أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَنۡ تُغۡنِىَ عَنۡهُمۡ اَمۡوَالُهُمۡ وَلَاۤ اَوۡلَادُهُمۡ مِّنَ اللّٰهِ شَيۡـــًٔا  ؕ وَاُولٰٓٮِٕكَ اَصۡحٰبُ النَّارِ‌ۚ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ

ترجمہ:

بیشک جن لوگوں نے کفر کیا ان کے مال اور ان کی اولاد ان کو اللہ (کے عذاب) سے ہرگز نہیں بچا سکیں گے وہ جہنمی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے

تفسیر:

آخرت میں کفار کے اعمال کا ضائع ہونا : 

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی صفات بیان فرمائی تھیں اور اب ان آیتوں میں ان کے مقابلہ میں کفار کے احوال بیان فرما رہا ہے۔ سو ان آیتوں میں کفار پر وعید بیان کی ہے اور ان کی آرزوؤں کا انقطاع بیان فرمایا ہے کہ وہ اپنے خیال میں دنیا میں جو کچھ بھی نیکی کے راستہ میں خرچ کرتے ہیں وہ سب رائیگاں جائے گا اور ان سے اللہ کے عذاب کو ہرگز دور نہیں کرسکے گا۔

یہود ‘ منافقین اور مشرکین نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت میں آپ کو نقصان پہنچانے کے لیے مال خرچ کرتے تھے اور اپنے اس خرچ پر خوش ہوتے تھے اور فخر کرتے تھے ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کے مال اور اس مال اور ان کی اولاد ان کو اللہ کے عذاب سے ہرگز نہیں بچا سکیں گے ‘ مال اور اولاد کا بالخصوص ذکر اس لیے فرمایا کہ انسان اپنی جان بچانے کے لیے کبھی مال ما فدیہ دیتا ہے اور کبھی اولاد کے ذریعہ اپنے آپ کو دکھ اور آزار سے بچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اور آیتوں میں بھی یہ فرمایا ہے کہ قیامت کے دن مال اور اولاد کسی شخص کو اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکیں گے ‘ فرمایا ہے :

(آیت) ” یوم لا ینفع مال ولا بنون “۔ (الشعراء : ٩١)

ترجمہ : جس دن نہ مال نفع دے گا نہ بیٹے۔

(آیت) ” فلن یقبل من احدھم ملء الارض ذھبا ولوافتدی بہ “۔ (ال عمران : ٩١) 

ترجمہ : سو ان میں سے کسی سے زمین بھر سونا (بھی) ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا خواہ وہ اسے فدیہ میں دے۔

(آیت) ” وما اموالکم ولا اولادکم بالتی نقربکم عندنا زلفی “۔ (سبا : ٣٧)

ترجمہ : تمہارے مال اور اولاد ایسے نہیں ہیں جو تم کو ہم سے قریب کردیں۔

کفار اپنے اموال کو دنیا کی اغراض باطلہ اور دنیاوی لذتوں کے لیے خرچ کرتے ہیں ‘ اور اگر وہ مال کو غریبوں کی مدد کے لیے اور نیکی کے راستوں میں خرچ کرتے ہیں تو لوگوں کو دکھانے ‘ سنانے ‘ اس پر تعریف چاہنے ‘ شہرت اور فخر کے لیے خرچ کرتے ہیں ‘ اللہ کے لیے خرچ نہیں کرتے اور اگر اللہ کے لیے خرچ کرتے تو اس کی پہلی شرط اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا ہے ‘ لیکن وہ زیادہ تر اپنے اموال کو اللہ کے راستہ سے لوگوں کو روکنے کے لیے اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع سے منع کرنے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور آپ کی عداوت اور آپ کی مخالفت میں اپنے اموال کو خرچ کرتے ہیں۔

اور یہ کفار جو اللہ کی مرضی کے خلاف اپنے اموال کو خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال اس طرح ہے جس طرح ظالموں کے کھیت پر سخت سرد جلا دینے والی ہوا پہنچے اور اس کھیت کو جلا ڈالے ‘ اس کی نظیر قرآن مجید کی یہ آیتیں ہیں :

(آیت) ” وقدمنا الی ما عملوا من عمل فجعلناہ ھبآء منثورا “۔ (الفرقان : ٢٣)

ترجمہ : اور انہوں نے (اپنے زعم میں) جو بھی نیک عمل کیے ‘ ہم ان کی طرف قصد فرمائیں گے پھر ہم انہیں (فضا میں ) بکھرے ہوئے (غبار کے) باریک ذرے بنادیں گے۔

(آیت) ” والذین کفروا اعمالھم کسراب بقیعۃ تحسبہ الظمان مآء حتی اذا جآءہ لم یجدہ شیاء۔ (النور : ٣٩)

ترجمہ : کافروں کے اعمال زمین میں چمکتے ہوئے ریت کی طرح ہیں جسے پیاسا پانی سمجھتا ہے ‘ حتی کہ جب وہ اس کے پاس آیا تو اسے کچھ بھی نہ پایا۔

جس طرح اللہ تعالیٰ ظالموں کے ظلم کے سبب ان کے کھیتوں کو جلا ڈالتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ آخرت میں کافروں کے اعمال کو برباد اور رائیگاں کر دے گا۔ اور ان کے اعمال کو قبول نہ فرمانا اللہ تعالیٰ کا ظلم نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے برے اعمال کی سزا دی ہے ‘ انہوں نے خود اپنی جانوں پر ظلم کیا اور ایمان کے ساتھ ایسے اعمال کرکے نہ لائے جنہیں اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتا ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ قاعدہ فرما دیا ہے کہ وہ ایمان کے بغیر کسی شخص کا کوئی نیک عمل قبول نہیں فرماتا :

(آیت) ” من عمل صالحا من ذکر او انثی وھو مومن فلنحیینہ حیوۃ طیبۃ ولنجزینھم اجرھم باحسن ماکانوا یعملون “۔ (النحل : ٩٧)

ترجمہ : جس مرد یا عورت نے نیک عمل کیا یہ شرطی کہ وہ مومن ہو تو ہم اس کو ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے اور ہم ان کے بہترین کاموں کا ان کو ضرور اجر عطا فرمائیں گے۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ظاہر اور واضح فرما دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کے کسی نیک عمل کو قبول نہیں فرماتا ‘ اور ان کے تمام اعمال آخرت میں ضائع ہوجائیں گے۔ نیک اعمال کے مقبول ہونے کی شرط ایمان ہے ‘ اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان پر سلامت رکھے اور ایمان پر ہمارا خاتمہ فرمائے۔

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 3 – آل عمران – آیت 116