أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَكَاَيِّنۡ مِّنۡ نَّبِىٍّ قٰتَلَ ۙ مَعَهٗ رِبِّيُّوۡنَ كَثِيۡرٌ ۚ فَمَا وَهَنُوۡا لِمَاۤ اَصَابَهُمۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَمَا ضَعُفُوۡا وَمَا اسۡتَكَانُوۡا ‌ؕ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الصّٰبِرِيۡنَ

ترجمہ:

اور کتنے نبیوں کے ساتھ اللہ والوں نے اللہ کی راہ میں قتال کیا ‘ تو اللہ کی راہ میں مصائب پہنچنے کی وجہ سے نہ وہ سست ہوئے نہ کمزور پڑے اور نہ دبے ‘ اور اللہ صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے

تفسیر:

مصائب میں ثابت قدمی پر سابقہ امتوں کا نمونہ : 

جو مسلمان جنگ احد میں گھبرا کر بھاگ گئے تھے ان کی تادیب کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ انبیاء سابقین اور ان کے متبعین کے احوال بیان فرما رہا ہے کہ تمہارے لیے انبیاء سابقین کے متبعین میں نمونہ ہے وہ جہاد کی سختیوں اور مشقتوں پر صبر کرتے تھے اور کسی مرحلہ پر دشمن سے گھبرا کر بھاگتے نہیں تھے ‘ سو جنگ احد میں تمہارا دشمنوں کے اچانک حملہ کرنے اور ازدہام سے گھبرا جانا اور افراتفری میں بھاگ جانا کس طرح مناسب ہوسکتا ہے تمہیں غور کرنا چاہیے کہ کتنے نبیوں نے اللہ کی راہ میں قتال کیا اور ان کے ساتھ ان کے اصحاب نے دین کی سربلندی کے لیے قتال کیا ‘ ان میں سے کتنے جنگ میں شہید ہوئے اور کتنے زخمی ہوگئے لیکن اس کے باوجود وہ سست اور کمزور نہیں ہوئے اور نہ اس کے بعد وہ جہاد کرنے سے گھبرائے نہ انہوں نے دشمنوں سے صلح کرنے کے لیے سوچا نہ وہ دنیا کے مال و متاع دیکھ کر اس کو لوٹنے کے لیے ٹوٹ پڑے ‘ نہ انہوں نے دشمنوں سے صلح کرنے کے لیے سوچا نہ وہ دنیا کے مال ومتاع دیکھ کر اس کو لوٹنے کے لیے ٹوٹ پڑے نہ انہوں نے پیٹھ پھیری بلکہ اپنے نبی کے شہید ہونے کے بعد بھی وہ اسی پامردی اور ثابت قدمی سے دشمنوں کے خلاف جہاد کرتے رہے۔ یہ ان کے چند قابل تحسین کاموں کی ایک جھلک ہے ‘ اور اس میں ان مسلمانوں پر تعریض ہے جو اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شہادت کی جھوٹی خبر سن کر گھبرا گئے تھے اور ان میں سے بعض ابوسفیان سے امان حاصل کرنے کی تدبیریں سوچ رہے تھے۔

انبیاء سابقین کے متبعین کے محاسن افعال میں سے یہ بھی ہے کہ انہوں نے جنگ میں ثابت قدم رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اپنے مطلوب کا ذکر کرنے سے پہلے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی اور اس میں دعا کا یہ ادب بتایا ہے کہ پہلے اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور پھر اللہ تعالیٰ سے کوئی اور مراد طلب کیا کرو ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی تحسین فرمائی اور ان کو نیکو کار قرار دیا اور ان کو دنیا اور آخرت اجر عطا فرمایا۔

آیات مذکورہ سے مستنبط مسائل : 

١٤٢ سے ١٤٨ تک جو آیات ذکر کی گئی ہیں ان سے حسب ذیل مسائل معلوم ہوتے ہیں :

(١) جنت میں داخل ہونے کے لیے جہاد کی سختیوں اور مشتقوں پر صبر کرنا چاہیے اور دین کی راہ میں اور شرعی احکام پر عمل کرنے میں جن مصائب کا سامنا ہو ان پر صبر کرنا چاہیے۔

(٢) اللہ کی راہ میں شہید ہونے کی سعادت محض اس کی آرزو کرنے سے نہیں ملتی ‘ بلکہ جہاد کی تکلیفوں اور صعوبتوں پر صبر کرنے سے ملتی ہے۔

(٣) شہادت کی تمنا میں یہ نیت نہ کرے کہ کوئی کافر مار دے ‘ بلکہ یہ نیت کرے کہ میں اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے لڑتا رہوں گا خواہ مجھے قتل کردیا جائے۔

(٤) رسول اپنی امتوں میں ہمیشہ نہیں رہتے اگر وہ فوت ہوجائیں یا شہید ہوجائیں تو ان کے مشن کو اسی سابقہ جذبہ سے آگے بڑھاتے رہنا چاہیے نہ یہ کہ آدمی اللہ کے دشمنوں سے مفاہمت کی تدبیریں سوچنے لگے۔

(٥) سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی باقی انبیاء علیہم اسلام کی مثل نبی اور رسول ہیں اور ان نبیوں پر موت آچکی ہے ‘ اور ہر نبی کا مشن دین کی تبلیغ ہے اور دین کی مکمل تبلیغ کرنے کے بعد ان کا مشن پورا ہوجاتا ہے اور دنیا سے ان کے تشریف لے جانے کے بعد ان کی رسالت اور تشریع باقی رہتی ہے ‘ سو اس سنت کے مطابق آپ بھی اپنے وقت پر وفات پاجائیں گے لیکن آپ کا دین اور اپ کی شریعت باقی رہے گی۔

(٦) موت کا ایک وقت مقرر ہے اور کوئی شخص اس وقت سے پہلے نہیں مرسکتا۔

(٧) ہر شخص کو اس کی نیت کا پھل ملتا ہے ‘ جو دنیا چاہتا ہے اس کو اپنے مقسوم کے مطابق دنیا مل جاتی ہے اور جو آخرت چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو آخرت میں اجر عطا فرماتا ہے۔

(٨) اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور نیکیوں کے لیے کوشش کرنا صرف اس امت کی خصوصیت نہیں ہے ‘ انبیاء سابقین علیہم الصلوت والتسلیمات کی امتیں بھی انتہائی صبر و استقامت کے ساتھ جہاد کے لیے بھرپور کوششیں کرتی رہیں۔

(٩) مصیبت ‘ پریشانی اور دشمنوں یورش کے وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے۔

(١٠) دعا میں اپنے مقصود کو طلب کرنے سے پہلے اپنے گناہوں پر توبہ اور استغفار کرنا چاہیے۔

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 3 – آل عمران – آیت 146