أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَاسۡتَجَابَ لَهُمۡ رَبُّهُمۡ اَنِّىۡ لَاۤ اُضِيۡعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنۡكُمۡ مِّنۡ ذَكَرٍ اَوۡ اُنۡثٰى‌‌ۚ بَعۡضُكُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍ‌‌ۚ فَالَّذِيۡنَ هَاجَرُوۡا وَاُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِيَارِهِمۡ وَاُوۡذُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِىۡ وَقٰتَلُوۡا وَقُتِلُوۡا لَاُكَفِّرَنَّ عَنۡهُمۡ سَيِّاٰتِهِمۡ وَلَاُدۡخِلَنَّهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ‌ۚ ثَوَابًا مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ ‌ؕ وَ اللّٰهُ عِنۡدَهٗ حُسۡنُ الثَّوَابِ

ترجمہ:

سو ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمائی کہ بیشک میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کرتا خواہ وہ مرد ہو یا عورت ‘ تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو ‘ سو جن لوگوں نے ہجرت کی اور ان کو گھروں سے نکال دیا گیا اور ان کو میری راہ میں اذیتیں پہنچائی گئیں اور جنہوں نے جہاد کیا اور جو شہید کردیئے گئے ‘ میں ضرور ان سب کے گناہ مٹادوں گا اور ان کو ضرور ان جنتوں میں داخل کروں گا ‘ جن کے نیچے سے دریا بہتے ہیں ‘ یہ اللہ کی طرف سے ثواب ہوگا اور اللہ ہی کے پاس بہترین ثواب ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سو ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمائی کہ بیشک میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کرتا خواہ وہ مرد ہو یا عورت ‘ تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو ‘ سو جن لوگوں نے ہجرت کی اور ان کو گھروں سے نکال دیا گیا اور ان کو میری راہ میں اذیتیں پہنچائی گئیں اور جنہوں نے جہاد کیا اور جو شہید کردیئے گئے ‘ میں ضرور ان سب کے گناہ مٹادوں گا اور ان کو ضرور ان جنتوں میں داخل کروں گا ‘ جن کے نیچے سے دریا بہتے ہیں ‘ یہ اللہ کی طرف سے ثواب ہوگا اور اللہ ہی کے پاس بہترین ثواب ہے۔ (آل عمران : ١٩٥) 

دعا کے قبول ہونے کا ایک طریقہ :

اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی پانچ دعائیں ذکر فرمائی تھیں : ” ربنا ما خلقت ھذا باطلا سبحنک فقنا عذاب النار ربنا انک من تدخل النار فقد اخزیتہ وما للظالمین من انصار ‘ ربنا اننا سمعنا منادیاینادی للایمان ان امنوا بربکم فامنا فاغفرلنا ذنوبنا ‘ وکفر عنا سیاتنا وتوفنا مع الابرابر ‘ ربنا واتنا ما وعدتنا علی رسلک ولا تخزنا یوم القیمۃ “۔ اس آیت میں ان دعاؤں کی مقبولیت کا بیان ہے ‘ امام جعفر صادق نے فرمایا جو شخص اپنی دعاؤں میں پانچ مرتبہ ربنا کہے اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرماتا ہے کیونکہ اس سے پہلے مسلمانوں نے اپنی دعاؤں میں پانچ مرتبہ ربنا کہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما لی۔ 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کرتا ‘ اس پر یہ اعتراض ہے کہ عمل ‘ عامل سے صادر ہونے کے بعد فنا ہوجاتا ہے تو پھر اس کے ضائع نہ کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ میں کسی عمل کا ثواب ضائع نہیں کرتا ‘ یا اس سے مراد یہ ہے کہ میں خضوع اور خشوع اور حضور قلب سے کی ہوئی کسی دعا کو ضائع نہیں کرتا ‘ اللہ تعالیٰ دعا کو فورا قبول فرما لیتا ہے ‘ یا اپنی کسی حکمت کی وجہ سے اس کو موخر کردیتا ہے ‘ اور دعا کرنے والا تاخیر پر صبر کرے تو اس کو اجر عطا فرماتا ہے یا اس دعا کے عوض اس سے کوئی مصیبت ٹال دیتا ہے۔ 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو ‘ اس آیت کے سبب نزول میں، امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ روایت کرتے ہیں : 

مجاہد بیان کرتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں نے ہجرت (کے اجر وثواب) میں عورتوں کا ذکر بالکل نہیں سنا تو یہ آیت نازل ہوئی : (جامع البیان ج ٤ ص ‘ ١٤٣ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ) 

تمام صحابہ کے مومن ہونے کی دلیل : 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عہد رسالت کے مہاجرین اور مجاہدین سے بلا استثناء مغفرت اور جنت کا وعدہ کیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ تمام صحابی جنتی اور مغفور ہیں اور شیعہ اور رافضیہ کا یہ کہنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد چھ کے سوا باقی تمام صحابہ مرتد ہوگئے تھے ‘ اس آیت کے صریح خلاف ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ عہد رسالت کے تمام جہاد کرنے والے اور ہجرت کرنے والے مسلمانوں سے مغفرت اور جنت کا وعدہ نہ فرماتا اور انہوں نے مغفرت اور دوزخ سے نجات کی جو دعائیں کی تھیں ان کو قبول نہ فرماتا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران – آیت نمبر 195