رسول اللہ ﷺ کا کردار، مقصد، صبر و برداشت، اخلاق اور قوت
_______________________________
دین اسلام کے طریقہ کار کو سمجھنے کے لئے آج بالکل بنیادی باتیں احباب کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.
آج اسلام کے نام پر امن کا درس دینے والے ہوں یا تشدد کی راہ کو اپنانے والے سب کے پاس ہی اپنے اپنے دلائل موجود ہیں. اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے تمام شعبوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے
ان گزارشات کو پانچ حصوں پر تقسیم کرنا پڑے گا..
(1) رسول اللہﷺ کا کردار
آپﷺ کی زندگی کے ابتدائی چالیس سال کردار کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں کہ دشمن سے دشمن کافر بھی آپ کے صادق و امین ہونے کا اقرار کرتا ہے.
جب رسول اللہ ﷺ نے صفا کی چوٹی پر کھڑے ہو کر تمام اہل مکہ کو خطاب فرمایا
آغازِ کلام اس طرح کیا
حاضرین !
اگر میں تمھیں کہوں کہ پہاڑ کی دوسری جانب سے ایک لشکر تم پر حملہ کرنے کے لئے بڑھتا چلا آ رہا ہے تو کیا تم میری بات تسلیم کرو گے؟
سب نے جواب دیا بے شک تسلیم کریں گے کیونکہ آج تک آپ کی زبان سے ہم نے کبھی بھی ایسی بات نہیں سنی جو غلط ہو، اور پھر آپ نے دعوت اسلام دی اور فرمایا کہ اپنے آپ کو آگ کے عذاب سے بچاؤ…
یہ تھا رسول اللہ ﷺ کا کردار جس کی گواہی کافر بھی دیتے تھے
(2) رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری کا مقصد
قرآنی تعلیمات اور نبوی ہدایات کے ذریعہ دنیا کو بدلا، عرب وعجم میں انقلاب برپاکیا، عدل وانصاف کو پروان چڑھایا، حقوق کی ادائیگی کے جذبوں کو ابھارا، احترامِ انسانیت کی تعلیم دی، قتل وغارت گری سے انسانوں کو روکا، عورتوں کو مقام ومرتبہ عطاکیا، غلاموں کو عزت سے نوازا، یتیموں پر دستِ شفقت رکھا، ایثار و قربانی، خلوص و وفاداری کے مزاج کو پیدا کیا، احساناتِ خداوندی سے آگاہ کیا، مقصدِ حیات سے باخبر کیا، رب سے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑا، جبینِ عبدیت کو خدا کے سامنے ٹیکنے کا سبق پڑھایا اور توحید کی تعلیمات سے دنیا کو ایک نئی صبح عطا کی
(3) صبر و برداشت کی انتہا
صبرو برداشت کے بارے میں پڑھنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین رکھیے کہ یہ تمام احوال مکی زندگی کے 13 سالوں کے ہیں. لیکن اخلاق ہمیشہ کے لئے ہے
ام جمیل ہاتھ میں پتھر لئیے رسول اللہ ﷺ کو تلاش کرتی ہے، ابو سفیان رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کے لئے منصوبہ بندی کرتا ہے، حضور ﷺ کی صاحبزادیوں کو عتبہ اور عتیبہ طلاق دے دیتے ہیں ، ابولہب اپنے گھر کا کوڑا اپنے جانوروں کی لید اور گوبر حضور ﷺ کے کاشانہ اقدس میں ڈال دیتا ہے، عقبہ بن ابی معیط چہرہ اقدس پر تھوکنے کی ناپاک جسارت کرتا ہے، ابوجہل کبھی رستے میں گھڑا کھودتا ہے کبھی کسی طرح کبھی طرح سے رسول اللہ ﷺ کو تکالیف پہنچاتا ہے، کبھی حالت سجدہ میں بدبودار اوجھڑی لاکر رسول اللہ ﷺ کی گردن پر ڈال دی جاتی ہے، کبھی عقبہ آتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی گردن میں چادر ڈال کر سختی سے کھینچتا ہے،
مگر یہ نہ بھولنا کہ یہ تمام احوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کے ہیں……..
(4) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ
اخلاق دین اسلام کا ایسا شعبہ ہے جو وقتی نہیں ہے مستقل ہے ہر دور کے لئے ہے، اور ہر ایک کے لئے ہے
مختصر سی بات کرتے ہیں آپ کے اخلاق کریمانہ پر
عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ صَالِحَ الْأَخْلَاقِ۔ (احمد، رقم ٨٩٥٢)
”ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اچھے اخلاق کو اُن کی تکمیل تک پہنچانے کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں..
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک اور ارشاد ہے کہ
،، ان من احبکم الی احسنکم خلقا ” تم میں مجھ سے سب سے زیادہ قریب وہ ہے جس کا اخلاق زیادہ اچھا ہو۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
میں دس سال رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رہا خدا کی قسم آپ نے کبھی مجھ سے اُف نہ کہا اور نہ کبھی مجھ سے یہ کہا کہ تم نے ایساکام کیوں نہیں کیا؟ یا ایساکام کیوں کیا ؟
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاجو زوجہ ہونے کی حیثیت سے رسول اللہﷺ کے بہت قریب تھیں ۔انکے پاس کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول اللہﷺ کے خُلق کے متعلق پوچھنے کے لیے گئے تو حضرت عائشہ نے فرمایا:
کان خلقہ القران (تفسیر ابن کثیرجلد ۸،۷ صفحہ ۱۵۰)
آپ کا اخلاق ،قران ہے
اگر آپﷺ کا اخلاق قرآن ہے، تو قرآن میں بشیر بھی ہیں نذیر بھی ہے، قرآن سزاؤں کا حکم بھی دیتا ہے، قرآن اپنے مجرم کو معافی کی تلقین بھی کرتا ہے، قرآن دیت کا نظام بھی دیتا ہے، قرآن قتل کے بدلے قتل کا نظام بھی دیتا ہے، قرآن عدل کی تعلیم بھی دیتا ہے،
جس طرح کہا جاتا ہے کہ نظام کفر چل سکتا ہے مگر نظام ظلم نہیں چل سکتا آج ہم عدل سے کوسوں دور ہوگئے،
آج ہم نے یہ اصول بنا لیا کہ اگر مجرم میرا ہو تو معافی کا کوئی رستہ نہیں، اور اگر مجرم تمہارا ہے تو معاف کردو،
بھائی اگر اسلام پر عمل کرنا ہے تو اپنے مجرم کو معاف کردو دوسرے کے لیے عدل کے رستے کو اپناؤ…..
(5) اسلام کی سربلندی کے لیے طاقت کا استعمال
آخری بات کیا اسلام طاقت کے استعمال سے منع کرتا ہے جبکہ حق کے لئے ہو؟
جواب ہے ! ہرگز نہیں
جب ہجرت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ میں تشریف لے آئے تو یہاں بالکل دوسری طرز کی حکمت عملی کو اختیار کیا گیا.
پہلی حکمت عملی
اہل مکہ جن کے تجارتی قافلے دو دو ہزار اونٹوں پر مشتمل ہوتے آج کے اندازے کے مطابق اڑھائی لاکھ پاؤنڈ کی تجارت صرف اہل مکہ کی تھی پہلی حکمت عملی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اختیار کی کہ وہ تمام قبائل جو اس تجارتی رستے کے ارد گرد تھے ان کے ساتھ دوستی کے معاہدے کئے جس طرح قبیلہ جہینہ، بنی صبرہ، بنی مدلج وغیرہ
تاکہ اہل مکہ ان قبائل کو اپنے ساتھ ملا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو مدینہ طیبہ میں نقصان نہ پہنچائیں،
دوسری حکمت عملی
ابتدائی فوجی مہمیں میں بظاہر جو بڑی مختصر تھی جن میں مجاہدین کی تعداد کبھی دس بارہ، کبھی تیس چالیس، کبھی ساٹھ ستر، ان چھوٹی چھوٹی فوجی مصروفیات کا سبب یہ تھا کہ مکّہ کی تکلیفیں برداشت کرنے کے بعد کہیں مسلمان مدینے کی آسائشوں میں نہ کھو جائیں،
تیسری حکمت عملی
کفار نے چونکہ تمام مہاجرین کے اموال اور جائیدادوں پر غاصبانہ قبضہ کر لیا تھا اور دولت کے غرور میں مبتلا تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی معیشت پر کاری ضرب لگانے کے لئے حکمت عملی تیار کی.
کفار مکہ اس تجارتی راستے سے گزرنے پر بھی خوف میں مبتلا ہوگئے اس راستے سے گزرتے ہوئے خوف محسوس کرنے لگے
چوتھی حکمت عملی
اہل مکہ کو اپنی بہادری اور جنگی مہارت پر بڑا گھمنڈ تھا تو اس گھمنڈ کو توڑنے کے لئے فوجی مہمیں روانہ کی جاتی تھی تاکہ ان کے غرور کو توڑا جاسکے،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سالہ مدنی حیات طیبہ میں 27 غزوات میں شرکت فرمائی اور سرایا اس کے علاوہ ہیں سریہ اس کو کہتے ہیں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو سپہ سالار بنا کر بھیجا لیکن خود اس میں شرکت نہیں فرمائی..
اگر صرف آپ کے غزوات میں شرکت پر غور کیا جائے تو ہر ساڑھے چار مہینے میں ایک جنگ آپ نے لڑی ہے.
طبقات ابن سعد میں اس کی تفصیل موجود ہے
میں نے کوشش کی کہ اس کو اختصار کے ساتھ بیان کرو لیکن پھر بھی بات طویل ہو گئی اس کے لئے معذرت خواہ ہوں.
لیکن یہ یاد رکھیے مکی زندگی اور مدنی زندگی دونوں پہلوؤں کو شریعت سمجھیے صرف مکی زندگی شریعت نہیں ہے مدنی زندگی بھی شریعت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے، وہ بھی اسلام ہے ہمیں اسلام کا ایک پہلو بڑا یاد رہتا ہے لیکن دوسرا سرے سے بھول جاتے ہیں….
تحریر : – محمد یعقوب نقشبندی اٹلی