أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مَا كَانَ اللّٰهُ لِيَذَرَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ عَلٰى مَاۤ اَنۡـتُمۡ عَلَيۡهِ حَتّٰى يَمِيۡزَ الۡخَبِيۡثَ مِنَ الطَّيِّبِ‌ؕ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُطۡلِعَكُمۡ عَلَى الۡغَيۡبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَجۡتَبِىۡ مِنۡ رُّسُلِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ‌ ۖ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ‌ۚ وَاِنۡ تُؤۡمِنُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَلَـكُمۡ اَجۡرٌ عَظِيۡمٌ

ترجمہ:

اللہ کی یہ شان نہیں کہ وہ مومنوں کو اس حال پر چھوڑ دے جس پر (آج کل) تم ہو ‘ حتی کہ وہ ناپاک کو پاک سے الگ کر دے ‘ اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ تم (عام مسلمانوں) کو غیب پر مطلع کرے لیکن اللہ (غیب پر مطلع کرنے کے لیے) جن کو چاہتا ہے چن لیتا ہے اور وہ اللہ کے (سب) رسول ہیں، سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان (برقرار) رکھو اور اگر تم ایمان اور تقوی پر (برقرار) رہے تو تمہارے لیے بہت بڑا اجر ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ کی یہ شان نہیں کہ وہ مومنوں کو اس حال پر چھوڑ دے جس پر (آج کل) تم ہو حتی کہ وہ ناپاک کو پاک سے الگ کر دے۔ 

اصحاب رسول کے مومن اور طیب ہونے پر دلیل : 

امام ابن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ لکھتے ہیں : 

مجاہد بیان کرتے ہیں کہ جنگ احد کے دن اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو منافقوں سے متمیز کردیا ‘ ابن جریج نے کہا اللہ تعالیٰ نے سچے مومنوں کو جھوٹوں سے الگ کردیا۔ (جامع البیان ج ٤ ص ١٢٣‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ) 

یہ آیت بھی قصہ احد کے واقعات میں سے ہے جب عبداللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر مسلمانوں کے لشکر سے نکل گیا تو مومن اور منافق الگ الگ ہوگئے، اسی طرح جنگ احد کے فورا بعد جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوا کہ حمراء الاسد کے مقام پر ابو سفیان دوبارہ مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے تو آپ نے مسلمانوں کو اس کا تعاقب کرنے کا حکم دیا ‘ اس وقت مسلمان زخمی اور دل شکستہ ہونے کے باوجود آپ کے حکم کی تعمیل میں چل پڑے اور منافقوں نے آپ کا ساتھ نہیں دیا ‘ اس طرح مومن اور منافق الگ الگ ہوگئے۔ 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ دینے والے تمام صحابہ کرام (رض) کو مومن اور طیب فرمایا ہے اور یہ سات سو صحابہ تھے اور میں خلفاء راشدین حضرت ابوبکر (رض) ‘ حضرت عمر (رض) ‘ حضرت عثمان (رض) اور حضرت علی (رض) بھی ہیں اس لیے جو شخص ان کو برا اور کافر ‘ ظالم یا منافق کہتا ہے یا یہ کہتا ہے کہ آپ کے وصال کے بعد چھ کے سوا تمام اصحاب مرتد ہوگئے تھے وہ قرآن مجید کی اس آیت کے خلاف کہتا ہے۔ 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ تم (عام مسلمانوں) کو غیب پر مطلع کرے لیکن اللہ (غیب پر مطلع کرنے کے لیے) جن کو چاہتا ہے چن لیتا ہے اور وہ اللہ کے (سب) رسول ہیں۔ (آل عمران : ١٧٩) 

اعلی حضرت فاضل بریلوی (رح) (متوفی ١٣٤٠ ھ) اس آیت کے ترجمہ میں لکھتے ہیں : ” اور اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگو تمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے چاہے۔ “ 

محدث اعظم ہند سید محمد کچھوچھوی (رح) (متفی ١٩٦١ ء) ” اور نہیں ہے اللہ کہ آگاہی بخشے تم سب کو غیب پر لیکن اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے چ سے چاہے۔ “ 

علامہ پیر محمد کرم شاہ الازہری (رح) (متوفی ١٤١٨ ھ) لکھتے ہیں ” اور نہیں اللہ (کی شان) کہ آگاہ کرے تمہیں غیب پر البتہ اللہ (غیب کے علم کے لیے) چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہتا ہے “۔ 

ان تراجم میں ” من “ کو تبعیضیہ قرار دیا ہے ‘ جس کا حاصل ہے بعض رسولوں کو غیب پر مطلع فرمایا ہے اور ہمارے ترجمہ میں ” من “ ” من یشاء “ کا بیان ہے ‘ جس کا حاصل ہے سب رسولوں کو غیب پر مطلع فرمایا ہے ‘ کیونکہ سب رسول اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے اور برگزیدہ ہیں۔ 

انبیاء (علیہم السلام) کو علم الغیب ہے یا غیب کی خبروں کا علم ہے :

یعنی اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں کہ تم عام مسلمانوں کو لوگوں کے دلوں کے احوال پر مطلع کر دے اور تم لوگوں کو دیکھ کر یہ جان لو کہ فلاں شخص مومن ہے اور فلاں منافق ہے اور فلاں کافر ہے ‘ البتہ اللہ تعالیٰ مصائب ‘ آلام ‘ اور آزمائشوں کے ذریعہ مومنوں اور منافقوں کو متمیز کردیتا ہے۔ جیسا کہ جنگ احد میں منافق مسلمانوں سے الگ ہوگئے۔ اسی طرح اسلام کی راہ میں جب بھی جہاد کا موقع آیا منافق پیچھے ہٹ گئے اور مسلمان آگے بڑھے ‘ ماسوا رسولوں کے جن کو اللہ تعالیٰ غیب پر مطلع کرنے کے لیے چن لیتا ہے اور ان کو لوگوں کے دلوں کے احوال پر مطلع فرماتا ہے اور وہ نور نبوت سے جان لیتے ہیں کہ کس کے دل میں ایمان ہے اور کس دل میں نفاق ہے۔ 

اس آیت میں یہ صراحت سے بیان فرمایا ہے کہ انبیاء السلام غیب پر، مطلع ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ غیب پر مطلع ہونا غیب کے علم کو مستلزم ہے ‘ سو یہ آیت انبیاء (علیہم السلام) کے لیے علم غیب کے ثبوت میں قطعی الدلالۃ ہے ‘ بعض متاخرین علماء یہ کہتے ہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) کو علم الغیب نہیں دیا گیا اور علم الغیب صرف اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے البتہ انبیاء (علیہم السلام) کو غیب کی خبریں دی گئی ہیں اور غیب کی خبروں کا حاصل ہونا اور چیز ہے اور علم الغیب اور چیز ہے ‘ ان علماء کی مراد یہ ہے کہ علم الغیب میں اضافت اور ” الغیب “ میں لام استغراق کے لیے ہے اور اس سے مراد ہے تمام امور غیبیہ غیر متناہیہ کا علم ‘ اور ظاہر ہے کہ یہ علم الغیب اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے ‘ دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے علم الغیب کی اپنے غیر سے مطلقا ‘ نفی کی ہے : rnّ (آیت) ” قل لا یعلم من فی السموت والارض الغیب الا اللہ “۔ (النمل : ٦٥) 

ترجمہ : آپ کہئے کہ آسمانوں اور زمینوں میں اللہ کے سوا کسی کو علم الغیب نہیں ہے۔ 

اب اگر انبیاء (علیہم السلام) کے لیے علم الغیب مانا جائے تو ظاہر ہے قرآن مجید سے تعارض لازم آئے گا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ کہ جب مطلقا علم الغیب کا اطلاق کیا جائے تو اس سے متبادر علم الغیب ذاتی اور مستقل ہوتا ہے جس کا ثبوت بغیر کسی کی عطا کے ہوتا ہے اس لیے جب مطلقا یہ کہا جائے گا کہ انبیاء (علیہم السلام) کو علم الغیب ہے تو اس سے یہ وہم ہوگا کہ ان کو ذاتی اور مستقل طور پر علم الغیب ہے۔ 

امام احمد رضا فاضل بریلوی متوفی ١٣٤٠ ھ لکھتے ہیں : 

علم جب کہ مطلق بولا جائے خصوصا جب کہ غیب کی طرف مضاف ہو تو اس سے مراد علم ذاتی ہوتا ہے اس کی تشریح حاشیہ کشاف پر میر سید شریف (رح) نے کردی ہے اور یہ یقینا حق ہے کوئی شخص کسی مخلوق کے لیے ایک ذرہ کا بھی علم ذاتی مانے یقینا کافر ہے۔ (الملفوظ ج ٣ ص ٤٧‘ مطبوعہ نوری کتب خانہ لاہور) 

دوسری طرف قرآن مجید کی متعدد آیات اور بہ کثرت احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کو عموما اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خصوصا غیب کا علم دیا گیا ہے اس لیے ان میں تطبیق کے لیے بعض علماء نے یہ کہا کہ یوں کہا جائے کہ انبیاء (علیہم السلام) کو بعض علوم غیبیہ عطا کئے گئے ہیں (واضح رہے کہ یہ علوم اللہ کے اعتبار سے بعض ہیں) علامہ آلوسی نے کہا یوں کہا جائے کہ انبیاء (علیہم السلام) کو غیب کا علم دیا گیا یا وہ غیب پر مطلع کیے گئے ‘ علماء دیوبند نے اس کی یہ تعبیر کی انبیاء (علیہم السلام) کو غیب کی خبریں دی گئی ہے اور امت کو ان کے واسطے سے غیب پر مطلع کیا جاتا ہے ‘ اب ہم اس کے ثبوت میں مستند مفسرین کی عبارات نقل کر رہے ہیں۔ 

انبیاء (علیہم السلام) کو غیب پر مطلع کرنے کے متعلق علماء امت کی تصریحات : 

امام فخرالدین محمد بن عمر رازی شافعی متوفی ٦٠٦ لکھتے ہیں : 

اللہ تعالیٰ تم سب کو غیب کا عالم نہیں بنائے گا جیسے رسول کو علم ہے حتی کہ تم رسول سے مستغنی ہوجاؤ بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے رسالت کے ساتھ خاص کرلیتا ہے اور باقی لوگوں کو ان رسولوں کی اطاعت کا مکلف کرتا ہے ‘ نیز اس سے پہلے امام رازی نے لکھا ہے کہ غیب پر مطلع ہونا انبیاء (علیہم السلام) کے خواص میں سے ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٣ ص ١٠٦‘ مطبوعہ دار الفکر بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ) 

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ غیب پر مطلع کرنے کے لیے اپنے رسولوں کو چن لیتا ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن ج ٤ ص ٢٨٩ مطبوعہ انتشارات ناصر خسرو ایران ٗ ١٣٨٧ ھ) 

علامہ ابو الحیان عبداللہ بن یوسف غرناطی اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ لکھتے ہیں : 

اللہ تعالیٰ علم الغیب سے جس پر چاہے اپنے رسولوں کو مطلع فرماتا ہے ‘ پس رسول کا غیب پر مطلع ہونا اللہ تعالیٰ کی اس کی طرف وحی کے ذریعہ ہے ‘ سو اللہ تعالیٰ غیب سے یہ خبر دیتا ہے کہ فلاں شخص میں اخلاص ہے اور فلاں میں نفاق ہے اور یہ ان کو وحی کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے خود بہ خود بغیرواسطہ وحی کے معلوم نہیں ہوتا۔ (البحر المحیط ج ٣ ص ٤٤٩ طبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ) 

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں : 

واحدی نے سدی سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ پر میری امت اپنی صورتوں میں پیش کی گئی جیسا کہ حضرت آدم پر پیش کی گئی تھی اور مجھے یہ علم دیا گیا کہ کون مجھ پر ایمان لائے گا اور کون کفر کرے گا ‘ منافقوں کو یہ خبر پہنچی تو انہوں نے مذاق اڑایا اور کہا (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زعم یہ ہے کہ انہیں ان پر ایمان لانے والوں اور کفر کرنے والوں کا علم ہے اور ہم انکے ساتھ ہیں اور ان کو ہمارا علم نہیں ہے ‘ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ 

نیز علامہ آلوسی لکھتے ہیں : 

یہاں یہ اشکال ہوتا ہے کہ کبھی اللہ تعالیٰ نفوس قدسیہ میں سے بعض اہل کشف کو بھی غیب پر مطلع فرماتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بہ طور وراثت ہے یعنی انبیاء (علیہم السلام) کے واسطے سے ‘ اور انبیاء (علیہم السلام) کو بلاواسطہ غیب پر مطلع فرماتا ہے۔ (روح المعانی ج ٤ ص ‘ ١٣٨ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت)

شیخ محمود الحسن دیوبندی متوفی ١٣٣٩ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : 

خلاصہ یہ ہے کہ عام لوگوں کو بلاواسطہ کسی یقینی غیب کی اطلاع نہیں دی جاتی۔ انبیاء (علیہم السلام) کو دی جاتی ہے مگر جس قدر خدا چاہے۔ 

شیخ اشرف علی تھانوی متوفی ١٣٦٢ ھ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں 

اور اس آیت سے کسی کو شبہ نہ ہو کہ جو غیب خصائص باری تعالیٰ سے ہے اس میں رسل کی شرکت ہوگئی کیونکہ خواص باری تعالیٰ سے دو امر ہیں اس علم کا ذاتی ہونا اور اس علم کا محیط ہونا۔ یہاں ذاتی ہونا اور اس علم کا محیط ہونا۔ یہاں ذاتی اس لیے نہیں ہے کہ وحی سے ہے اور محیط اس لیے نہیں کہ بعض امور خاص مراد ہیں (بیان القرآن ج ١ ص ١٥٠‘ مبطوعہ تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور ‘ کراچی) 

مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی ١٣٩٦ ھ لکھتے ہیں :

حق تعالیٰ خود بذریعہ وحی اپنے انبیاء کو جو امور غیبیہ بتاتے ہیں وہ حقیقتا علم غیب نہیں بلکہ غیب کی خبریں ہیں جو انبیاء کو دی گئی ہیں جس کو خود قرآن کریم نے کئی جگہ انباء الغیب کے لفظ سے تعبیر فرمایا : (معارف القرآن ج ٢ ص ٢٤٨‘ مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی ‘ ١٤١٤ ھ) 

سید ابوالاعلی مودودی متوفی ١٣٩٩ ھ اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے : 

مگر اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ تم کو غیب پر مطلع کر دے۔ غیب کی باتیں بتانے کے لیے تو وہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے منتخب کرلیتا ہے منتخب کرلیتا ہے، یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے کیونکہ اس ترجمہ کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سب رسولوں کو غیب پر مطلع نہیں فرماتا بلکہ منتخب رسولوں کو غیب پر مطلع فرماتا ہے۔ شیخ اشرف علی تھانوی کا ترجمہ صحیح ہے وہ لکھتے ہیں : 

اللہ تعالیٰ (بمقتضائے حکمت) ایسے امور غیبیہ پر تم کو (بلاواسطہ ابتلاء امتحان کے) مطلع نہیں کرنا چاہتے لیکن ہاں جس کو (اس طرح مطلع کرنا) خود چاہیں اور (ایسے حضرات) وہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں۔ 

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم غیب اور علم ماکان وما یکون ‘ کے متعلق احادیث : 

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو اللہ تعالیٰ نے علم غیب عطا فرمایا ہے اس پر حسب ذیل احادیث دلالت کرتی ہیں : 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابوموسی اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چند چیزوں کے متعلق سوال کیا گیا جن کو آپ نے ناپسند کیا جب آپ سے زیادہ سوالات کیے گئے تو آپ غضبناک ہوئے اور آپ نے لوگوں سے فرمایا تم جو چاہو مجھ سے سوال کرو ‘ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا تمہارا باپ حذافہ ہے ‘ دوسرے شخص نے کہا یا رسول اللہ ! میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا تمہارا باپ شیبہ کا آزادہ کردہ غلام سالم ہے ‘ جب حضرت عمر (رض) نے آپ کے چہرے میں غضب کے آثار دیکھے تو عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم اللہ عزوجل سے توبہ کرتے ہیں۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ٢٠۔ ١٩‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

اس حدیث سے یہ وجہ استدلال یہ ہے کہ آپ کا یہ فرمانا مجھ سے جو چاہو سوال کرو یہ اسی وقت درست ہوسکتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر سوال کے جواب کا علم عطا فرمایا ہو خواہ احکام شرعیہ سے متعلق سوال کیا جائے یا ماضی اور مستقبل کی خبروں کے متعلق سوال کیا جائے یا اسرار تکوینیہ کے متعلق سوال کیا جائے اور صحابہ کرام (رض) نے اس کو عموم پر ہی محمول کیا تھا اس لیے دو اصحاب نے آپ سے اپنے نسب کے متعلق سوال کیا۔ 

حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان ایک مجلس میں کھڑے ہوئے پھر آپ نے ابتداء خلق سے خبریں بیان کرنا شروع کیں حتی کہ جنتیوں کے اپنے ٹھکانوں تک جانے اور جہنمیوں کے اپنے ٹھکانوں تک جانے کی خبریں بیان کیں جس شخص نے ان کو یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جس نے ان کو بھلا دیا اس نے ان کو بھلا دیا۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ‘ ٤٥٣ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم میں ایک تقریر فرمائی اور اس میں قیامت تک ہونے والے تمام امور بیان فرمادیے جس شخص نے اسے جان لیا اس نے جان لیا اور جس نے نہ جانا اس نے نہ جانا (صحیح بخاری ج ٢ ص ‘ ٩٧٧ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابوزید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی اور منبر پر رونق افروز ہوئے اور ہمیں خطبہ دیا حتی کہ ظہر کا وقت آگیا پھر منبر سے اترے اور ظہر کی نماز پڑھائی اور پھر منبر پر رونق افروز ہوئے اور ہمیں خطبہ دیا حتی کہ عصر کا وقت آگیا پھر آپ منبر سے اترے اور عصر کی نماز پڑھائی پھر آپ نے منبر پر چڑھ کر خطبہ دیا حتی کہ سورج غروب ہوگیا پھر آپ نے ہمیں تمام ماکان وما یکون کی خبریں دی سو جو ہم میں زیادہ حافظہ والا تھا اس کو ان کا زیادہ علم تھا۔ (صحیح مسلم ج ٤ ص ‘ ٢٢١٧‘ رقم الحدیث ٢٨٩٢‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت) 

حضرت ثوبان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ نے تمام روئے زمین کو میرے لیے لپیٹ دیا اور میں نے اس کے تمام مشارق اور مغارب کو دیکھ لیا۔ 

حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی لکھتے ہیں : 

لہذا ان لوگوں کا قول باطل ہے جنہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر شریف اور دیگر صالحین کی قبروں کی زیارت کیلیے سفر کرنے سے منع کیا ہے ‘ نیز لکھا ہے کہ ابن تیمیہ سے جو مسائل منقول ہیں یہ ان میں سب سے قبیح مسئلہ ہے۔ (فتح الباری ج ٣ ص ٦٦ مطبوعہ دار نشر الکتب الاسلامیہ ‘ لاہور ١٤٠١ ھ) 

علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ لکھتے ہیں : 

طلب علم ‘ تجارت نیک لوگوں اور متبرک مقامات کی زیارت کے لیے سفر کرنا ممنوع نہیں ہے ‘ نیز لکھا ہے کہ قاضی ابن کج نے کہا ہے کہ اگر کسی شخص نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر کی زیارت کے لیے نذر مانی تو اس نذر کو پورا کرنا واجب ہے۔ (عمدۃ القاری ج ٧ ص ٢٥٤‘ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ ‘ مصر ١٣٤٨ ھ) 

ملا علی قاری حنفی نے لکھا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر کی زیارت کے لیے سفر کو حرام کہنے کی وجہ سے شیخ ابن تیمیہ کی تکفیر کی گئی ہے اور یہ تکفیر صحت اور صواب کے زیادہ قریب ہے کیونکہ جس چیز کی اباحت پر اتفاق ہو اس کو حرام کہنا بھی کفر ہے تو جس چیز کے مستحب ہونے پر تمام علماء کا اتفاق ہے اس کو حرام کہنا بہ طریق اولی کفر ہوگا۔ (شرح الشفاء ج ٣ ص ١٦١۔ ١٦٠‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت) 

امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص نیکی کرتی ہوا بیت اللہ میں داخل ہو وہ اپنے گناہوں سے بخشا ہوا بیت اللہ سے نکلے گا۔ (المعجم الکبیر ج ١١ ص ‘ ١٤٢ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت) 

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص بیت اللہ میں داخل ہوا وہ بخشا ہوا نکلے گا۔ 

علامہ عز الدین بن جماعہ الکنانی متوفی ٧٦٧ ھ لکھتے ہیں : 

امام ابو سعید جندی فضائل مکہ میں اور امام واحدی اپنی تفسیر میں حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے بیت اللہ کے گرد سات طواف کئے اور مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز پڑھی ‘ اور زمزم کا پانی پیا اس کے گناہ جتنے بھی ہوں ہوں معاف کردیئے جائیں گے۔ 

امام ازرقی نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کوئی شخص بیت اللہ میں طواف کے ارادہ سے نکلتا ہے تو اللہ کی رحمت اس کا استقبال کرتے ہے ‘ اور جب وہ بیت اللہ میں داخل ہوتا ہے تو اللہ کی رحمت اس کو ڈھانپ لیتی ہے ‘ اور اس کے ہر قدم کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ پانچ سو نیکیاں لکھ دیتا ہے اور اس کے پانچ سو گناہ مٹا دیتا ہے ‘ اور اس کے لیے پانچ سودرجات بلند کردیتا ہے اور جب وہ طواف سے فارغ ہو کر مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھتا ہے ‘ تو وہ گناہوں سے اسی طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے اپنی ماں کے بطن سے پیدا ہوا تھا اور اس کے لیے اولاد اسماعیل سے دس غلاموں کے آزاد کرنے کا اجر لکھ دیا جاتا ہے اور حجر اسود کے قریب ایک فرشتہ اس کا استقبال کرکے کہتا ہے تم اپنے پچھلے عملوں سے فارغ ہوگئے ‘ اب از سر نو عمل شروع کرو ‘ اور اس کو اس کے اس کے خاندان کے ستر نفوس کے حق میں شفاعت کرنے والا بنایا جائے گا۔ (اخبار مکہ ج ٢ ص ٥۔ ٤) (صحیح مسلم ج ٤ ص ٢٢١٦۔ ٢٢١٥‘ رقم الحدیث ٢٨٨٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ سنن ابوداؤد ج ٤ ص ٩٥‘ رقم الحدیث ٤٢٥٢ مطبوعہ بیروت ‘ دلائل النبوۃ ج ٦ ص ٥٨٧‘ مسند احمد ج ٥ ص ٢٧٨ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ) 

امام ترمذی روایت کرتے ہیں :

حضرت معاذبن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبح کی نماز کے لیے آنے میں دیر کی حتی کہ عنقریب ہم سورج کو دیکھ لیتے پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلدی سے آئے اور نماز کی اقامت کہی گئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مختصر نماز پڑھائی ‘ پھر آپ نے سلام پھیر کر ہم سے بہ آواز بلند فرمایا جس طرح اپنی صفوں میں بیٹھے ہو بیٹھے رہو ‘ پھر ہماری طرف مڑے اور فرمایا میں اب تم سے یہ بیان کروں گا کہ مجھے صبح کی نماز کے لیے آنے میں کیوں دیر ہوگئی ‘ میں رات کو اٹھا اور وضو کر کے میں اتنی نماز پڑھی جتنی میرے لیے مقدر کی گئی تھی پھر مجھے نماز میں اونگھ آگئی پھر مجھے گہری نیند آئی اچانک میں نے اچھی صورت میں اپنے رب تبارک وتعالیٰ کو دیکھا رب تعالیٰ نے فرمایا : اے محمد ! میں نے کہا اے میرے رب میں حاضر ہوں ‘ فرمایا ملاء اعلی کس چیز میں بحث کر رہے ہیں ؟ میں نے کہا میں نہیں جانتا ‘ آپ نے کہا میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دو کندھوں کے درمیان رکھا اور اس کے پوروں کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی پھر ہر چیز مجھ پر منکشف ہوگئی اور میں نے اس کو جان لیا۔ الحدیث الی قولہ امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ میں نے امام بخاری سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا یہ حدیث صحیح ہے۔ (الجامع الصحیح ج ٥ ص ٣٦٩۔ ٣٦٨‘ رقم الحدیث ٣٢٣٥‘ مطبوعہ بیروت ‘ ج ٢ ص ١٥٥‘ فاروقی کتب خانہ ملتان ‘ ومطبع مجتبائی پاکستان وکتب خانہ رحیمیہ دیوبند انڈیا ‘ مسند احمد ج ١ ص ٣٦٨‘ ج ٤ ص ٦٦‘ العلل المتناصیہ ج ١ ص ٢١۔ ٢٠) 

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے (خواب میں) اپنے رب کو حسین صورت میں دیکھا ‘ میرے رب نے فرمایا : اے محمد ! میں نے کہا حاضر ہوں یارب ! فرمایا ملاء اعلی کس چیز میں بحث کر رہے ہیں ؟ میں نے کہا اے رب میں نہیں جانتا پھر اللہ تعالیٰ نے اپناہاتھ میرے دو کندھوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی ‘ پھر میں نے جان لیا جو کچھ مشرق اور مغرب کے درمیان ہے۔ (الجامع الصحیح ج ٥ ص ٣٦٧‘ رقم الحدیث ٣٢٣٤‘ مطبوعہ بیروت ‘ ج ٢ ص ١٥٦‘ فاروقی کتب خانہ ملتان ‘ ومطبع مجتبائی پاکستان وکتب خانہ رحیمیہ دیوبند انڈیا ‘ تحفۃ الاحوذی ج ٢ ص ١٧٥۔ ١٧٣‘ نشرالسنۃ ملتان) 

یہ حدیث حضرت عبدالرحمن بن عائش سے بھی مروی ہے دیکھئے سنن دارمی ج ٢ ص ٥١‘ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی ص ٣٧٨‘ جامع البیان للطبری ج ٧ ص ١٦٢‘ الدرالمنثور ج ٣ ص ٢٤‘ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کو امام ابن خزیمہ اور امام ابو نعیم کے حوالے سے بھی ذکر کیا ہے۔ الاصابہ ج ٢ ص ٣٩٩۔ ٣٩٧‘ الطبقات الکبری ج ٧ ص ١٥٠‘ زاد المسیر ج ١ ص ١٥٥‘ اتحاف السادۃ المتقین ج ١ ص ٢٢٥ میں بھی یہ حدیث مذکور ہے۔ 

اس حدیث کے مزید حوالہ جات شرح صحیح مسلم ج ١ ص ٣١٦۔ ٣١٤ اور ج ٥ ص ١١٦۔ ١١٤ میں ملاحظہ فرمائیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران – آیت نمبر 179