوگ ایک میدان میں پہنچے اور انہوں نے بلند آواز سے اللہ اکبر ‘ اللہ اکبر ‘ کہنا شروع کردیا ‘ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنی جانوں پر نرمی کرو ‘ بیشک تم بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ‘ تم اس کو پکار رہے ہو جو سننے والا اور قریب ہے ‘ اور وہ تمہارے ساتھ ہے۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ‘ ٦٠٥ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

علامہ خیر الدین رملی نے لکھا ہے : اس حدیث میں اس جہر سے منع فرمایا ہے جو بہت شدید اور مضر ہو۔ (فتاوی خیریہ علی ھامش الحامدیہ ج ٢ ص ٢٨٢‘ مطبوعہ مکتبہ حبیبیہ ‘ کوئٹہ)

علامہ ابن عبادین شامی لکھتے ہیں :

بعض احادیث سے ذکر بالجہر کی تائید ہوتی ہے اور بعض سے ذکر خفی کی ‘ ان میں تطبیق اس طرح ہے کہ یہ اشخاص اور احوال کے اختلاف پر محمول ہیں اور جس حدیث میں ہے کہ سب سے بہتر ذکر خفی ہے وہ اس کے معارض نہیں ہے ‘ کیونکہ ذکر خفی اس وقت بہتر ہے جب جہر سے ریا کا خدشہ ہو یا کسی کی نیند یا عبادت میں خلل کا اندیشہ ہو اور جب یہ موانع نہ ہوں تو بعض علماء نے کہا کہ جہر افضل ہے کیونکہ اس کا نفع سننے والوں تک پہنچتا ہے اور اس کے قلب کو بیدار کرتا ہے اس کو غور وفکر کا موقع ملتا ہے ‘ اس کی نیند دور ہوتی ہے اور اس کی فرحت زیادہ ہوتی ہے اور علامہ حموی نے امام شعرانی سے نقل کیا ہے کہ تمام اگلے اور پچھلے علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ مساجد وغیرہ میں جماعت کے ساتھ ذکر بالجہر مستحب ہے ماسوا اس کے جب ان کے جہر سے سونے والے یا نماز پڑھنے والے یا قرآن پڑھنے والے کو تشویش اور خلل ہو۔ (رد المختار ج ١ ص ‘ ٤٤٤ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٤٠٧ ھ)

اس مبحث کو زیادہ تفصیل سے جاننے کے لئے ہمارا رسالہ ” ذکر بالجہر “ ملاحظہ فرمائیں۔

مسجد میں کافر کے دخول کے متعلق مذاہب ائمہ :

اس آیت میں ہے : یہ لوگ بغیر خوف کے مسجدوں میں داخل ہونے کے لائق نہیں۔

علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں۔

مسجد میں مشرک کے دخول کے متعلق کئی مذاہب ہیں ‘ فقہاء احناف کے نزدیک مسجد میں مشرک کا دخول جائز ہے ‘ امام مالک کے نزدیک مطلقا منع ہے اور امام شافعی (رح) کے نزدیک مسجد حرام میں مشرک کا داخلہ منع ہے اور باقی مساجد میں جائز ہے۔ (فتح الباری ج ١ ص ٥٦٠ مطبوعہ دار نشر الکتب الاسلامیہ ‘ لاہور ١٤٠١ ھ)

علامہ ابن قدامہ حنبلی (رح) لکھتے ہیں :

مسجد حرام میں ذمیوں کا داخلہ کسی صورت میں جائز نہیں اور غیر حرم کی مساجد کے متعلق دو روایتیں ہیں ‘ ایک روایت یہ ہے کہ مسلمانوں کی اجازت کے بغیر ان کا مساجد میں داخل ہونا جائز نہیں ہے اور دوسری روایت یہ ہے کہ کسی صورت میں بھی کافروں کا مسجد میں دخول جائز نہیں ہے۔ (المغنی ج ٩ ص ٢٨٧۔ ٢٨٦‘ ملخصا مطبوعہ دار الفکر بیروت)

علامہ قرطبی مالکی لکھتے ہیں :

حرم اور غیر حرم کسی مسجد میں بھی کافروں کا داخل ہونا جائز نہیں ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن ج ٤ ص ١٠٤ مطبوعہ انتشارات ناصر خسرو ایران ٗ ١٣٨٧ ھ)

علامہ محمد حصکفی حنفی (رح) لکھتے ہیں :

فقہاء احناف نے مساجد میں مشرکین کے گزرنے کو جائز کہا ہے خواہ وہ جنبی ہوں۔ (درمختار علی ھامش رد المختار ج ٥ ص ٢٤٨“ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت)

اس مبحث کو تفصیل کے ساتھ انشاء اللہ ہم سورة توبہ کی تفسیر میں لکھیں گے ‘ اور ” شرح صحیح مسلم “ جلد ثانی اور جلد سابع میں ہم نے اس بحث کو تفصیل سے ذکر کیا ہے ‘ فقہاء کے دلائل اور مذہب احناف کی ترجیح کو جاننے کے لئے اس کا مطالعہ فرمائیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور مشرق اور مغرب اللہ ہی کے لئے ہیں ‘ تم جہاں کہیں بھی منہ کرو گے وہیں اللہ کی طرف منہ کرو گے الایہ۔ (البقرہ : ١١٥)

” وللہ المشرق والمغرب “ کے شان نزول کا بیان :

امام ابن جریر طبری (رح) اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے جس چیز کو قرآن مجید نے منسوخ کیا وہ قبلہ ہے ‘ اور اس کا بیان یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے تو مدینہ میں زیادہ تر یہودی تھے ‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا ‘ یہود اس سے بہت خوش ہوئے ‘ آپ سولہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ چاہتے تھے کہ آپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں ‘ آپ اس کی دعا کر رہے تھے اور مسجد حرام کی طرف دیکھ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ ‘ نے یہ آیت نازل کی : (ترجمہ) ” بیشک ہم آسمان کی طرف آپ کے چہرہ کے پھرنے کو دیکھ رہے ہیں (الی قولہ) تم اپنے چہروں کو مسجد حرام کی طرف پھیر لو۔ “ اس وقت یہود نے یہ اعتراض کیا کہ ان کو ان کے پہلے قبلہ کی طرف سے کس نے پھیر دیا ؟ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :

اور مشرق اور مغرب اللہ ہی کے لیے ہیں ‘ تم جہاں کہیں بھی منہ کرو گے وہیں اللہ کی طرف منہ کرو گے۔ (جامع البیان ج ١ ص ‘ ٤٠٠۔ ٣٩٩ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

اس آیت کے شان نزول میں دوسرا قول یہ ہے :

امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

سعید بن جبیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) سفر میں جس طرف سواری کا منہ ہوتا اسی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لیتے اور وہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں : تم جہاں کہیں بھی منہ کرو گے وہیں اللہ کی طرف منہ کرو گے ‘ اور حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سواری پر نفل پڑھتین ‘ جس طرف سواری کا منہ ہوتا تھا اور اشارہ سے رکوع اور سجدہ فرماتے تھے۔

حضرت ربیعہ (رض) بیان کرتے تھے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے ‘ وہ سخت سیاہ اندھیری رات تھی ‘ ہم ایک جگہ ٹھہرے ‘ اور ہر شخص نے اپنی اپنی سجدہ گاہ کی طرف پتھر رکھے اور نماز پڑھی ‘ صبح کو معلوم ہوا کہ سب نے غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے ‘ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے اس رات غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : مشرق اور مغرب اللہ ہی کے لیے ہیں ‘ تم جہاں کہیں بھی منہ کرو گے وہیں اللہ ہی کی طرف منہ کرو گے۔ (جامع البیان ج ١ ص ‘ ٤٠١۔ ٤٠٠ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

چلتی ہوئی ٹرین میں فرض نماز پڑھنے کا جواز :

اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ سفر میں سواری پر نفل پڑھنا جائز ہیں خواہ سواری کا منہ کسی طرف ہو ‘ اور فرض نماز سواری پر بلا عذر پڑھنا جائز نہیں ہے کیونکہ قبلہ کی طرف منہ کرنا فرض ہے اور بلاعذر فرض ساقط نہیں ہوتا ‘ اور اگر عذر ہو تو پھر جائز ہے ‘ اور اگر راستہ میں کیچڑ ہو اور سوار سے نیچے اتر کر نماز پڑھنے سے کپڑے کیچڑ میں متلوث ہوں تو سواری پر فرض نماز پڑھنا جائز ہے۔

امام ترمذی (رح) روایت کرتے ہیں :

یعلی بن مرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رض) سفر میں تھے کہ نماز کا وقت آگیا ‘ آسمان سے بارش ہو رہی تھی اور نیچے زمین پر کیچڑ تھی ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سواری پر اذان دی اور اقامت کہی ‘ پھر آپ اپنی سواری پر آگے بڑھ گئے اور صحابہ (رض) آپ کے پیچھے سواریوں پر تھے ‘ آپ نے سواری پر انہیں اشارہ سے نماز پڑھائی ‘ آپ سجدہ میں رکوع سے زیادہ جھکتے تھے ‘ حضرت انس بن مالک (رض) سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے بھی کیچڑ کی وجہ سے سواری پر نماز پڑھی۔ (جامع ترمذی ص ‘ ٨٦ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

علامہ قاضی خاں اوزجندی لکھتے ہیں :

بغیر عذر کے سواری پر نماز پڑھنا جائز نہیں ہے ‘ اور اعذاریہ ہیں : چوپایہ (سواری) سے اترنے میں اسے اپنی جان یا چوپایہ کی جان کا درندہ سے یا چور سے خطرہ ہو یا زمین پر کیچڑ ہو اور خشک جگہ نہ پائے یا چوپایہ سرکش ہو ‘ اس سے اترنے کے بعد بغیر مددگار کے اس پر سوار نہ ہوسکتا ہو ‘ اور مددگار میسر نہ ہو ‘ ان احوال میں چوپایہ پر نماز جائز ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (ترجمہ) اگر تمہیں خوف ہو تو پیادہ یا سوار ہو کر نماز پڑھو۔ (البقرہ : ٢٣٩) اور سواری سے اترنے پر قادر ہونے کے بعد اس پر نماز کا دہرانا لازم نہیں ہے جیسا کہ مریض سواری پر اشاروں کے ساتھ نماز پڑھتا ہے خواہ چوپایہ اس وقت چل رہا ہو۔ (فتاوی قاضی خاں علی ھاہش الہندیہ ج ١ ص ١٧٠‘ مطبوعہ مطبع بولاق ‘ مصر ‘ البطعۃ الثانیۃ ‘ ١٣١٠ ھ)

” فتاوی عالمگیری “ میں کچھ مزید عذر بیان کیے گئے ہیں :

بغیر عذر کے چوپایہ پر فرض نماز جائز نہیں ہے اور اعذار یہ ہیں : چوپایہ سے اترنے میں اس کو اپنی جان یا اپنے کپڑوں یا سواری کی جان کا چور ‘ درندہ یا دشمن سے خطرہ ہو یا چوپایہ سرکش ہو اور اترنے کے بعد بغیر مددگار کے اس پر سوار نہ ہوسکتا ہو ‘ یا بوڑھا ہو اور خود سے سوار نہ ہوسکتا ہو اور سوار کرانے والا نہ پائے یا زمین پر کیچڑ ہو اور خشک جگہ نہ ہو “ ” محیط “ میں اسی طرح ہے اور اترنے پر قادر ہونے کے بعد اس پر اعادہ لازم نہیں ہے ‘ اسی طرح ” سراج وہاج “ میں ہے۔ (عالمگیری ج ١ ص ١٤٣‘ مطبوعہ مطبع کبری بولاق مصر ‘ الطبعۃ الثانیۃ ‘ ١٣١٠ ھ)

قاضی خان اور عالمگیری کے علاوہ یہ اعذار

علامہ کا سانی۔ ١ (ملک العلماء علاؤالدین بن مسعود کا سانی متوفی ٥٨٧ ھ ’ بدائع الصنائع ج ١ ص ١٠۔ ٩ مطبوعہ ایچ۔ ایم سعید ‘ کراچی ‘ ١٤٠٠ ھ)

علامہ ابن ہمام۔ ٢ (علامہ کمال الدین ابن ہمام متوفی ٨٦١ ھ فتح القدیر ج ١ ص ٤٠٣‘ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ ‘ سکھر)

علامہ بابرتی۔ ٣ (علامہ محمد بن محمود بابرتی متوفی ٧٨٦ ھ عنایہ علی ہامش فتح القدیر ج ١ ص ٤٠٣‘ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ ‘ سکھر)

علامہ خوارزمی۔ ٤ (علامہ جلال الدین خوارزمی کفایہ مع فتح القدیر ج ١ ص ٤٠٣‘ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ ‘ سکھر)

علامہ حلبی۔ ٥ (علامہ ابراہیم حلبی متوفی ٧٧٦ ھ غنیۃ المستملی ص ٢٧٠۔ ٢٦٩ مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ‘ ١٣٣٣ ھ)

علامہ شامی۔ ١ (علامہ ابن عابدین شامی متوفی ١٢٥٢ ھ ‘ ردالمختار ج ١ ص ٦٥٥‘ مطبوعہ مطبع عثمانیہ استنبول ‘ ١٣٢٧ ھ )

علامہ ابن نجیم۔ ٢ (علامہ زین الدین ابن نجیم متوفی ٩٧٠ ھ البحرالرائق ج ٢ ص ٦٤‘ مطبوعہ مکتبہ ماجدیہ ‘ کوئٹہ)

علامہ حصکفی۔ ٣ (علامہ علاؤ الدین حصکفی متوفی ١٠٨٨ ھ ردمختار علی ہامش الرد ج ١ ص ٦٥٦‘ مطبوعہ مطبعہ عثمانیہ استنبول ‘ ١٣٢٧ ھ)

علامہ شرنبلالی۔ ٤ (علامہ حسن بن عمار شرنبلالی متوفی ١٠٦٩ ھ ‘ مراتی الفلاح علی ہامش الطحطاوی ص ٢٤٤‘ مطبوعہ مطبع مصطفیٰ البابی ‘ مصر الطبعۃ الثانیۃ)

علامہ طحطاوی۔ ٥ (علامہ احمد بن محمد الطحطاوی متوفی ١٢٣١ ھ ‘ حاشیۃ الطحطاوی ص ٢٤٤‘ مطبوعہ مطبع مصطفے البابی مصر ‘ الثانیۃ ‘ ١٣٥٦ ھ)

علامہ شبلی۔ ٦ (شیخ شبلی حاشیہ الشبلی علی تبیین الحقائق ج ١ ص ١٧٧‘ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ‘ ملتان ‘)

علامہ ابن بزار کردری۔ ٧ (علامہ محمد ابن بزاز کردری متوفی ٨٢٧ ھ ‘ فتاوی بزازیہ علی ہامش الہندیہ ج ٤ ص ٧٠‘ مطبوعہ مطبع کبری بولاق ‘ مصر الطبعۃ الثانیۃ)

اور مولانا امجد علی۔ ٨ (مولانا امجد علی متوفی ١٣٢٧ ھ ‘ بہار شریعت ج ٤ ص ١٩‘ مطبوعہ شیخ غلام علی اینڈ سنز ‘ کراچی) نے بھی بیان کئے ہیں

جب کوئی تیز رفتار ایکسپریس ٹرین نماز کے پورے وقت میں کسی سٹیشن پر نہ رکے تو چلتی ٹرین میں فرض نماز پڑھنا جائز ہے بلکہ فرض ہے کیونکہ قرآن مجید (البقرہ : ٢٣٩) سے یہ واضح ہوگیا کہ اگر جان جانے کا خطرہ ہو تو سواری پر نماز پڑھی جاسکتی ہے اور چلتی ٹرین سے نیچے اتر کر نماز پڑھنے میں یقیناً جان کا خطرہ ہے ‘ ہمارے فقہاء نے اس سے کم تر خطرہ میں سواری پر فرض نماز پڑھنے کو جائز لکھا ہے اور یہ بیان کیا ہے کہ اس میں نماز کا اعادہ نہیں ہے ‘ جب کیچڑ میں لتھڑنے کے اندیشہ سے اور قافلہ سے کٹ جانے کے خدشہ سے چلتی سواری پر نماز جائز ہے تو جان کے خطرہ کی وجہ سے تیز رفتار دوڑتی ہوئی ٹرین میں فرض نماز پڑھنا بہ طریق اولی جائز ہوگا۔

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت 114