أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ يُّؤۡتِيَهُ اللّٰهُ الۡكِتٰبَ وَالۡحُكۡمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُوۡلَ لِلنَّاسِ كُوۡنُوۡا عِبَادًا لِّىۡ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَلٰـكِنۡ كُوۡنُوۡا رَبَّانِيّٖنَ بِمَا كُنۡتُمۡ تُعَلِّمُوۡنَ الۡكِتٰبَ وَبِمَا كُنۡتُمۡ تَدۡرُسُوۡنَۙ‏

ترجمہ:

کسی بشر کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ اس کو کتاب ‘ حکم اور نبوت عطا کرے اور پھر وہ لوگوں سے یہ کہے کہ تم اللہ کے بجائے میرے بندے بن جاؤ لیکن (وہ یہی کہے گا کہ) تم اللہ والے بن جاؤ کیوں کہ تم کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور تم پڑھتے پڑھاتے ہو

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کسی بشر کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ اس کو کتاب ‘ حکم اور نبوت عطا کرے اور پھر وہ لوگوں سے یہ کہے کہ تم اللہ کے بجائے میرے بندے بن جاؤ لیکن (وہ یہی کہے گا کہ) تم اللہ والے بن جاؤ کیونکہ تم کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور تم پڑھتے پڑھاتے ہو۔ (آل عمران : ٧٩)

اس آیت کے اہم الفاظ کے معانی حسب ذیل ہیں :

بشر کا معنی :

علامہ مجد الدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی متوفی ٨١٧ ھ لکھتے ہیں :

بشر انسان کو کہتے ہیں ‘ واحد ہو یا اس کی جمع ہو اس کی جمع ابشار ہے ‘ بشر کا معنی انسان کی ظاہری کھال ہے ‘ اور کھال کو کھال سے ملانا مباشرت ہے ‘ اور بشارت اور بشری کا معنی خوشخبری دینا ہے۔ (القاموس المحیط ج ١ ص ‘ ٦٩٨ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ)

بشر انسان اور آدمی میں فرق ہے ‘ ظاہری کھال اور چہرے ‘ مہرے کے اعتبار سے بشر کہتے ہیں ‘ حقیقت کے اعتبار سے انسان کہتے ہیں اور نسب کے اعتبار سے آدمی کہتے ہیں۔

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :

کھال کے ظاہر کو بشرہ کہتے ہیں اور کھال کے باطن کو ادمہ کہتے ہیں ‘ انسان کو اس کی ظاہری کھال کے اعتبار سے بشر کہتے ہیں کیونکہ جانوروں کی کھالوں پر بڑے بڑے بال ہوتے ہیں یا اون ہوتا ہے ‘ قرآن مجید میں جب انسان کے جسم اور اس کے ظاہر کا اعتبار کیا جاتا ہے تو پھر اس پر بشر کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

(آیت) ” وھو الذی خلق من المآء بشرا “۔ (الفرقان : ٥٤)

ترجمہ : اور وہی ہے جس نے پانی سے بشر کو پیدا کیا۔

(آیت) ” انی خالق بشرا من طین “۔ (ص : ٧١)

ترجمہ : بیشک میں مٹی سے بشر بنانے والا ہوں۔

کفار جب انبیاء (علیہم السلام) کی قدر ومنزلت کو گھٹانا چاہتے تھے تو ان کو بشر کہتے تھے ‘ قرآن مجید میں ہے :

(آیت) ” فقال ان ھذا الا سحر یؤثر۔ ان ھذا الا قول البشر “۔ (المدثر : ٢٥۔ ٢٤)

اس (کافر) نے کہا یہ (قرآن) تو وہی جادو ہے جو پہلے سے چلا آرہا ہے۔ یہ صرف ایک بشر کا قول ہے۔

(آیت) ” فقال الملاء الذین کفروا من قومہ مانراک الا بشرا مثلنا “۔ (ھود : ٢٧)

ترجمہ : سو قوم نوح کے کافر سرداروں نے کہا : (اے نوح ! ) ہم تمہیں اپنی مثل بشر ہی دیکھتے ہیں۔

(آیت) ” قالوا ابعث اللہ بشرا رسولا “۔ (بنواسرائیل : ٩٤)

ترجمہ : انہوں (کافروں) نے کہا کیا اللہ نے بشر کو رسول بنا کر بھیجا۔

قرآن مجید میں ہے آپ کہئے کہ میں محض تمہاری مثل بشر ہوں ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام انسان بشریت میں انبیاء (علیہم السلام) کے مساوی ہیں اور علوم و معارف اور اعمال حسنہ کی خصوصیت کی وجہ سے ان کو عام انسانوں پر فضیلت حاصل ہے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد یوحی الی ” میری طرف وحی کی جاتی ہے “ کا ذکر فرمایا ہے تاکہ اس پر تنبیہہ ہو کہ ہرچند کہ انبیاء (علیہم السلام) بشریت میں عام انسانوں کے مساوی ہیں لیکن وحی کی خصوصیت کی وجہ سے عام انسانوں سے متمیز ہیں۔ (عام انسانوں اور انبیاء (علیہم السلام) میں بشریت بہ منزلہ جنس ہے اور استعداد نزول وحی اور ادراک غیب ‘ انبیاء (علیہم السلام) کے لیے بہ منزلہ فصل ممیز ہے ‘ حواس اور عقل سے ادراک کرنا عام انسانوں اور انبیاء (علیہم السلام) میں مشترک ہے جس سے وہ عالم شہادت میں ادراک کرتے ہیں اور عالم غیب کا ادراک کرنا ‘ جنات اور فرشتوں کو دیکھنا اور ان سے کلام کرنا اور حامل وحی ہونا ‘ یہ انبیاء (علیہم السلام) کی خصوصیت ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت میں اسی کو بیان فرمایا ہے) :

(آیت) ” قل انما انا بشر مثلکم یوحی الی انما الھکم الہ واحد “۔ (الکھف : ١١٠‘ حم السجدہ : ٦)

ترجمہ : آپ کہئے کہ میں بشر ہی ہوں تمہاری طرح (خدا نہیں ہوں) مجھ پر وحی کی جاتی ہے کہ (میرا اور) تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔

حضرت جبرائیل جب حضرت مریم کے سامنے بشری صورت میں آئے تو فرمایا (آیت) ” فتمثل لھا بشرا سویا “۔ (مریم : ١٧) یہاں مراد یہ ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) بشری صورت میں آئے اور جب مصر کی عورتوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اچانک بےحجاب دیکھا تو بےساختہ کہا (آیت) ” حاش للہ ماھذا بشرا “۔ (یوسف : ٣١) یہاں مراد یہ ہے کہ مصر کی عورتوں نے حضرت یوسف کو بہت عظیم اور بلند جانا اور ان کے جوہر ذات اور حقیقت کو بشر سے بہت بلند سمجھا ‘ بشارت اور مباشرت کے الفاظ بھی اسی لفظ سے بنے ہیں جب انسان کوئی خوشخبری سنے تو اس کے چہرے کی کھال پر خوشی کی لہر دوڑنے لگتی ہے ‘ اس لیے اس کو بشارت کہتے ہیں اور مباشرت میں مرد اور عورت اپنے جسموں کی کھال کو ملاتے ہیں اور ایک دوسرے میں پیوست کرتے ہیں ‘ قرآن مجید اور احادیث میں ان دونوں لفظوں کا بھی استعمال ہے۔ (المفردات ص ٤٨۔ ٤٧‘ مطبوعہ المکتبۃ المرتضویہ ‘ ایران ‘ ١٣٤٢ ھ)

حکم کا معنی :

حکم کا معنی ہے شریعت کی فقہ (سمجھ) اور قرآن کی فہم اور اس کا تقاضا شریعت پر عمل کرنا ہے۔

علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں ـ:

سدی نے کہا اس سے مراد نبوت ہے ‘ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد حقائق قرآن کی فہم ہے ‘ ابن زید نے کہا اس سے مراد اللہ کی آیات اور اس کی حکمتوں کو جاننا ہے ‘ بعض علماء نے کہا اس سے مراد وہ علوم اور معارف ہیں جن سے اولوالعزم رسل مختص ہیں اور باقی انبیاء ان کے تابع ہیں۔ (المفردات ص ١٢٨ مطبوعہ ایران)

علامہ ابو الحیان عبداللہ بن یوسف اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ لکھتے ہیں :

بعض علماء نے کہا حکم سے مراد یہاں سنت ہے ‘ کیونکہ اس آیت میں کتاب کے بعد حکم کا ذکر فرمایا ہے ‘ اور ظاہر یہ ہے کہ حکم سے مراد یہاں قضاء ہے یعنی لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنا ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں تدریجا مراتب کا ذکر فرمایا ہے پہلے کتاب کا ذکر فرمایا جس سے علم حاصل ہوتا ہے پھر اس سے ترقی کرکے قضا کا ذکر فرمایا کیونکہ جب انسان کو علم میں مہارت تامہ حاصل ہوجائے تو پھر وہ لوگوں کے درمیان فیصلے کرتا ہے ‘ پھر اس کے بعد سب سے بلند مرتبہ کا ذکر فرمایا جو نبوت ہے اور تمام خیرات کا مجمع ہے۔ (البحر المحیط ج ٢ ص ٢٣٠ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ)

اس تفسیر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان پہلے عالم بنتا ہے پھر قاضی بن جاتا ہے پھر نبی بن جاتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جسے نبی بنانا ہوتا ہے اس کو ایسی صفات مخصوصہ کے ساتھ پیدا کرتا ہے جو نبی کے لیے ضروری ہیں ‘ پھر پہلے مرتبہ میں اس کے علم کو ظاہر فرماتا ہے ‘ پھر اس کی قضاء کے مرتبہ کو ظاہر فرماتا ہے پھر اس کو مقام بعثت پر فائز کرتا ہے اور اس کو اعلان نبوت کا حکم دیتا ہے۔

ربانیین کا معنی :

ربانیین کا واحدربانی ہے ‘ یہ رب کی طرف منسوب ہے ‘ اسی طرح مولوی وہ شخص ہے جو مولا کی طرف منسوب ہے ‘ اس کا معنی ہے مولا والا ‘ اسی طرح ربانی کا معنی ہے رب والا ‘ ربانی اس عالم کو کہتے ہیں جو علم کے تقاضوں پر ہمیشہ عمل کرے۔ فرائض ‘ واجبات ‘ سنن اور مستحبات پر عامل ہو اور ہر قسم کے صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے مجتنب ہو ‘ جب حضرت ابن عباس (رض) فوت ہوئے تو محمد بن حنیفہ نے کہا اس امت کے ربانی فوت ہوگئے۔

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) نے ” ربانیین بن جاؤ۔ (آل عمران : ٧٩) کی تفسیر میں فرمایا : حکماء علماء اور فقہاء بن جاؤ‘ ربانی اس شخص کو کہتے ہیں جو لوگوں کو بڑے علوم (حقائق اور دقائق) سے پہلے چھوٹے علوم (مسائل) کی تعلیم دے۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ١٦‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :

ربانی ‘ ربان کی طرف منسوب ہے ربان عطشان اور سکران کی طرح صفت مثبہ ہے ‘ بعض نے کہا یہ رب کی طرف منسوب ہے جو شخص علوم کی تعلیم دے وہ ربانی ہے ‘ بعض نے کہا جو شخص علم سے اپنے نفس کی تربیت اور اصلاح کرے وہ ربانی ہے ‘ بعض نے کہا یہ رب یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہے اور اس میں نون زائد ہے جیسے جسمانی میں نون زائد ہے ‘ سو ربانی مولوی کی طرح ہے۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا میں اس امت کا ربانی ہوں ‘ اس کی جمع ربانیون ہے۔ (المفردات ص ‘ ١٨٤ مطبوعہ المکتبۃ المرتضویہ ‘ ایران ‘ ١٣٤٢ ھ)

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

ربانی اس شخص کو کہتے ہیں جو رب حلال اور حرام اور امر اور نہی کا عالم ہو اور اس امت کی خبروں اور ماکان وما یکون کا عارف ہو ‘ جس دن حضرت ابن عباس (رض) فوت ہوئے تو محمد بن حنیفہ نے کہا اس امت کے ربانی فوت ہوگئے ‘ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر شخص خواہ مرد ہو یا عورت ‘ آزاد ہو یا غلام ‘ اس پر اللہ عزوجل کا یہ حق ہے کہ وہ قرآن کا علم حاصل کرے اور دین میں تفقہ حاصل کرے پھر آپ نے اس آیت کو تلاوت فرمایا لیکن ربانیین بن جاؤ۔ (الجامع الاحکام القرآن ج ٤ ص ١٢٣۔ ١٢٢ مطبوعہ انتشارات ناصر خسر وایران ٗ ١٣٨٧ ھ)

ربط آیات اور شان نزول :

اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی تحریف کو بیان فرمایا تھا اور فرمایا تھا کہ اہل کتاب کی عادت اور ان کا طریقہ کتاب میں تحریف اور تبدیل کرنا ہے اور اس آیت میں فرمایا ہے کہ انکی من جملہ تحریفات میں سے یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ اپنے خدا ہونے دعوی دار تھے اور وہ اپنی امت کو اپنی عبادت کرنے کا حکم دیتے تھے حالانکہ کسی بشر کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ اس کو کتاب ‘ حکم اور نبوت عطا کرے اور پھر وہ لوگوں سے یہ کہے کہ تم اللہ کے بجائے میرے بندے بن جاؤ۔

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ عکرمہ سے روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابو رافع قرظی نے کہا جب نجران کے احبار یہود اور علماء نصاری رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جمع ہوئے اور آپ نے ان کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ نے چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی اس طرح عبادت کریں جیسے نصاری نے حضرت عیسیٰ بن مریم کی عبادت کی تھی ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہم غیر اللہ کی عبادت کرنے سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ‘ اور غیر اللہ کی عبادت کا حکم دینے سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لیے بھیجا ہے نہ اس کا مجھے حکم دیا ہے تب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی :

کسی بشرک کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ اس کو کتاب ‘ حکم اور نبوت عطا کرے اور پھر وہ لوگوں سے یہ کہے کہ تم اللہ کے بجائے میرے بندے بن جاؤ۔

ابن جریج بیان کرتے ہیں کہ اہل کتاب کا ایک گروہ اپنی کتاب کی تحریف کرنے کے سلسلہ میں لوگوں کی عبادت کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (جامع البیان ج ٣ ص ٢٣٢‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

انبیاء (علیہم السلام) کا دعوی الوہیت کرنا عقلا ممتنع ہے۔

ہم نے اس آیت کا یہ معنی کیا ہے کہ نبی کے لیے الوہیت کا دعوی کرنا عقلا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نصاری کے اس دعوی کی تکذیب کی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی بجائے مجھے معبود بنا لو ‘ اور اگر اس آیت کا یہ معنی کیا جائے کہ نبی کے لیے الوہیت کا دعوی کرنا جائز نہیں ہے یعنی حرام ہے تو اس سے عیسائیوں کی تکذیب نہیں ہوگی مثلا ایک شخص کسی کے متعلق یہ دعوی کرے کہ فلاں شخص شراب پیتا ہے اور آپ یہ کہیں کہ شراب پینا تو حرام ہے اس سے اس کے دعوی کی تکذیب نہیں ہوگی ‘ اس کے دعوی کی تکذیب اس وقت ہوگی جب آپ یہ ثابت کردیں کہ شراب پینا اس کے لیے عقلا ممکن ہی نہیں ہے ‘ اس آیت کی نظیر درج ذیل آیات ہیں :

(آیت) ” ماکان للہ ان یتخذ من ولد (مریم : ٣٥)

ترجمہ : اللہ کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے۔

(آیت) ” ماکان لکم ان تنبتوا شجرھا “۔ (النمل : ٦٠)

ترجمہ : تمہارے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ تم (از خود) باغوں کے درخت اگاتے۔

(آیت) ” وماکان لنفس ان تموت الا باذن اللہ “۔ (ال عمران : ١٤٥)

ترجمہ : اللہ کے اذن کے بغیر کسی نفس کے لیے مرنا ممکن نہیں ہے۔

اسی نہج پر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے : کسی بشر کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ اس کو کتاب ‘ حکم اور نبوت عطا کرے اور پھر وہ لوگوں سے یہ کہے کہ تم اللہ کے بجائے میرے بندے بن جاؤ۔ اس امتناع عقلی پر حسب ذیل دلائل ہیں :

(١) رسول یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ بذریعہ وحی اللہ اللہ تعالیٰ کے احکام حاصل کرکے انکی تبلیغ کرتا ہے ‘ اور اپنے صدق پر معجزہ کو پیش کرتا ہے ‘ اگر وہ خود الوہیت کا دعوی کرے تو اس کے صدق پر معجزہ کی دلالت باطل ہوجائے گی اور لازم آئے گا کہ وہ صادق ہو اور صادق نہ ہو اور یہ محال ہے۔ معجزہ کے اظہار کا تقاضا یہ ہے کہ وہ صادق ہو اور الوہیت کے دعوی کا تقاضا ہے کہ وہ صادق نہ ہو اور یہ اجتماع نقیضین ہے۔

(٢) اگر رسول الوہیت کا دعوی کرکے اللہ تعالیٰ پر افتراء باندھے تو اللہ اس کی شہ رگ کو کاٹ دے گا اور ماضی کے واقعات شاہد ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اپنے رسولوں کو غلبہ عطا فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

(آیت) ” ولو تقول علینا بعض الاقاویل ’۔ لاخذنا منہ بالیمین۔ ثم لقطعنا منہ الوتین۔ فما منکم من احد عنہ حاجزین۔ (الحاقہ : ٤٧۔ ٤٤)

ترجمہ : اگر وہ (رسول) ہم پر کسی قسم کا افتراء باندھتا۔ تو ہم ضرور اس کو پوری قوت سے پکڑ لیتے۔ پھر ہم ضرور اس کی شہ رگ کاٹ دیتے۔ پھر تم میں سے کوئی بھی اس کو بچانے والا نہ ہوتا۔

اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر رسول الوہیت کا دعوی کرتا تو وہ مغلوب ہوجاتا ‘ اور اس دوسری آیت میں فرمایا :

(آیت) ” کتب اللہ لاغلبن انا ورسلی “۔ (المجادلہ : ٢١)

ترجمہ : اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور بہ ضرور غالب ہو کر ہیں گے۔

سو اگر رسول الوہیت کا دعوی کرکے اللہ پر افتراء باندھے تو لازم آئے گا کہ وہ مغلوب ہو اور مغلوب نہ ہو اور یہ اجتماع نقیضین ہونے کی وجہ سے محال عقلی ہے۔

(٣) امام فخرالدین محمد بن ضیاء الدین عمر رازی متوفی ٦٠٦ لکھتے ہیں :

انبیاء (علیہم السلام) ایسی صفات کے ساتھ موصوف ہوتے ہیں کہ ان صفات کے ساتھ الوہیت کا دعوی کرنا ممکن نہیں ہے ‘ اللہ تعالیٰ ان کو کتاب اور وحی عطا فرماتا ہے اور کتاب اور وحی صرف نفوس طاہرہ اور ارواح طیبہ کو ہی دی جاسکتی ہے ‘

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

(آیت) ” اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ “۔ (الانعام : ١٢٤ )

ترجمہ : اللہ اپنی رسالت رکھنے کی جگہ کو خوب جانتا ہے۔

(آیت) ” اللہ یصطفی من الملائکۃ رسلا ومن الناس “۔ (الحج : ٧٥)

ترجمہ : اللہ چن لیتا ہے رسولوں کو فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے۔

اور نفس طاہرہ سے اس قسم کا دعوی ممتنع ہے ‘ دوسری وجہ یہ ہے کہ انسان کی دو قوتیں ہیں نظری اور عملی اور جب تک قوت نظریہ علوم اور معارف حقیقیہ کے ساتھ کامل نہ ہو اس وقت تک قوت عملیہ اخلاق ذمیمہ سے طاہر نہیں ہوتی ‘ اور نہ اس میں وحی اور نبوت کے قبول کرنے کی استعداد اور صلاحیت ہوگی اور قوت نظریہ اور قوت عملیہ کا کمال الوہیت کا دعوی کرنے سے مانع ہے۔

(٤) اللہ تعالیٰ اس وقت اپنے کسی بندہ کو نبوت اور رسالت سے مشرف فرماتا ہے جب اسے یہ علم ہو کہ وہ بندہ اس قسم کا دعوی نہیں کرے گا۔ (تفسیر کبیر ج ٢ ص ٤٨٠ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 3 – آل عمران – آیت 79