حدیث نمبر :137

روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی فرماتے ہیں کہ مردہ قبر میں پہنچتا ہے پھر اپنی قبر میں بٹھایا جاتا ہے نہ گھبرایا ہوا نہ پریشان ۱؎ پھر اس سے کہا جاتا ہے تو کس دین میں تھا ؟وہ کہتا ہے اسلام میں تھا۲؎ پھر کہا جاتا ہے یہ کون صاحب ہیں؟وہ کہتاہے محمدرسول اﷲ ہیں جو ہمارے پاس رب کی طرف سے نشانیاں لائے ہم نے ان کی تصدیق کی۳؎ تب کہا جاتا ہے کیا تو نے اﷲ کو دیکھا ہے ؟۴؎ وہ کہتا ہے کوئی خدا کو نہیں دیکھ سکتا۵؎ پھر دوزخ کی طرف کھڑکی کھولی جاتی ہے وہ ادھر دیکھتا ہے کہ بعض بعض کو کچل رہی ہے ۶؎ پھر اس سے کہاجاتا ہے کہ ادھر دیکھو جس سے تجھے اﷲ نے بچالیا ۷؎ پھر جنت کی طرف کھڑکی کھولی جاتی ہے تو وہ اس کی ترو تازگی کی طرف اور جو اس میں ہے دیکھتا ہے۸؎ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ تیرا ٹھکانہ ہے تو یقین پر تھا اسی پر مرا اور ان شاءاﷲ اسی پر اٹھے گا ۹؎ برا آدمی اپنی قبر میں بٹھالا جاتا ہے حیران پریشان۱۰؎ اس سے کہا جاتا ہے تو کس دین میں تھا؟وہ کہتا ہے مجھے نہیں خبر پھرکہا جاتا ہے یہ صاحب کون ہیں؟وہ کہتا ہے میں نے لوگوں کو کچھ کہتے سنا وہ میں نے بھی کہا تھا ۱۱؎ تب اس کے سامنے جنت کی طرف کھڑکی کھولی جاتی ہے وہ وہاں کی ترو تازگی اور جو کچھ اس میں ہے دیکھتا ہے پھر اس سے کہا جاتا ہے وہ دیکھ جو اﷲ نے تجھ سے پھیر دیا پھر دوزخ کی طرف کھڑکی کھولی جاتی ہے دیکھتا ہے کہ بعض بعض کو کچل رہا ہے پھر کہا جاتا ہے یہ ہے تیرا ٹھکانہ۲؎۱ تو شک پر تھا اس پر مرا اسی پر ان شاءاﷲ اٹھے گا۳؎۱(ابن ماجہ)

شرح

۱؎ یہ مؤمن کا حال ہوگا اسی اطمینان کی وجہ سے سوالات کا جواب آسانی سے دے گا وہ دنیا میں کافی گھبرا اور ڈرچکا اب اس کے اطمینان کا زمانہ آگیا۔

۲؎ یعنی زندگی میں بھی اسلام پر تھا اور اب بھی لیکن چونکہ سزاوجزا کا دارومدار زندگی کے ایمان و اعمال پر ہے اس لیئے یہاں اسی کا ذکر کیا گیا،بعض صالحین قبر میں تلاوت قرآن،بلکہ نمازبھی اداکرتے ہیں مگر انہیں اس کا کوئی ثواب نہیں،لذات روحانی ہے،اسی لیئے بزرگوں کی ارواح کو بھی نیکیوں کا ثواب بخشاجاتاہے لہذا حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ کُنْتُ کیوں فرمایا۔

۳؎ خیال رہے کہ اگرچہ اسلام میں توحید،رسالت اور سارے عقائد آگئے تھے لیکن پھر بھی آخری سوال حضور کے بارے میں ہوتا ہے۔کلمہ ختم ہو تو ان کے نام پر،نمازختم ہو تو ان کے سلام پر،امتحان قبر ختم ہو تو ان کی پہچان پر،خاتمیت کا سہرا انہی کے سر ہے،ہر جگہ نجات انہی کے سہارے ہے۔

۴؎ یعنی تو جو کہتا ہے وہ اﷲ کے پاس سے نشانیاں لائے کیا تونے خدا کو انہیں نبی بناکر بھیجتے،نشانیاں دیتے دیکھا تھا ؟ وہ کہتا ہے کہ خود تو نہیں دیکھا،دیکھنے والے محبوب سے سنا تھا،مجھے ان کے کلام پر اپنی آنکھوں سے زیادہ اعتماد ہے،میری آنکھیں جھوٹی ہوسکتی ہیں ان کا کلام غلط نہیں ہوسکتا۔خیال رہے کہ یہ گفتگو امتحان کے علاوہ ہے۔فرشتے خوش ہو کر اس سے یہ باتیں کرتے ہیں۔

۵؎ دنیا میں ان آنکھوں سے۔سبحان اﷲ!جاہل مسلمان بھی مرتے ہی عقائد کا عالم بن جاتا ہے۔

۶؎ خیال رہے کہ مؤمن کو اس وقت دوزخ کی آگ نظر آتی ہے تکلیف بالکل نہیں پہنچاتی،کچلنے کا یہ مطلب ہے کہ اس قدر زیادہ آگ ہے گویا آگوں کی بھیڑہوگئی ہے کہ بعض بعض کو کچلے دیتی ہے۔

۷؎ اس سے دو مسئلےمعلوم ہوئے:ایک یہ کہ دوزخ سے بچنا محض اپنے عمل سے نہیں بلکہ رب تعالٰی کے فضل سے ہے کہ اسی کے کرم سے قبر میں کامیابی ہوتی ہے۔دوسرے یہ کہ ہر شخص کی جگہ جنت میں بھی ہے اور دوزخ میں بھی،مؤمن جنت میں اپنی جگہ بھی سنبھالتاہے اور کافر کی بھی،مؤمن کو دوزخ کی جگہ پہلے دکھانا اسے زیادہ خوش کرنے کے لیئے ہے۔

۸؎ صرف دیکھتا ہی نہیں بلکہ اس سے فائدہ بھی اٹھاتا ہے اور دوزخ کی کھڑکی فورًا بندکردی جاتی ہے مگر یہ کھڑکی تا قیامت کھلی رہتی ہے۔

۹؎ یعنی دنیا میں تجھے اپنے عقائد کا علم الیقین تھا جو سن کر حاصل ہوا،قبر میں ان سب چیزوں کو دیکھ کر عین الیقین حاصل ہوا۔اور بعد حشر وہاں پہنچ کر حق الیقین نصیب ہوگا،یقین دائمی رہا اس کے مرتبوں میں ترقی ہوتی رہی یاد رکھو کہ جیسے جیو گے ویسے ہی مرو گے ان شآءاﷲ فرمانا برکت کے لیے ہے نہ کہ شک کے لیئے رب تعالٰی نے فرمایا:”لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنۡ شَآءَ اللہُ “۔

۱۰؎ کیونکہ کافر دنیا میں خدا سے بے خو ف رہا اب اس کا خو ف شروع ہوگیا۔

۱۱؎منافق نے فقط زبان سے لوگوں کی دیکھا دیکھی رسول اﷲ کہہ دیا تھا،کافر اپنے دوستوں سے سن کر انہیں جادو گر وغیرہ کہتے تھے،غرض تسلی بخش جواب نہ دے سکے گا۔

۱۲؎ یہاں بھی گزشتہ تقریر یاد رہے کہ کافر جنت کو صرف دیکھتا ہے اس سے فائدہ بالکل نہیں اٹھاتا اور جنت کی کھڑکی فورًا بند بھی کردی جاتی ہے یہ دکھانا زیادتی حسرت کے لیئے ہے دوزخ کو دیکھتا بھی ہے اور اس کی گرمی سے تکلیف بھی پاتا ہے اور یہ کھڑکی کبھی بند بھی نہیں ہوتی۔

۳؎۱ عام کافروں کو اپنے دین پر جزم نہیں ہوتا،ذرا سی مصیبت میں دین چھوڑ دیتے ہیں،رب تعالٰی فرماتا ہے:”دَعَوُا اللہَ مُخْلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ”ہم نے ہندؤوں کو مسجدوں کے دروازہ پر نمازیوں کے جوتوں کی خاک چومتے دیکھا ہے،مشائخ کرام کے تلوؤں کو چومتے دیکھا ہے،اور جن خاص کافروں کو اپنے مذہب پر جزم اوراعتماد ہے وہ بھی یقین نہیں کہلاتا بلکہ جہل مرکب یعنی جھوٹی بات کو سچا جان لینا،نیز اس کا یہ اعتماد مرتے ہی ختم ہوجاتا ہے،اب اسے مرنے کے بعد سمجھ میں نہیں آتا کہ دین برحق کیا ہے لہذا اس حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ بہت سے کافرو ں کو اپنے مذہب پر یقین ہوتا ہے پھرحدیث کیونکہ صحیح ہوئی۔