بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَدۡ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجۡهِكَ فِى السَّمَآءِ‌‌ۚ فَلَـنُوَلِّيَنَّكَ قِبۡلَةً تَرۡضٰٮهَا‌ ۚ فَوَلِّ وَجۡهَكَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِؕ وَحَيۡثُ مَا كُنۡتُمۡ فَوَلُّوۡا وُجُوۡهَكُمۡ شَطۡرَهٗ ‌ؕ وَاِنَّ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ لَيَـعۡلَمُوۡنَ اَنَّهُ الۡحَـقُّ مِنۡ رَّبِّهِمۡ‌ؕ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعۡمَلُوۡنَ

بیشک ہم آپ کے چہرے کا آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں سو ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف ضرور پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں ‘ پس آپ اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں اور (اے مسلمانو ! ) تم جہاں کہیں بھی ہو اپنا چہرہ اسی کی طرف پھیر لو ‘ اور بیشک اہل کتاب کو علم ہے کہ یہ (حکم) ان کے رب کی طرف سے حق ہے اور جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اس سے غافل نہیں ہے

نماز میں قبلہ کی طرف منہ کرنے کی تحقیق :

امام ابن جریر طبری اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔

قتادہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آسمان کی طرف چہرہ کیے ہوئے تھے اور آپ یہ چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کعبہ کی طرف پھیر دے تو یہ آیت نازل ہوئی : (ترجمہ) بیشک ہم آپکے چہرہ کا آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں ‘ سو ہم آپ کو اس قبلہ کی پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں۔ (البقرہ : ١٤٤) (جامع البیان ج ٢ ص ‘ ١٣ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

حسن بیان کرتے ہیں کہ جبریل (علیہ السلام) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر یہ خبر دی کہ عنقریب اللہ تعالیٰ قبلہ کو بیت المقدس سے پھیر کر کسی اور سمت پر کر دے گا ‘ اور نہیں بیان کیا تھا کہ کس سمت آپ کو پھیرے گا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب سے زیادہ یہ محبوب تھا کہ کعبہ کو قبلہ بنادیا جائے اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے چہرہ کو آسمان کی طرف پھیر کر وحی کا انتظار کر رہے تھے ‘ تب یہ آیت نازل ہوئی (جامع البیان ج ٢ ص ‘ ١٤ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور (اے مسلمانو ! ) تم جہاں کہیں بھی ہو اپنا چہرہ اسی کی طرف پھیرو۔ (البقرہ : ١٤٤)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں پر مسجد حرام کی طرف منہ کرنا فرض کردیا خواہ وہ کسی جگہ ہوں ‘ اگر کوئی شخص بیت المقدس میں بھی ہو تو اس پر بیت اللہ کی طرف منہ کرنا فرض ہے۔ علامہ حصکفی حنفی نے لکھا ہے کہ جو شخص بیت اللہ کا مشاہدہ کر رہا ہو اس پر بعینہ کعبہ کی طرف منہ کرنا فرض ہے اور جو شخص کعبہ سے غائب ہو اس پر اس کی سمت کی طرف منہ کرنا فرض ہے۔ (درمختار علی ھامش رد المختار ج ١ ص ٢٨٧ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت)

علامہ قرطبی مالکی لکھتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسجد (حرام) والوں کے لیے بیت اللہ قبلہ ہے ‘ اور اہل حرم کے لیے مسجد قبلہ ہے اور تمام روئے زمین پر میری امت کے مشرق اور مغرب والوں کے لیے مسجد حرام قبلہ ہے ‘ اور جو شخص مسجد حرام میں ہو اس کو اپنے چہرے کا رخ کعبہ کی طرف کرنا چاہیے کیونکہ روایت ہے کہ کعبہ کی طرف دیکھنا عبادت ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لو ‘ اس سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ نماز کی حالت قیام میں نظر سامنے قبلہ کی طرف ہونی چاہیے نیز قیام کا حکم سارے جسم کے لیے ہے اور چہرہ اشرف الاعضاء ہے ‘ اس کے قیام کا حکم بہ طریق اولی ہوگا اور چہرہ کا قیام اس وقت ہوگا جب چہرہ کا رخ بیت اللہ کی جانب ہو اور یہی امام مالک کا مذہب ہے ‘ اس کے برخلاف امام ابوحنفیہ (رح) اور امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ قیام میں سجدہ کی جگہ نظر ہو رکوع میں قدموں کی جگہ اور سجدہ میں ناک کی طرف نظر ہو۔ (الجامع الاحکام القرآن ج ٢ ص ١٦٠۔ ١٥٩‘ ملخصا ‘ مطبوعہ انتشارات ناصر خسرو ایران ٗ ١٣٨٧ ھ)

علامہ ابن عابدین شامی حنفی لکھتے ہیں :

قیام میں نظر موضع سجود کی طرف ہونی چاہیے اور رکوع میں قدموں کی پشت پر اور سجدہ میں ناک کے نرم گوشے کی طرف اور بیٹھتے وقت گود میں اور اسلام کے وقت کندھوں کی طرف ‘ اس کے اطلاق کا تقاضا یہ ہے کہ جو شخص کعبہ کا مشاہدہ کر رہا ہو ‘ اس کی نظر بھی ان ہی مواضع کی طرف ہو ‘ کیونکہ اس سے مقصود خشوع ہے ‘ جب وہ قصدا ان مواضع کی طرف دیکھے گا تو اس کی توجہ ادھر ادھر ہٹنے سے محفوظ رہے گی اور جب کہ مقصود خشوع ہے ‘ جب وہ قصدا ان مواضع کی طرف دیکھے گا تو اس کی توجہ ادھر ادھر ہٹنے سے محفوظ رہے گی اور جب کہ مقصود خشوع ہے اور ان مواضع کی طرف دیکھنے سے خشوع حاصل نہ ہو تو ان سے عدول کرسکتا ہے۔ (رد المختار ج ١ ص ٣٢١‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٤٠٧ ھ)

خشوع کا معنی ہے : عجز اور انکسار کرنا اور آنکھیں نیچی کرنا ‘ اور اللہ تعالیٰ نے خشوع کے ساتھ نماز پڑھنے کی مدح فرمائی ہے :

(آیت) ” قد افلح المؤمنون۔ الذین ھم فی صلاتھم خشعون “۔۔ (المؤمنون : ٢۔ ١)

ترجمہ : بیشک ایمان ایمان والے کامیاب ہوئے۔ جو خشوع کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔

اس لیے نماز کی حالت قیام میں سجدہ گاہ پر نظر رکھنا ‘ خشوع کے ساتھ نماز پڑھنے کا طریقہ ہے اور یہ کعبہ کی طرف چہرہ کرنے کے منافی نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اور بیشک اہل کتاب کو علم ہے کہ یہ (حکم) ان کے رب کی طرف سے حق ہے :۔ (البقرہ : ١٤٤)

اہل کتاب کو تحویل قبلہ کے برحق ہونے کا علم :

یعنی یہود اور نصاری کو یہ علم ہے کہ تحویل قبلہ کا یہ حکم ان کے رب کی طرف سے حق ہے ‘ اس پر یہ اعتراض ہے کہ یہود و نصاری کو کیسے یہ علم ہوگا حالانکہ یہ حکم ان کے دین میں تھا نہ ان کی کتاب میں لکھا ہوا تھا ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کو اپنی کتاب سے یہ علم تھا کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برحق نبی ہیں ‘ آپ اللہ کی وحی کے سوا کوئی بات نہیں کہتے اور آپ کی کہی ہوئی ہر بات حق اور صواب ہے ‘ دوسرا جواب یہ ہے کہ ان کو اپنے دین سے یہ معلوم تھا کہ احکام منسوخ ہوتے رہتے ہیں اس لیے ان کو علم تھا کہ یہ حکم بھی منسوخ ہوسکتا ہے اس لیے تحویل قبلہ پر اعتراض کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی ‘ تیسرا جواب یہ ہے کہ ان کو اپنی کتاب سے علم تھا کہ کعبہ ہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ تھا اور یہی اللہ کا سب سے پہلا گھر ہے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملت ابراہیم کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے ‘ چوتھا جواب یہ ہے کہ معجزات اور دیگر دلائل سے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت ثابت ہوچکی تھی ‘

اس لیے ان کو لامحالہ تھا کہ جس جانب کو آپ نے قبلہ قرار دیا ہے وہی قبلہ ہے ‘ پانچواں جواب یہ ہے کہ ان کی کتاب میں تحویل قبلہ کا حکم بھی لکھا ہوا تھا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور (اے مخاطب ! ) اگر علم حاصل ہونے کے بعد تو نے ان کی خواہشات کی پیروی کی تو تو بیشک ضرور ظلم کرنے والوں میں سے ہوگا۔۔ (البقرہ : ١٤٥)

علماء سے معصیت کے صدور کا زیادہ قبیح ہونا :

اس آیت میں خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے اور مراد آپ کی امت ہے جن کے لیے خواہش کی اتباع کرنا محال نہیں ہے کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معصوم ہیں ‘ اور آپ کا ظالم ہونا آپ کی نبوت کے منافی ہے اور محال بالغیر ہے۔

اس آیت میں فرمایا ہے کہ علم حاصل ہونے کے بعد اگر اہل کتاب کی اتباع کی تو ضرورتو ظالموں میں سے ہوگا ‘ اس آیت میں علم کی قید لگائی ہے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ کسی معصیت پر علماء کے حق میں وعید بہت شدید ہوتی ہے ‘ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں علم سب سے عظیم نعمت ہے اور جس کو سب سے عظیم نعمت دی ہے اس سے نافرمانی اور گناہ کا صدور سب سے زیادہ قبیح ہے۔

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت 144