أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِيۡنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُهُمۡ وَاِذَا تُلِيَتۡ عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتُهٗ زَادَتۡهُمۡ اِيۡمَانًا وَّعَلٰى رَبِّهِمۡ يَتَوَكَّلُوۡنَ ۞

ترجمہ:

وہی لوگ مومن کامل ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل خوفزدہ ہوجائیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیتیں تلاوت کی جائیں تو وہ ان کے ایمان کو زیادہ کردیں اور وہ اپنے رب پر ہی توکل کرتے رہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :” وہی لوگ مومن کامل ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل خوفزدہ ہوجائیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیتیں تلاوت کی جائیں تو وہ ان کے ایمان کو زیادہ کردیں اور وہ اپنے رب پر ہی توکل کرتے رہیں “

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو بشرطیکہ تم کامل مومن ہو۔ اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ کمال ایمان کمال طاعت مستلزم ہے اور کمال ایمان اس وقت حاصل ہوگا جب اللہ کے ذکر سے مسلمان کا دل خوف زدہ ہو اور اللہ کی آیات سن کر اس کا ایمان قوی ہو اور وہ صرف اپنے رب پر توکل کرے، نماز قائم کرے اور صدقہ و خیرات ادا کرے، سو ایسے لوگوں کا ہی ایمان کامل ہے اور وہ برحق مومن ہیں۔ 

وجل کا معنی 

اس آیت میں فرمایا ہے ” وجلت قلوبہم ” علامہ راغب اصفہانی وجل کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وجل کا معنی ہے خوف محسوس کرنا، قرآن مجید میں ہے : انا منکم وجلون۔ قالوا لاتوجل : (ابراہیم نے کہا) ہم تم سے ڈر محسوس کر رہے ہیں (فرشتوں نے) کہا آپ مت ڈریے۔ (المفردات، ج 2، ص 655، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، 1418 ھ)

اللہ تعالیٰ کے ڈر اور خوف کے متعلق قرآن مجید کی آیات 

قرآن مجید کی اور آیتوں میں بھی یہ فرمایا کہ مسلمان اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں۔ 

اللہ نزل احسن الحدیث کتابا متشباہا مثانی تقشعر منہ جلود الذین یخشون ربہم ثم تلین جلودھم وقلوبہم الی ذکر اللہ : اللہ نے بہترین کلام نازل فرمایا، ایسی کتاب جس کی تمام باتیں ایک جیسی ہیں، بار بار دہرائی ہوئی، جو مسلامن اپنے رب سے ڈرتے ہیں اس سے ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، پھر ان کی کھالیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر کی طرف نرم ہوجاتے ہیں (الزمر :23)

قد افلح المومنون۔ الذین ھم فی صلاتھم خاشعون : بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئے، وہ جو اپنی نماز میں اللہ سے ڈرتے ہیں۔ (المومنون :1 ۔ 2)

ان الذین ھم من خشیۃ ربہم مشفقون : بیشک جو لوگ اللہ کے خوف سے کا نپتے رہتے ہیں (المومنون : 57)

انما ذالکم الشیطن یخوف اولیاءہ فلا تخافوہم وخافون ان کنتم مومنین : یہ محض شیطان ہے جو (تمہیں) اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے، سو تم ان سے نہ ڈرو اور (صرف) مجھ سے ڈرو، اگر تم مومن ہو (آل عمران : 175)

فلا تخشوا الناس واخشون : سو تم لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو (المائدہ :44)

ان لاذین یخشون ربہم بالغیب لہم مغفرۃ واجر کبیر : بیشک جو لوگ بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں، ان کے لیے مغفرت ہے اور بہت بڑا اجر ہے (الملک :12)

واما من خاف مقام ربہ ونہی النفس عن الھوی۔ فان الجنۃ ھی الماوی : اور رہا وہ شخص جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور نفس (امارہٰ کو اس کی خواہش سے روکا تو بیشک اس کا ٹھکانا جنت ہے (النازعات : 40 ۔ 41)

ولمن خاف مقام ربہ جنتان : اور جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا، اس کے لیے دو جنتیں ہیں (الرحمن :46)

اللہ تعالیٰ کے ڈر اور خوف کے متعلق احادیث اور آثار 

اللہ تعالیٰ کے خوف کی دو قسمیں ہیں ایک ہے عذاب کے خوف سے گناہوں کو ترک کرنا، یہ خوف عام مسلمانوں کو ہوتا ہے بلکہ عام مسلمانوں میں سے بھی پرہیز گاروں کو ہوتا ہے، اور دوسری قسم ہے اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کی عظمت سے اور اس کی بےنیازی سے ڈرنا، یہ خوف انبیاء اور مرسلین، اولیاء کاملین اور ملائکہ مقربین کو ہوتا ہے اور جس کا اللہ تعالیٰ سے جتنا زیادہ قرب ہوتا ہے اس کو اتنا زیادہ خوف ہوتا ہے۔

امام بخاری نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ اللہ کو جاننے والا ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 20) حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کی قسم مجھے امید ہے کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ تقوی کو جاننے والا ہوں۔ (صحیح مسلم صوم :79، (110) 2552 ۔ سنن ابو داود رقم الحدیث :2389 ۔ سنن کبری للنسائی، ج 5، رقم الحدیث : 3025)

حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے عرض کیا : یارسول اللہ ! آپ بوڑھے ہوگئے ! (یا آپ کے بال سفید ہوگئے) آپ نے فرمایا مجھے سورة ھود، سورة الواقعہ اور سورة المرسلات نے بوڑھا کردیا۔ (ان سورتوں میں قیامت کا ذکر ہے، یعنی قیامت کی ہولناکیوں کے خوف سے آپ کے بال سفید ہوگئے۔ ) (شمائل ترمذی رقم الحدیث 41 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 3297 ۔ حلیۃ الاولیاء ج 4، ص 35 ۔ المستدرک ج 2، ص 343 ۔ المعجم الکبیر ج 17، ص 286، رقم الحدیث : 790 ۔ کامل ابن عدی ج 2، ص 664)

حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک میں وہ چیزیں دیکھتا ہوں جس کو تم نہیں دیکھتے، اور میں وہ آوازیں سنتا ہوں جن کو تم نہیں سنتے، بیشک آسمان چرچرا رہا ہے (خوف خدا سے ڈری ہوئی آوازیں نکال رہا ہے) اور اس پر حق ہے کہ وہ چرچرائے، اور اللہ کی قسم اگر تم ان چیزوں کو جان لو جن کو میں جانتا ہوں تو تم ہنسو کم اور روؤ زیادہ، اور تم بستروں پر عورتوں سے لطف اندوز ہونا چھوڑ دو اور تم گھر سے باہر صحن میں نکل جاؤ اور بہ آواز بلند اللہ سے فریاد کرو۔ حضرت ابوذر نے کہا اللہ کی قسم ! میری خواہش ہے کہ میں ایک درخت ہوتا جس کو کاٹ دیا جاتا۔ (سنن اتلرمذی رقم الحدیث : 2318 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 4190)

حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے قرآن سناؤ۔ تو میں نے سورة النساء پڑھی۔ حتی کہ جب میں اس آیت پر پہنچا : فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشہید و جئنا بک علی ھؤلاء شہیدا : اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ہم آپ کو ان پر گواہ بنا کر لائیں گے۔ (النساء :41) ۔ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے حضور کی طرف دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 4582 ۔ صحیح مسلم رقم الحدیث :800 ۔ سنن ابو داود رقم الحدیث : 3268 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث :3036 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4194 ۔ مسند احمد ج 1، رقم الحدیث : 3550، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 7065 ۔ المعجم الکبیر ج 8، رقم الحدیث : 8460 ۔ مسند اوب یعلی رقم الحدیث : 5228 ۔ سنن کبری للبیہقی ج 10 ص 231)

حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک جنازہ میں تھے، آپ ایک قبر کے کنارے بیٹھ گئے اور آپ رونے لگے حتی کہ قبر کی مٹی بھگی گئی۔ پھر آپ نے فرمایا میرے بھائیو ! اس کی مثل کے لیے تیاری کرو۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4195)

حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا روؤ، اگر تم رو نہ سکو تو رونے جیسی شکل بنا لو۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4196)

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، جس بندہ مومن کی آنکھ سے اللہ کے خوف سے آنسو نکلے خواہ وہ مچھر کے سر جتنا ہو، پھر وہ آنسو رخسار کے سامنے کے حصہ کو مس کرے اللہ اس پر دوزخ کی آگ کو حرام کردیتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 4197)

حسن بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے درخت پر ایک پرندے کو بیٹھا دیکھ کر کہا تیرے لیے کتنی خیر ہے اے پرندے تو پھل کھاتا اور درخت پر بیٹھتا ہے، کاش میں ایک پھل ہوتا جس کو پرندے کھالیتے ! (کتاب الزہد لابن المبارک رقم الحدیث : 240، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

عبداللہ بن عامر بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا حضرت عمر بن الخطاب نے زمین سے ایک تنکا اٹھا کر کہا کاش میں ایک تنکا ہوتا ! کاش میں کچھ بھی نہ ہوتا ! کاش میں پیدا نہ ہوتا، کاش میں بھولا بسرا ہوتا۔ (کتاب الزہد لابن المبارک رقم الحدیث : 234)

حمید بن ہلال بیان کرتے ہیں کہ حرم بن حیان اور عبداللہ بن عامر اپنی سواریوں پر جا رہے تھے، راستہ میں خشک گھاس ملی تو ان کی اونٹنیاں اس گھاس کی طرف دوڑیں اور ان میں سے ایک نے وہ گھاس کھالی۔ حرم نے عبداللہ سے کہا کیا تم یہ پسند کرو گے کہ تم یہ گھاس ہوتے اور تم کو یہ اونٹنی کھا کر چلی جاتی، عبداللہ نے کہا اللہ کی قسم میں اس کو پسند نہیں کروں گا، بیشک میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ مجھے جنت میں داخل کردے گا، بیشک میں یہ امید رکھتا ہوں، بیشک میں یہ امید رکھتا ہوں۔ حرم نے کہا اللہ کی قسم اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ میرے دل کی بات مانی جائے گی تو میں یہ پسند کرتا کہ میں خشک گھاس ہوتا اور مجھے یہ اونٹنی کھا کر چلی جاتی۔ (کتاب الزہد لابن المبارک رقم الحدیث : 237)

زیاد بن محراق بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوالدرداء (رض) نے کہا میری خواہش ہے کہ میں اپنے گھر کا ایک مینڈھا ہوتا، گھر میں کوئی مہمان آتا اور مجھے ذبح کردیا جاتا اور گھر والے مجھے کھالیتے۔ (کتاب الزہد لابن المبارک رقم الحدیث : 238)

قتادہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) نے کہا کاش میں ایک مینڈھا ہوتا، مجھے گھر والے ذبح کردیتے اور میرا گوشت کھالیتے۔ حضرت عمران بن حصین (رض) نے کہا میں چاہتا ہوں کہ میں گھاس ہوتا اور مجھے تیز ہوا کے دن آندھی ارا کرلے جاتی۔ (کتاب الزہد لابن المبارک رقم الحدیث : 241)

اسحاق بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے فرمایا کاش میں ایک درخت ہوتی جس کو کاٹ دیا جاتا ! کاش میں پیدا نہ کی جاتی۔ (کتاب الزہد للوکیع رقم الحدیث : 161 ۔ الطبقات الکبری، ج 7، ص 75، مصنف ابن ابی شیبہ، ج 2، ص 251 ۔ 252)

ضحاک بن مزاحم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے کہا کاش میں پرندہ ہوتا۔ (کتاب الزہد للوکیع رقم الحدیث : 162)

قاسم بن عبدالرحمن بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ کے پاس ایک شخص نے کہا کاش میں اصحاب الیمین سے ہوتا، حضرت عبداللہ نے کہا کاش مجھے مرنے کے بعد اٹھایا نہ جاتا۔ (کتاب الزہد للوکیع، رقم الحدیث : 163)

یعقوب بن زید بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے درخت پر ایک پرندے کو دیکھ کر کہا کاش میں اس پرندہ کی جگہ ہوتا۔ (کتاب الزہد للوکیع، رقم الحدیث : 165)

حضرت عمرو بن میمون الاودی (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کی زندگی کے آخری ایام میں ایک انصاری نوجوان ان کی خدمت میں آئے اور کہا اے امیرالمومنین ! آپ اللہ کی بشارتوں سے خوش ہوجائیں، آپ قدیم الاسلام صحابی ہیں جس کا آپ کو علم ہے، اور پھر آپ خلیفہ بنے تو آپ نے عدل کیا، پھر ان تمام فضائل کے بعد آپ کو شہادت نصیب ہوئی، حضرت عمر نے کہا اے میرے بھتیجے ! کاش یہ سب برابر سرابر ہوجائے، مجھ کو عذاب ہو نہ ثواب ملے۔ (الحدیث) (صحیح البخاری رقم الحدیث : 1392)

حضرت عثمان (رض) کے آزاد کردہ غلام ھانی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ داڑھی آنسؤوں سے بھیگ جاتی، ان سے پوچھا گیا کہ آپ جنت اور دوزخ کا ذکر کرتے ہیں تو نہیں توے اور قبر کو دیکھ کر رونے لگتے ہیں ! حضرت عثمان (رض) نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قبر آخرت کی منازل میں سے پہلی منزل ہے، اگر انسان کو اس سے نجات مل جائے تو بعد کی منزلیں زیادہ آسان ہوتی ہیں اور اگر اس سے نجات نہ ملے تو بعد کی منزلیں اور مشکل ہوں گی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے جو بھی ہولناک منظر دیکھا قبر کا منطر اس سے زیادہ ہولناک تھا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 2315 ۔ سنن النسائی رقم الحدیث : 1823 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 4258 ۔ حلیۃ الاولیاء ج 9 ص 252، صحیح ابن حبان ج 9، رقم الحدیث : 292 ۔ مسند احمد ج 9، رقم الحدیث : 7930)

حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر اور حضرت عثمان (رض) ان صحابہ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زندگی میں جنگ کی بشارت دے دی تھی، اس کے باوجود یہ صحابہ اللہ کی بےنیازی اور جلال ذات سے اس قدر خوف زدہ رہتے تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے کہا کاش میں ایک پھل ہوتا جس کو پرندے کھالیتے یا میں ایک پرندہ ہوتا۔ حضرت عمر (رض) نے کہا کاش میں گھاس کا ایک تنکا ہوتا اور حضرت عثمان (رض) قبر کو دیکھ کر بےاختیار روتے تھے اور دیگر کبار صحابہ بھی اللہ تعالیٰ کے جلال ذات اور حساب و کتاب کی شدت سے گھبرا کر اور خوف کی زیادتی سے یہ کہتے تھے کہ کاش میں ایک درخت ہوتا جس کو کاٹ کر پھینک دیا جاتا، یا میں خشک گھاس ہوتا جس کو جانور کھالیتے، یا کوئی حلال جانور ہوتا جس کو مسلمان ذبح کرکے کھالیتے اور مجھے حساب و کتاب کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب سے بچ جاتا۔

ایمان میں کمی اور زیادتی کی تحقیق 

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور جب ان کے سامنے اس کی آیتیں تلاوت کی جائیں تو وہ ان کے ایمان کو زیادہ کردیں۔ اس آیت سے ائمہ ثلاثہ اور محدثین یہ ثابت کرتے ہیں کہ ایمان میں کمی اور زیادتی ہوسکتی ہے۔ محققین اور امام ابوحنیفہ کا نظریہ یہ ہے کہ ایمان بسیط ہے اور اس میں کمی زیادتی نہیں ہوتی، اس کی تحقیق یہ ہے کہ امام اعظم اور محققین کے نزدیک نفس ایمان میں اعمال داخل نہیں ہیں، اس لیے اس میں کمی اور زیادتی نہیں ہوتی اور نفس ایمان میں اعمال کے داخل ہونے کے ائمہ ثلاثہ اور محدثین بھی قائل نہیں ہیں اور ائمہ ثلاثہ اور محدثین ایمان کامل میں اعمال کے داخل ہونے کے قائل ہیں، اور ایمان کامل میں اعمال کے دخول کے امام اعظم اور محققین بھی قائل ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ نفس ایمان میں ان سب کے نزدیک اعمال داخل نہیں ہیں اور اس میں کمی زیادتی نہیں ہوتی اور ایمان کامل میں ان سب کے نزدیک اعمال داخل ہیں اور اس میں کمی اور زیادتی ہوتی ہے، اور اس آیت میں جو فرمایا ہے اور جب ان کے سامنے اس کی آیتیں تلاوت کی جائیں تو وہ ان کے ایمان کو زیادہ کردیں۔ اس سے ایمان کامل ہی مراد ہے۔ 

اصل میں یہ اختلاف ایک اور اختلاف پر مبنی ہے، امام شافعی وغیرہ کے نزدیک جب ایمان کا لفظ مطلقاً بولا جائے تو اس سے ایمان کامل مراد ہوتا ہے، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں اور ایمان میں کمی زیادتی ہوتی ہے۔ اور امام اعظم کے نزدیک جب ایمان کا لفظ مطلقاً بولا جائے تو اس سے نفس ایمان مراد ہوتا ہے اس لیے وہ کہتے ہیں کہ اعمال ایمان میں داخل نہیں ہیں اور اس میں کمی اور زیادتی نہیں ہوتی، اور دونوں جانب دلائل ہیں۔ 

اس کی پوری تفصیل اور تحقیق ہم نے البقرہ : 3 میں کردی ہے، اس لیے جو قائین، ایمان کے تمام مذاہب، دلائل اور ان میں محاکمہ جاننا چاہیں وہ اس کا مطالعہ کرلیں۔ 

اس کے بعد فرمایا ہے : اور وہ اپنے رب پر ہی توکل کرتے ہیں، توکل کی تفصیل اور تحقیق ہم نے آل عمران : 159 میں بیان کردی ہے، اس کے لیے تبیان القرآن، ج 2، ص 139 کا مطالعہ فرمائیں، اس آیت میں حصر فرمایا ہے یعنی یہ صرف اللہ سے ڈرنے والوں کی صفت ہے کہ وہ صرف اللہ کے فضل اور اس کی نصرت اور اعانت پر اعتماد کرتے ہیں اور اللہ کے ماسوا سے بالکلیہ مستغنی رہتے ہیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال آیت نمبر 2