جنتی اوصاف

ام حبیبہ

اللہ تبارک وتعا لیٰ کا ارشاد ہے :

اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الْخٰشِعِیْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ وَ الْمُتَصَدِّقِیْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآىِٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىِٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۝۳۵ (احزاب)

اس آ یت کے اندر جنتیوں کی چند اہم نشانیاں بتائی گئی ہیں جنھیں اپنانا ہر مسلمان مردوعورت کی ذمے داری ہے:

اسلام: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کو ئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور جو بھی ظاہری اعمال ہیں جن سے لوگوں کے نزدیک مسلمان ہو نا ثابت ہو جیسے نماز ،روزہ، زکوۃوغیرہ اور دوسری ضروریات دین وغیرہ کی پابندی کرنا۔

ایمان: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ لے کر آئے اس کی تصدیق کرنا ،اللہ کی وحدانیت اور اس کے تمام کمالات کی تصدیق کرنااور اپنے شعور سے اس کی معرفت حاصل کرنا۔ ایمان کا تعلق ان تمام چیزوں سے ہے جو ایک مومن و مومنہ کا اپنے مولیٰ سے قلبی لگاؤ کے لیے ضروری ہے۔

قنوت:خلوص اور دل جمعی سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا اور اس میں ہمیشگی اختیا رکرنا، اپنے وجود کو اس کے حکم کی تعمیل میں غرق کردینا اور اس کی اطاعت میں وہ طریقہ اختیار کرنا جس سے دل کا جھکاؤ اور یکسوئی حاصل ہو۔

صدق: اپنے قول اور عمل دونوںکو یکساں رکھنا، یعنی جو دل میں ہو وہی زبان پر بھی ہو۔

 قول کی سچائی یہ ہے کہ جیسا کرے ویسا ہی بولے اور عمل کی سچائی یہ ہے کہ وہی کرے جو زبان سے بولے۔ اسی سے انسانی سماج اور معاشرے میں اچھے کردار کو پہچان ملتی ہے۔ اس کے برخلاف اگر کوئی جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت تو برستی ہی ہے،ساتھ ہی وہ معاشرے میں کسی احترام کے قابل نہیں رہ جاتا۔ صدق گوئی ایمان کا ایک اہم حصہ ہے اور مومن و مومنہ کی اصل پہچان ہے۔

صبر: اللہ کی اطاعت کے لیے ہر دم کمربستہ رہنا، یعنی نفس اور شیطان کی مخالفت میں اپنے آپ کو خدا کی رضا جوئی پر قائم ودائم رکھنا، احکام الٰہی کی تعمیل میں مشقت و تکلیف برداشت کرنا،ہر رنج وغم کے وقت خدا کی طرف رجوع کرنا، نہ کہ شکوہ وشکایت زبان پر لانا اور معاشرتی زندگی میںبھی لوگوں کی طرف  سے غیر مناسب رویہ اور بدسلو کی کو برداشت کرنا۔

حضرت علی رضی اللہ تعا لی عنہ نے فرما یا ہے کہ :صبر ایمان کے لیے ایسا ہے جیسے سر بدن کے لیے ہے، یعنی اگر انسان کا سر نہ ہو تو بدن کس کام کا،یو نہی صبر کے بغیر ایمان ادھورا ہے ، اسی لیے صبر کو آدھا ایمان کہا گیا ہے۔ جب بندے میں یہ صفت آجاتی ہے تو اُسے اللہ تعالیٰ کی خاص معیت اور رحمت مل جاتی جیسا کہ قرآن مقدس میں مذکور ہے:

إنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ۔یعنی اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

خشوع: خداکی عظمت اور اس کے جلال کے آگے ہمیشہ اپنے آپ کو ذلیل وکمتر سمجھنا کہ دل اس کے خوف سے کانپتا رہے۔ غرورو تکبر کے بجائے تواضع اور عاجزی اپنانا۔

 روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام پروحی نازل فرمائی کہ میں صرف ایسے شخص کی نماز قبول کروں گاجو میری عظمت کے لیے تواضع اختیا ر کرے گا اور میرے بندوں کے ساتھ تکبر نہ کرے گا،اپنے دل میں خوف کو جگہ دے گا، تمام دن میری یاد میں بسر کرے گا اور خو دکو میرے لیے گناہوں سے محفوظ رکھے گا۔

تواضع حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جب ہم اپنے سے بڑوں کو دیکھیں تو یہ خیال کریں کہ اس کی نیکی ہم سے زیادہ ہے، کیونکہ کہ وہ عمر میں ہم سے بڑھ کر ہے،اس لیے یہ ہم سے بہتر ہے اور جب چھوٹوں کو دیکھیں تو یہ خیال کریں کہ یہ گناہ میں ہم سے کم ہے، کیونکہ اس کی عمر ہماری عمر سے کم ہے، اس لیے یہ بھی ہم سے بہتر ہے ۔

صدقہ: فرض زکوۃ کے علاوہ حاجت مندوں اور غریب و مسکین کی مدد کرنا اور راہ خدا میں جو لوگ لگے ہو ئے ہیں چاہے تعلیم وتدریس میں ہو ، یا دعوت وتبلیغ میں ،اُن پر خرچ کرنا، اُن کی ضروریا ت کو مکمل کرنا۔ صدقات وخیرات کے بغیر نیکی کا حصول نہیں ہو سکتا، جیسا کہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۝۹۲ (آل عمران)

یعنی تم ہرگز بھلائی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ اپنی پسندیدہ چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔

آج مسلمانوں کے اندر اگر یہ خصلت پیدا ہو جائے تو دین کاکوئی بھی شعبہ کسی کا محتاج نہ رہے اور نہ کوئی مسلمان بھوکا رہے۔

صوم: روزے کی عادت پیدا کرنا،یہ خدا سے قرب حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہے، بلکہ اس سے مومن وقتی طور پر خدا کی صفتوں سے متصف ہو جاتا ہے، جیسے خدا کی ذات کھانے ،پینے اور دیگر بشری تقاضوں سے پاک ہے۔ ایسے ہی روزے کی حالت میںہوتی ہے کہ بندہ نہ کھاتا ہے اور نہ پیتا ہے۔اس سے بندہ نفس کی غلامی سے آزاد ہو کر خالص اپنے رب کا غلام بن جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا کہ: روزہ شہوت توڑنے کے لیے ڈھال ہے۔

حفظ فروج: اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ شرمگاہوں کی حفاظت کرنا، یعنی جنسی شہوت کی تکمیل کے لیے حرام کاری سے بچنا۔ یہ مردو عورت دونوں پر یکساں صادق آتا ہے ،اس لیے وہ کسی بھی ایسی حرکت کو نہ کرے جس میں بے حیائی اور بے شرمی ہو۔

 بکثرت ذکر الٰہی: صبح وشام اللہ کو یا د کرنا اس طور پر کہ ذکر الٰہی اس کے سارے وجود پر چھا جائے ۔اس سے ایک پل بھی غا فل نہ رہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

 بندہ اُس وقت تک اللہ کوکثرت سے یا د کرنے والا نہیں ہو گاجب تک اس کی حالت ایسی نہ ہو جائے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے اور سوتے جاگتے اللہ کا ذکر نہ کرنے لگے، یعنی ہروقت وہ یاد مولی میں گم رہے۔

 ایک دوسری روایت میں ہے کہ :جو شخص اپنی نیند سے بیدار ہوا، اپنی بیوی کو بھی جگایا پھر دونوں نے مل کر دو رکعت نماز اداکی تو دونوں کا نام ان لوگو ں کی فہرست میں لکھ دیا جا تا ہے جو کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے ہیں ۔

 حاصل:ہرشخص اپنا اپنا جائزہ لے کہ وہ ان تمام خصلتوں کا عادی ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو اس کے لیے بلا شبہ مغفرت اور اجر عظیم (جنت)تیارہے اور اگر نہیں ہے تو اسے جلد سے جلد اپنانے کی کو شش کرے ۔مولیٰ تعالیٰ ہم سب کو ان صفتوں کاحامل بنائے ۔(آمین)