أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ‌ؕ وَاِلَى اللّٰهِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ

ترجمہ:

اور اللہ ہی کی ملکیت میں ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے اور اللہ ہی کی طرف تمام چیزیں لوٹائی جائیں گی

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اللہ ہی کی ملکیت میں ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے اور اللہ ہی کی طرف تمام چیزیں لوٹائی جائیں گی۔ (آل عمران : ١٠٩)

عذاب کا عدل اور ثواب کا فضل ہونا :

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا اور اللہ جہان والوں پر ظلم کرنے کا ارادہ نہیں کرتا ‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس پر دلیل قائم فرمائی ہے کیونکہ ظلم کا معنی ہے غیر کی ملک میں تصرف کرنا ‘ اور کائنات کی ہر چیز اللہ کی ملک ہے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے ساتھ جو معاملہ چاہے کرے ‘ وہ اس کا ظلم نہیں ہے بلکہ اگر وہ تمام آسمانوں اور زمینوں کی مخلوق کو اٹھا کر جہنم میں ڈال دے تو یہ اس کا ظلم نہیں ہوگا کیونکہ وہ مالک ہے اور مالک اپنی ملکیت میں ہر قسم کا تصرف کرسکتا ہے ‘ لیکن وہ ایسا نہیں کرے گا کیونکہ اس نے اپنے فضل و کرم سے نیک لوگوں کو اجر وثواب دینے کا وعدہ فرما لیا ہے اسی لیے اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے کہ نیک لوگوں کو ثواب دینا اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور برے لوگوں کو عذاب دینا اس کا عدل ہے۔

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کسی شخص کو اس کا عمل نجات نہیں دے گا ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ آپ کو بھی نہیں ؟ آپ نے فرمایا مجھ کو بھی نہیں ! ماسوا اس کے کہ اللہ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے ‘ لیکن تم درست کام کرتے رہو، (صحیح مسلم ج ٢ ص ‘ ٣٧٦ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

یعنی اعمال بحسب الذات نجات اور ثواب کا تقاضا نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اعمال صالحہ کو ثواب کی علامت بنادیا ہے ‘ نیز تمام انسان اور ان کے اعمال اللہ کے پیدا کرنے سے ہیں اور اس کی مخلوق ہیں۔ وہ جو چاہے ان کے ساتھ معاملہ کرے اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ‘ اس حدیث پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں ہے :

(آیت) ” ادخلوا الجنۃ بما کنتم تعملون “۔ (النحل : ٣٢)

ترجمہ : اپنے اعمال کے سبب سے تم جنت میں داخل ہوجاؤ۔

اس آیت سے بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اعمال کے سبب سے نجات ہوگی اور یہ اس حدیث کے خلاف ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت کا معنی مجمل ہے اور حدیث نے اس کی تفسیر کردی ہے ‘ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ کی رحمت اور اس کے فضل سے جو تم نے نیک عمل کیے اس کی وجہ سے جنت میں داخل ہوجاؤ نہ یہ کہ تم محض ان اعمال کی وجہ سے دخول جنت کے مستحق ہو ‘ دوسرا جواب یہ ہے کہ جنت میں دخول نیک اعمال کی وجہ سے ہے لیکن نیک اعمال کی ہدایت دینا اور ان کا قبول فرمانا یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہے ‘ تیسرا جواب یہ ہے کہ جنت کے دخول کے دو سبب ہیں ایک صورۃ اور دوسرا حقیقۃ صورۃ سبب نیک اعمال ہیں اور حقیقۃ سبب اللہ کا فضل ہے ‘ اس آیت میں سبب صوری بیان فرمایا اور حدیث میں سبب حقیقی بیان فرمایا ہے۔

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 3 – آل عمران – آیت 109