بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَاِذَا قَضَيۡتُمۡ مَّنَاسِكَکُمۡ فَاذۡکُرُوا اللّٰهَ كَذِكۡرِكُمۡ اٰبَآءَکُمۡ اَوۡ اَشَدَّ ذِکۡرًا ؕ فَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يَّقُوۡلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِى الدُّنۡيَا وَمَا لَهٗ فِى الۡاٰخِرَةِ مِنۡ خَلَاقٍ

پھر جب تم حج کی عبادات مکمل کر چکو تو اس طرح اللہ کا ذکر کرو جیسے اپنے باپ دادا کا ذکر کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ کرو کرو ‘ اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں دے اور ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے

زمانہ جاہلیت میں لوگ حج کی عبادات سے فارغ ہونے کے بعد اپنے آباء و اجداد کی بڑائی بیان کرتے تھے اور ان کے کارناموں کا ذکر کرتے تھے ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کہ حج سے فارغ ہونے کے بعد تم اپنے آباء اجداد کی بڑائی بیان کرنے کے بجائے اللہ کی کبریائی اور اس کی عظمتوں کا ذکر کرو اور جتنا اپنے آباء و اجداد کا ذکر کرتے تھے اس سے زیادہ اللہ کا ذکر کرو ‘ امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ لوگ حج میں اپنے آباء کا ذکر کرتے تھے بعض کہتے کہ میرا باپ لوگوں کو کھانا کھلاتا تھا ‘ بعض کہتے کہ میرا باپ تلوار کا دھنی تھا ‘ بعض کہتے کہ میرے باپ نے فلاں ‘ فلاں کی گردنیں اڑادیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں : اے ہمارے رب ! دنیا میں دے اور ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔۔ (البقرہ : ٢٠٠)

دوزخ سے پناہ اور جنت کی طلب کی دعا کرنا ‘ انبیاء کرام اور صحابہ کا طریقہ ہے :

اس آیت سے اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے : اے مسلمانو ! حج کی عبادات سے فارغ ہو کر زیادہ اللہ کا ذکر کرو اور اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت کی خیر مانگنے میں رغبت کرو ‘ اور اللہ تعالیٰ سے بہت عاجزی اور گڑگڑا کر دعا کرو ‘ خالص اللہ عزوجل کی رضاجوئی کے لیے عبادت کرو ‘ اور یہ دعا کرو کہ اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں خیر عطا فرما اور آخرت میں خیرعطا فرما اور ہمیں دوزخ کی آگ سے بچا اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے آخرت میں بدلہ میں دنیا کی زندی کو خرید لیا اور وہ صرف دنیا اور اس کی زینت کے لیے عمل کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے بھی صرف متاع دنیا کا سوال کرتے ہیں ‘ ان کے لیے اجر وثواب میں سے کوئی حصہ نہیں ہے۔ امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

ابوبکر بن عیاش بیان کرتے ہیں کہ حج سے فارغ ہو کردیا دعا کرتے تھے ‘ اے اللہ ! ہمیں اونٹ دے ‘ ہمیں بکریاں دے۔

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ لوگ بیت اللہ کا برہنہ طواف کرتے اور یہ دعا کرتے : اے اللہ ! ہم پر بارش نازل کر ‘ اے اللہ ! ہمیں ہمارے دشمنوں پر فتح عطا کر۔

مجاہد بیان کرتے ہیں کہ وہ دنیا میں مدد اور رزق مانگتے تھے اور آخرت کے متعلق کوئی سوال نہیں کرتے تھے (جامع البیان ج ٢ ص ١٧٤‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

دنیا کی بھلائی سے مراد ہے : عافیت ‘ نیک بیوی ‘ علم ‘ عبادت ‘ پاکیزہ مال ‘ نیک اولاد ‘ صحت ‘ دشمنوں پر فتح ‘ نیک لوگوں کی رفاقت ‘ اسلام پر ثابت قدمی اور ایمان پر خاتمہ اور آخرت کی بھلائی سے مراد جنت ‘ برے حساب اور محشر کے خوف سے سلامتی حورعین اور دیدار الہی کی لذت ہے۔

ان آیات میں یہ تصریح ہے کہ حج کی عبادات سے فارغ ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے دنیا کے لیے اور آخرت کی خیر کے لیے اور اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرنا چاہیے اور دوزخ سے پناہ طلب کرنی چاہیے ‘ ہمارے زمانہ کے جاہل صوفیوں میں یہ مشہور ہے کہ عبادت بےغرض کرنی چاہیے ‘ جنت کی طلب اور دوزخ سے پناہ کی دعا نہیں کرنی چاہیے وہ کہتے ہیں کہ رابعہ بصریہ ایک ہاتھ میں آگ لیے جارہی تھیں ‘ کسی نے پوچھا : اے رابعہ ! یہ کیا ہے ؟ کہا : لوگ جنت کی طلب اور دوزخ کے ڈر سے اللہ کی عبادت کرتے ہیں ‘ میں چاہتی ہوں کہ جنت کو آگ لگادوں اور دوزخ کی آگ بجھادوں تاکہ جنت کا شوق رہے نہ دوزخ کا خوف اور سب بغیر کسی غرض اور عوض کے اللہ کی عبادت کریں۔

علامہ آلوسی حنفی لکھتے ہیں :

بعض جعلی صوفیوں سے منقول ہے کہ ہم اللہ کی عبادت محض اس کی ذات کی وجہ سے کرتے ہیں اور ہم اس سے کسی قسم کی غرض یا کسی عوض کی طلب نہیں رکھتے ان کا یہ قول بہت بڑا جہل ہے اور قریب بہ کفر ہے جیسا کہ امام غزالی نے فرمایا : بغیر غرض کے کوئی کام کرنا یہ اللہ تعالیٰ کے کاموں کا خاصہ ہے ‘ جب کہ بعض علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے افعال بھی کسی حکمت پر مبنی ہوتے ہیں ‘ تو بندہ کے افعال بغیر کسی حکمت اور غرض کے کیسے ہوسکتے ہیں ‘ ہاں بعض اوقات انسان کی توجہ محض اللہ کی رضا کی طرف ہوتی ہوتے ہیں ‘ توبندہ کے افعال بغیر کسی حکمت اور غرض کے کیسے ہوسکتے ہیں ‘ ہاں بعض اوقات انسان کی توجہ محض اللہ کی رضا کی طرف ہوتی ہے اور وہ جنت کے شوق اور دوزخ کے خوف سے قطع نظر کرکے محض اس کی رضا کے لیے عبادت کرتا ہے لیکن یہ بہت اونچا مقام ہے اور سوائے اس کے مخلصین کے اور کسی کو حاصل نہیں ہوتا۔ (روح المعانی ج ٢ ص ‘ ٩٠ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد فرماتا ہے :

(آیت) ” ومسکن طیبۃ فی جنت عدن ورضوان من اللہ اکبر “۔ (التوبہ : ٧٢)

ترجمہ : اور دائمی رہائش کی جنتیں ہیں اور اللہ کی رضا (ان) سب سے زیادہ بڑی ہے۔

(آیت) ” ومن الناس من یشری نفسہ ابتغآء مرضات اللہ “۔ (البقرہ : ٢٠٧)

اور بعض (بلندہمت) لوگ وہ ہیں جو اللہ کی رضاجوئی کے لیے اپنی جان کا سودا کرلیتے ہیں۔

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مخلصین اور بلند ہمت لوگ جنت کی طلب اور دوزخ سے پناہ کی دعا نہیں کرتے۔

انبیاء کرام اور صحابہ کرام (رض) اور صحابہ عظام سے زیادہ مخلص اور بلندہمت اور کون ہوگا ‘ انہوں نے جنت کے حصول کی دعا کی ہے اور دوزخ سے پناہ طلب کی ہے۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا مذکور ہے :

(آیت) ” واجعلنی من ورثۃ جنۃ النعیم “۔۔ (الشعراء : ٨٥)

ترجمہ : اور مجھ کو نعمت والی جنت کے وارثوں میں شامل کردے۔

امام ابن ماجہ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص سے فرمایا : تم نماز میں کیا پڑھتے ہو ؟ اس نے کہا : میں تشہد پڑھنے کے بعد اللہ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور دوزخ سے پناہ طلب کرتا ہوں ‘ بہ خدا جتنی عمدگی سے آپ آہستہ آہستہ دعا کرتے ہیں اور معاذ آہستہ آہستہ دعا کرتے ہیں اتنی عمدگی سے دعا نہیں کرسکتا ‘ آپ نے فرمایا : ہم بھی یہی دعا کرتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ ص ٢٧٣۔ ٦٥‘ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

اس حدیث کو امام احمد نے بھی روایت کیا ہے۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٢٧٣‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)

نیز امام ابوداؤد روایت کرتے ہیں :

قتادہ نے حضرت انس سے سوال کیا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کون سی دعا زیادہ مانگتے تھے ؟ حضرت انس نے کہا : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو دعا بہت زیادہ مانگتے تھے وہ یہ ہے اے اللہ ! ہم کو دنیا کی خیر اور آخرت کی خیر عطا فرما اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچا (سنن ابوداؤد ج ٣ ص ‘ ٤٣ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ)

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت 200