أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسۡرَآءِيۡلُ عَلٰى نَفۡسِهٖ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تُنَزَّلَ التَّوۡرٰٮةُ ‌ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِالتَّوۡرٰٮةِ فَاتۡلُوۡهَاۤ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ

ترجمہ:

ہر قسم کا طعام تورات کے نزول سے پہلے بنو اسرائیل کے لیے حلال تھا ماسوا اس کے جس کو یعقوب نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا، آپ کہیے اگر تم سچے ہو تو تورات کو لا کر اس کی تلاوت کرو

تفسیر:

مناسبت اور شان نزول : 

علامہ ابو الحیان عبداللہ بن یوسف اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ لکھتے ہیں :

ابو روق اور ابن السائب نے بیان کیا کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں ملت ابراہیم پر ہوں تو یہود نے کہا اگر آپ ملت ابراہیم پر ہیں تو آپ اونٹ کا گوشت کیوں کھاتے ہیں ؟ اور اونٹنیوں کا دودھ کیوں پیتے ہیں ؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ میرے باپ ابراہیم پر حلال تھیں ‘ اور ہم بھی اس کو حلال قرار دیتے ہیں ‘ یہود نے کہا ہم جن چیزوں کو حرام کہتے ہیں وہ حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کی شریعت سے حرام چلی آرہی ہیں حتی کہ ہماری شریعت میں بھی حرام ہیں ‘ تب اللہ تعالیٰ نے ان کے رد اور ان کی تکذیب میں یہ آیت نازل فرمائی کہ ہر قسم کا طعام تورات کے نزول سے پہلے بنواسرائیل کے لیے حلال تھا ‘ ماسوا اس کے جس کو یعقوب نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ (البحر المحیط ج ٣ ص ٢٦٣ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ)

امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں :

شہر بن حوشب نے کہا کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ یہود کی ایک جماعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور انہوں نے کہا اے ابوالقاسم ! آپ ہمیں چند ایسی باتیں بتائیے جن کو نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ہم آپ سے ان کے متعلق سوال کرتے ہیں انہوں نے جو سوالات کئے ان میں سے ایک یہ تھا کہ تورات کے نازل ہونے سے پہلے یعقوب نے کون سے طعام کو اپنے اوپر حرام کیا تھا ؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ‘ جس نے تورات کو موسیٰ پر نازل کیا ہے ‘ کیا تم کو علم ہے یعقوب (علیہ السلام) بہت سخت بیمار ہوگئے اور ان کی بیماری بہت طول پکڑ گئی ‘ تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بیماری سے شفا دے دی تو وہ اللہ کی رضا کے لیے اپنے محبوب مشروب اور محبوب طعام کو اپنے اوپر حرام کردیں گے ‘ اور ان کے نزدیک محبوب طعام اونٹ کا گوشت تھا اور محبوب مشروب اونٹنیوں کا دودھ تو یہودیوں نے کہا ‘ ہاں (مسند احمد ج ١ ص ‘ ٢٧٣ مطبوعہ ‘ بیروت ‘ جامع البیان ج ٤ ص ٥‘ مطبوعہ بیروت)

اس سے پہلی آیت میں یہ بیان فرمایا تھا کہ جب تک انسان اللہ کی راہ میں اپنی محبوب چیز کو خرچ نہ کرے وہ نیکی نہیں پاسکتا ‘ اور اس آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اللہ کی رضا کے لیے اپنے محبوب طعام اور مشروب کو چھوڑ دیا۔

اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے دین کے اصول اور بنیادی عقائد پر یہود کے شبہات کا جواب دیا تھا اور اس آیت میں دین کی فروع اور فقہی مسائل میں یہود کے اعتراض اور شبہات کا جواب دیا ہے۔

نیز اس سے پہلی آیات میں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو مقرر فرمایا تھا اور اس آیت میں آپ کی نبوت پر دلیل ہے اول تو اس لیے کہ یہودنسخ کے منکر تھے اور اپنی شریعت کو قیامت تک کے لیے نافذ مانتے تھے ‘ اس آیت میں ان پر یہ ثابت کیا گیا کہ پہلے اونٹ کا گوشت حرام نہیں تھا، حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اس کو حرام کیا ہے ‘ اس سے نسخ ثابت ہوگیا اور جب نسخ جائز ہوگیا تو یہودی شریعت کا منسوخ ہونا اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کا نافذ ہونا جائز ہوگیا ثانیا اس لیے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امی تھے ‘ آپ نے کسی مکتب میں پڑھا نہیں تھا نہ کسی عالم کی صحبت میں بیٹھے تھے اس کے باوجود آپ نے بتادیا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے اوپر اونٹ کا گوشت اور اونٹیوں کا دودھ حرام کیا تھا۔

حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اونٹ کے گوشت کو شرعا حرام کیا تھا یا عرفا :

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے اوپر اونٹ کا گوشت حرام کرلیا تھا ‘ حالانکہ کسی چیز کو حلال یا حرام کرنا یہ اللہ کے اختیار میں ہے ‘ بندوں کے اختیار میں نہیں ہے ‘ امام فخرالدین محمد بن ضیاء الدین عمر رازی نے اس کے حسب ذیل جواب دیئے ہیں :

(١) یہ ہوسکتا ہے کہ انسان کسی حلال چیز کو اپنے اپنے اوپر حرام کرلیا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ بھی اس کو حرام کر دے مثلا انسان اپنی بیوی کو طلاق مغلطہ دے کر اپنے اوپر حرام کرلے ‘ پھر اللہ تعالیٰ بھی اس عورت کو اس پر حرام کر دے۔

(ب) انبیاء (علیہم السلام) بھی اجتہاد کے ذریعہ کسی چیز کا حلال یا حرام ہونا معلوم کرتے ہیں ‘ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے اجتہاد سے یہ معلوم کیا تھا کہ اونٹ کا گوشت حرام ہے ‘ اس کی مثال یہ ہے کہ امام شافعی نبیذ کو حرام قرار دیتے ہیں اور امام ابوحنیفہ اس کو حرام کہتے ہیں اور امام شافعی اس کو حلال کہتے ہیں اور یہ حلت اور حرمت اجتہادی ہے ‘ اسی طرح حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اونٹ کے گوشت کو اپنے اجتہاد سے حرام قرار دیا تھا۔

(ج) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا اونٹ کے گوشت کو حرام قرار دینا ایسا ہو جیسے ہماری شریعت میں نذر ماننا ‘ اور جس طرح ہماری شریعت میں نذر کو پورا کرنا واجب ہے اسی طرح ان کی شریعت میں کسی چیز کی تحریم کو پورا کرنا واجب ہو۔ (تفسیر کبیر ج ٣ ص ٤ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)

امام رازی کے یہ جوابات بھی بہت عمدہ ہیں تاہم میری تحقیق یہ ہے کہ اس اعتراض کی اس وقت گنجائش ہوتی جب (تفسیر کبیر ج ص مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ) اللہ کے حلال کیے ہوئے کو شرعا حرام قرار دے دیتے ‘ جب کہ فی الواقع ایسا نہیں تھا بلکہ (تفسیر کبیر ج ص مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ) نے اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے آپنے آپ کو اپنے طبعی مرغوبات سے روک لیا تھا ‘ جیسا کہ حضرت عمر کو شہد ملا ہوا پانی پسند تھا مگر وہ خوف خدا اور حساب کی سختی کے ڈر سے اس کو نہیں پیتے تھے اور جس طرح بہت سے زہاد ریاضت اور مجاہدہ کے لیے اپنے آپ کو طبعی مرغوبات سے روک لیتے ہیں اور ان کو شرعا حرام نہیں کہتے۔ اسی طرح حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اونٹ کا گوشت اور اونٹنی کا دودھ بہت پسند تھا لیکن انہوں نے اللہ کی رضاجوئی کے لیے اپنے نفس کے تقاضوں کی مخالفت کی اور اس کو اپنے اوپر حرام کرلیا ‘ اور یہ شرعی تحریم نہیں تھی۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ کسی چیز کو شرعا حلال یا حرام کرنا بالاستقلال اللہ کا اختیار ہے اور وہی مستقل شارع ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی نیابت سے انبیاء (علیہم السلام) بھی اشیاء کو حلال اور حرام کرتے ہیں ‘ اور ان کے کیے ہوئے حلال اور حرام پر عمل کرنا اسی طرح لازم ہے جس طرح اللہ کے حلال اور حرام کئے ہوئے پر عمل کرنا ‘ قرآن مجید میں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ منصب بیان کیا گیا ہے :

(آیت) ” ویحل لھم الطیبات ویحرم علیہم الخبآئث “۔ (الاعراف : ١٥٧)

ترجمہ : وہ پاک چیزیں ان کے لیے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں۔

قرآن مجید میں جانوروں میں سے خنزیر کو حرام کیا ہے لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتے کو بھی حرام کردیا ‘ اور کچلیوں سے پھاڑنے والے تمام درندوں کو اور پنجوں سے پھاڑنے والے تمام پرندوں کو اور حشرات الارض کو حرام کردیا۔

اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ تورات کے نزول سے پہلے بنواسرائیل کے لیے ہر قسم کا طعام حلال تھا ‘ اس پر یہ سوال ہوتا ہے کہ کیا بنی اسرائیل کے لیے مردار اور خنزیر بھی حلال تھا ! حالانکہ کسی ذریعہ سے یہ نہیں معلوم ہوا کہ ان کے لیے مردار اور خنزیر بھی حلال تھے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں کل طعام سے مراد وہ طعام ہیں جن کے متعلق یہود نے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ حضرت نوح اور ابراہیم کی شریعت سے لے کر آج تک حلال چلے آرہے ہیں ‘ خلاصہ یہ ہے کہ الطعام میں لام استغراق کے لیے نہیں بلکہ عہد کے لیے ہے۔

اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا تھا کہ طعام کی یہ نوع (اونٹ کا گوشت اور دودھ) پہلے بنی اسرائیل پر حلال تھی اس کے بعد حرام ہوئی۔ اس لیے بعض احکام شرعیہ کے منسوخ ہونے کا قول صحیح ہے ‘ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سچ فرمایا کہ اونٹ کے گوشت کو حرام کرنا ‘ حضرت یعقوب کی شریعت کے ساتھ مخصوص تھا اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ملت ابراہیم کے مطابق اونٹ کا گوشت کھانا صحیح ہے۔

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 3 – آل عمران – آیت 93