أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَقَدۡ كُنۡتُمۡ تَمَنَّوۡنَ الۡمَوۡتَ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَلۡقَوۡهُ ۖ فَقَدۡ رَاَيۡتُمُوۡهُ وَاَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ

ترجمہ:

تم تو موت کے آنے سے پہلے موت کی تمنا کیا کرتے تھے سو اب تم نے موت کو دیکھ لیا ہے اور وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تم تو موت کے آنے سے پہلے موت کی تمنا کیا کرتے تھے ‘ سو اب تم نے موت کو دیکھ لیا ہے اور وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے۔ (آل عمران : ١٤٣)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے بعض صحابہ جنگ بدر میں حاضر نہیں ہو سکے تھے ‘ اور وہ جنگ احد برپا ہونے سے پہلے یہ تمنا کرتے تھے کہ پھر جنگ بدر کی طرح کوئی معرکہ ہو تو وہ اس جنگ میں داد شجاعت دیں یا شہید ہو کر اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب پائیں اور جب جنگ احد ہوئی تو ان میں سے بعض کفار کے دباؤ اور ان کے رش کی وجہ سے ثابت قدم نہ رہے اور ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور بعض صبر و استقامت کے ساتھ لڑتے رہے اور اس سے پہلے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا اس کو پورا کیا۔ سو جو لوگ کفار کے رش اور اچانک حملہ کی وجہ سے بھاگ پڑے تھے اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب فرمایا کہ تم تو موت کے آنے سے پہلے موت کی تمنا کیا کرتے تھے سو اب تم نے موت کو دیکھ لیا ہے اور وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے اور جنہوں نے اس پر صبر کیا اور استقامت کے ساتھ جہاد کرتے رہے انکی اللہ تعالیٰ نے تعریف کی۔

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ روایت کرتے ہیں :

ربیع بیان کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی ایک جماعت جنگ بدر میں شریک نہ ہوسکی تھی اور اہل بدر کو جو فضیلت اور کرامت حاصل ہوئی تھی اس سے محروم رہے تھے۔ اس لیے وہ یہ تمنا کرتے تھے کہ پھر کوئی جہاد کا موقع آئے تو وہ اللہ کی راہ میں قتال کریں پھر جب جنگ احد ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم تو موت کے آنے سے پہلے موت کی تمنا کیا کرتے تھے سو اب تم نے موت کو دیکھ لیا ہے اور وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے (جامع البیان ج ٤ ص ‘ ٧١ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ان کے چچا حضرت انس بن نضر (رض) جنگ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے انہوں نے کہا میں پہلے جہاد میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ساتھ شریک نہیں ہوسکا تھا ‘ اگر اب اللہ نے مجھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد میں شرکت کا موقع دیا تو اللہ تعالیٰ (لوگوں کو) دکھا دے گا کہ میں کس قدر کوشش کرتا ہوں ‘ جب جنگ احد میں مقابلہ ہوا تو مسلمان شکست کھاگئے حضرت نضر تلوار لے کر آگے بڑھے تو حضرت سعد بن معاذ سے ملاقات ہوئی۔ حضرت نضر (رض) نے کہا اے سعد کہا جارہے ہو ‘ مجھے تو احد کے پاس سے جنت کی خوشبو آرہی ہے ! وہ کفار سے قتال کرتے رہے حتی کہ قتل کردیئے گئے ان کی لاش پر اس قدر زخم تھے کہ ان کی بہن کے سوا ان کو کوئی نہ پہچان سکا ‘ ان کی بہن نے ان کی انگلیوں کے پوروں اور تل سے پہچانا تھا ان کے جسم پر ستر سے زیادہ نیزوں اور تیروں کے زخم تھے۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ٥٧٩‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

قرآن مجید کی زیر بحث آیت اور ان احادیث میں یہ تصریح ہے کہ صحابہ کرام شہادت کی تمنا کرتے تھے۔ نیز امام بخاری روایت کرتے ہیں :

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) یہ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ ! مجھے اپنی راہ میں شہادت عطا فرما اور اپنے رسول کے شہر میں مجھے موت عطا فرما۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ٢٥٣‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

اس آیت اور ان احادیث پر یہ سوال وارد ہوتا ہے کہ شہادت کا حاصل یہ ہے کہ کافر مومن پر غالب آکر مسلمان کو قتل کردے ‘ سو شہادت کی تمنا کافر کے ہاتھوں مرنے کی تمنا کرنا ہے ‘ اور مسلمان پر کافر کے غلبہ کی تمنا کرنا ہے اور یہ مذموم ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ شہادت فی نفسہ قبیح ہے لیکن چونکہ یہ اعلاء کلمۃ اللہ کا سبب ہے اس وجہ سے یہ حسن لغیرہ ہے ‘ اور جب مسلمان شہادت کی تمنا اور دعا کرتا ہے تو اس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے دین کو سربلند کرے اور اللہ کے دشمنوں کو قتل کرے۔ خواہ اس راہ میں اس کی جان جاتی رہے وہ یہ دعا نہیں کرتا کہ اس کو کوئی کافر آکر مار دے کیونکہ ایسی دعا تو معصیت اور کفر ہے۔

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 3 – آل عمران – آیت 143